انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’ہائیبرڈ‘ عسکریت پسندی کتنا بڑا خطرہ ہے؟


کشمیر
گزشتہ اتوار کی شام انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے دعویٰ کیا کہ سجاد احمد تانترے نامی ’ہائبرِڈ‘ عسکریت پسند نے گرفتاری کے بعد ایک پناہ گاہ کا پتہ دیا تو فورسز اُسے لے کر وہاں پہنچیں مگر وہاں موجود علیحدگی پسند مسلح افراد کی فائرنگ سے سجاد مارا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران سجاد نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی پستول سے نومبر میں غیر کشمیری مزدوروں پر فائرنگ کی تھی جس میں اتر پردیش کا رہنے والا ایک مزدور چھوٹو پرساد مارا گیا جبکہ دوسرا زخمی ہوا۔

پولیس کے مطابق ’سجاد پولیس اور فوج کی اُس مشترکہ پارٹی کے ہمراہ تھا جو سجاد کی اطلاع کے مطابق جنوبی کشمیر کے بیج بہاڑہ قصبہ میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ کا محاصرہ کر رہی تھی۔ لیکن وہاں موجود مسلح افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں سجاد زخمی ہو گیا، چنانچہ اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔‘

ایک ماہ کے اندر جنوبی کشمیر میں رونما ہونے والا یہ ایسا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 19 اکتوبر کو شوپیان ضلع میں عمران بشیر گنائی کی بالکل ایسے ہی حالات میں ہلاکت ہوئی تھی۔
پولیس نے تب دعویٰ کیا تھا کہ ’ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ‘ (یعنی جز وقتی عسکریت پسند) عمران فورسز کی تلاشی پارٹی کے ہمراہ تھا اور پناہ گاہ میں موجود عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔‘

عمران پر الزام تھا کہ اُس نے غیر مقامی مزدورں پر گرینیڈ پھینکا تھا جس کے نتیجہ میں دو مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔

’کہیں یہ پکڑو اور مار دو پالیسی تو نہیں‘

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایسے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’ایک شخص پولیس کی حراست میں ہے، اور عسکریت پسند اُس کو مار دیتے ہیں۔ یہ حالت ایسے انسان کی ہے جو باقاعدہ پولیس اور فوج کے حصار میں ہے۔ سوچیئے کہ عام انسان کتنا محفوظ ہے۔‘

انھوں نے سجاد تانترے کی ہلاکت کے بعد ایک بیان میں کہا: ’ایک اور کشمیری ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ ہونے کے الزام میں مارا گیا۔ ایک ہی کہانی دوہرائی جا رہی ہے جس میں ایک مبینہ ملی ٹنٹ کو ہائیڈ آوٹ پر لے جایا جاتا ہے اور وہاں پراسرار حالات میں وہ گولی لگنے سے مر جاتا ہے۔ کسی قسم کی کوئی جواب دہی نہیں۔‘

گزشتہ ماہ شوپیان میں مارے گئے عمران بشیر سے متعلق بھی محبوبہ مفتی نے نہایت سخت لہجے میں کہا تھا: ’کہیں یہ پنجاب کی طرح کیچ اینڈ کِل (پکڑو اور مار دو) پالیسی تو نہیں۔ ہم تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ گجرات کے انتخابات نزدیک آ رہے ہیں، اور یہ واقعات ہو رہے ہیں۔‘

’ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ‘ یا جز وقتی عسکریت پسندی کیا ہے؟

تین سال قبل انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے کے بعد کئی نئی اصطلاحات سامنے آئیں جن میں ’ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ‘ بھی ایک ہے۔

جموں کشمیر پولیس کے نائب سربراہ وِجے کمار نے کئی ماہ پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ’کشمیر میں نئے طرز کی شورش شروع ہو گئی ہے جس میں کم سن لڑکوں کو سوشل میڈیا کے ذریعہ ورغلایا جاتا ہے، انھیں ہتھیاروں کا پتہ دیا جاتا ہے اور وہ کسی شخص کو قتل کرنے کے بعد ہتھیار واپس اسی جگہ پر رکھ دیتے ہیں اور دوبارہ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جاتے ہیں۔‘

پولیس نے انھیں ’پارٹ ٹائم ملی ٹنٹ‘ بھی قرار دیا۔ ایسے ہی عسکریت پسندوں کو اکثر عام شہریوں، اقلیتی فرقہ کے لوگوں اور غیر مقامی مزدوروں کی ہلاکت کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

پولیس کے مطابق ’ہائی برِڈ ملی ٹنٹ‘ کوئی مطلوبہ عسکریت پسند نہیں ہوتا اور وہ عام شہری کی طرح زندگی گزارتا ہے لیکن مخصوص اوقات میں پرتشدد کارروائی انجام دیتا ہے۔

جموں کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے حالیہ دنوں ’ہائیبرِڈ ملی ٹینسی‘ کو ایک نیا چیلنج قرار دیا اور کہا ’اس نئی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سابق عسکریت پسندوں یا تشدد اور پتھراوٴ کے الزام میں جیل کاٹ چکے افراد پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔‘

کشمیر

مقناطیسی بم اور سٹیل والی بلٹس کا استعمال

پولیس کے ایک افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران کشمیر میں رونما ہوئی کئی وارداتوں میں مقناطیسی بم یا سٹِکی بم اور سٹیل کور کی گولیاں کا استعمال ہوا جو تشویش ناک رجحان ہے۔

سٹِکی بم کسی بھی گاڑی کے ساتھ چپک سکتا ہے جبکہ سٹیل کور کی گولی روایتی بلٹ پروف جیکٹ کو پار کر سکتی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ انڈیا کی وزارت داخلہ نے کشمیر کے اندر اور سرحدوں پر تعینات فوجیوں اور نیم فوجی اہلکاروں کے لیے 60 ہزار سے زیادہ جدید طرز کے بلٹ پروف جیکٹ آرڈر کیے ہیں جو سٹیل کور والی گولیوں کے خلاف موثر دفاع کر سکتے ہیں۔

فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سال کے دوران کشمیر میں امریکی ساخت کے ہتھیار بھی عسکریت پسند استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’مقامی‘ عسکریت پسندوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات: پریشان ہندو دوبارہ کشمیر سے نکلنا چاہتے ہیں

کشمیر میں عام لوگوں کی گاڑیاں انڈین فوج کی ’ڈیوٹی‘ کیوں اور کیسے دیتی ہیں؟

مسلح شورش کا تیسرا مرحلہ

1990 میں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی تو علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ ہوتا تھا۔

مسلح لیڈر اکثر پریس کانفرنس کرتے تھے، باضابطہ بیانات میڈیا کے لیے جاری کرتے تھے اور اخباروں میں اشتہارات بھی دیتے تھے لیکن 21ویں صدی کے آغاز سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔

2014 کے بعد کشمیر کے نوجوان روپوش ہو کر عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے کا اعلان سوشل میڈیا پر کرتے تھے۔

مسلح رہنما برہان وانی اور ان کے 11 ساتھیوں کی تصویریں اور ویڈیوز بھی فیس بک پر وائرل ہو گئیں۔ اگلے چند سال کے دوران فورسز