جھوٹے سچ پر استوار سچے جھوٹ کی تماشا گاہ کے زور پر عقلی سوچ سے حصول آزادی کا مارچ


روزنامہ جنگ راولپنڈی مورخہ 16 نومبر 2022 کی لینڈنگ ہیڈ لائنز توشہ خانے کے ان تحائف کی خرید و فروخت کے بارے میں شائع ہوئیں جو 2019ء میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے مبینہ طور پر دوبئی کی کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور سے رابطہ کر کے انہیں خرید لینے پر آمادہ کیا۔ خبر کے مطابق عمر فاروق نے دعویٰ کیا گہ اس کے نتیجے میں عمران خان کی اہلیہ محترمہ بشری بی بی کے توسط سے ان کی قریبی دوست فرح خان عرف گوگی صاحبہ یہ تحفے لے کر دوبئی گئیں اور وہاں 20 لاکھ ڈالر کی نقد رقم کے عوض عمر فاروق کے ہاتھ بیچ ڈالے، جبکہ اس دوران ڈالر کے جاری ریٹ کے مطابق تحائف کی کل قیمت ایک ارب ستر کروڑ روپے ہونی بتائی جاتی ہے جو وہاں صرف 28 کروڑ روپے قیمت لے کر فروخت ہوئے۔

اس پر تحریک انصاف کی جانب سے خریدار کو جعل ساز، مجرم اور انٹرنیشنل دو نمبری قرار دیتے ہوئے اس کے دعوی کردہ متعلقات سے یہ کہہ کر سراسر انکار سامنے لایا گیا کہ فرح خان گوگی نہ عمر فاروق کو جانتی ہیں اور نہ کبھی وہ ان سے ملی ہیں۔ لیکن، اسی اخباری صفحے پر ایک ذیلی سرخی تحریک انصاف کے لیڈر فیصل واوڈا کے حوالے سے بھی موجود ہے کہ ’عمر فاروق سے ملاقات وزیر اعظم آفس کی ہدایت پر ہوئی تھی‘ ۔ اس ضمن میں دیگر سوالات کے جھمیلوں میں پڑے بغیر سادہ سا صرف ایک سوال ایسا سامنے آ اٹھتا ہے کہ جس کا کوئی جواب ہماری پارلیمنٹ کا قابل اعتبار ٹھہر پاتا ہے اور نہ ہمارے آئین، قانون، نظام انصاف یا مذہبی اوصاف کے حامل کسی ادارے سے فراہم ہونا قابل عمل گردانا جا سکتا ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارے ملک میں ہر جگہ عقل و خرد کو ایسی اونگھ نے آ لیا ہے کہ جس کے زیر اثر نت نئی عفریتوں نے جنم لینے کا رستہ پا لیا ہے اور یہ بھی کہ آخر ایسی عفریتوں سے چھٹکارا یا ان کے مفسدات کا مداوا کب اور کیسے قرار واقعی طور پر ممکن ہو پائے گا؟

عقل و خرد کو ماننے و منوانے کا اعتبار ہم نے ملکی و ریاستی دستور کے پیمانے سے طے کر رکھا ہے، جسے زبان دینے کا حق پارلیمنٹ نے سنبھال رکھا ہے اور جس کی ترجمانی حکومت ادا کرتی ہے۔ عقل و خرد کو کہیں اونگھ لگ جائے، تو اس کی تشریح کا دریچہ ہماری عدلیہ وا کر دیتی ہے، عدلیہ کی تشریح کا اعتبار نبھانے کا ذمہ فوج اٹھا لیتی ہے جس کے زیر اثر عقل و خرد کی اونگھ کسی نہ کسی طرح اچاٹ ہونے یا سنبھلنے کو آجاتی ہے اور کسی ممکنہ عفریت کے جنم لے اٹھنے کا احتمال ٹل جاتا ہے، لیکن، کہیں اس سارے بندوبست یا اس کے کسی ایک حصے میں عقلی (دستوری) سچ کی جگہ جھوٹے سچ کو منانے اور منوانے کی اکساہٹ لاحق ہو جائے تو وہاں اتھارٹی کے اختیارات کے استعمال سے عقلی سچ کی جگہ جھوٹا سچ طے ہو جاتا ہے، جو چلتے چلتے آگے سچے جھوٹ کے قالب میں ڈھل کر ریاستی، قومی اور معاشرتی مزاج میں رچ بس جاتا ہے، جس پر آبادی کی اکثریت مروجہ سچے جھوٹ کی عادی ہو جاتی ہے اور عقلی سچ آبادی کی اقلیت تک محدود ہوتے ہوتے با الآخر بیگانگی کی حالت سے دوچار ہو کر ایک طرف پڑا رہ جاتا ہے۔ یہی وہ حالت ہوتی ہے جب عقل کو اونگھ آ لیتی ہے اور نت نئی عفریتیں جنم لینے کا رستہ پا لیتی ہیں، جن کے نرغے میں آج کل پاکستان گھرا دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان میں عقلی سچ سے بیگانگی اکسانے کی تاریخ یعنی پاکستان میں آئینی ڈیڈ لاک کی تاریخ کا سلسلہ تو بہت لمبا چوڑا ہے، تاہم یہاں اس کا رواں آخری سرا تو بالکل سامنے موجود ہے جو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد منظور ہونے کے بعد آ نکلا اور جس کے نتیجے میں دس بارہ سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہو گئی اور جو عین آئینی تقاضوں کے تحت عمل میں لائی گئی، لیکن عمران خان کی ذاتی انا اس پر شدید زخمی ہو کے رہ گئی، جس کے سہلانے کے لیے انہوں نے ’سائفر‘ کا ایک ایسا بہلاوا جیب سے نکال کر لہرا دیا جو جھوٹے سچ پر استوار کر کے بخوبی ’کھیلا‘ گیا اور پوری سج دھج سے ”بوتھیوں اور یوتھیوں“ کی تماشہ گاہ کے لئے واہ واہ کی داد و تحسین کا مظہر بن اٹھا، جس کے بل بوتے پر آئینی بند و بست کی اتحادی حکومت کو ’امپورٹڈ حکومت‘ ٹھان لینے کا سچا جھوٹ بلا روک ٹوک کھیلا جانے لگ پڑا۔

سائفر کے جھوٹے سچ پر استوار امپورٹڈ حکومت کے سچے جھوٹ کو مزید تقویت دینے کے لیے ’آزادی مارچ‘ پر مبنی لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے بھرنے کی زور آزمائی کے دوران وزیر آباد میں تحریک طالبان پاکستان کے ہیبت ناک جہادی حملوں کی طرح ایک ’خطرناک‘ جہادی حملہ تماشا گاہ کے اندر سے پھونک اٹھا، جس میں عمران خان بھی نشانہ بنے لیکن میڈیکو لیگل رپورٹ کے لیے کسی سرکاری ہسپتال میں جانے کی بجائے اپنے قائم کردہ پرائیویٹ میڈیکل ادارے میں جا داخل ہوئے۔

اس بارے میں انہیں کیا تحفظات لاحق تھے، یہ تو وہ خود ہی جانتے ہوں گے لیکن اس بابت ان کا خطرناک ہونے کا تاثر ان کے اس اصرار میں ضرور مضمر ہے جس کے مطابق ایف آئی آر وزیر اعظم، وفاقی وزیر داخلہ اور فوجی جنرل کے خلاف درج کی جانی انہیں مطلوب ہے۔ اس لحاظ سے یہ حملہ بہت پراسرار ہو گیا ہے، خصوصاً، جب حملہ آور نے نیچے سے اوپر کی طرف سٹیج پر فائرنگ کی تھی اور معظم نامی شخص، بظاہر اوپر سٹیج سے نیچے کی طرف فائر کی گئی کسی دوسری گولی سے موقع پر شہید ہو گیا، لیکن اس کا پوسٹ مارٹم ہوا، نہ اس گولی کے مطابق اس کے مرڈر کی علیحدہ ایف آئی آر درج ہوئی۔ مزید حقائق کا ذکر بے جا ہے۔

عقلی سچ (آئینی تقاضے ) کو بے گانہ اور بے اثر کر دینے کی ’جہادی تحریک‘ طالبان پاکستان کی سٹریٹیجی ہے، جس کی چھاپ بچھانے کا ’خطرناک‘ سرا اب عمران خان کی زیر قیادت تحریک انصاف نے اچک لیا ہے، جو عقلی سچ سے حصول آزادی کا مارچ اپنے جھوٹے سچ پر استوار سچے جھوٹ کی تماشا گاہ رچانے کے زور پر ’جہادی تحریک‘ کے قالب میں ڈھالنے پر کاربند ہیں اور جس کے مقابلے میں پاکستانی عقل و خرد کو اونگھ لاحق ہو گئی ہے، جسے ہوش دلانے کے لیے شاید اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور نو کی گھڑی ہی باقی رہ گئی ہے (واللہ اعلم بالصواب) ۔

محمد فاروق
مصنف: ”انسانی تہذیب اور خلافت کا نظام“ ،
”پاک۔ بھارت ونڈت میں ہند جڑت کی بولی“ ،
اور ”سیاسی نظری مغالطوں میں ہندو مسلم ایکا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments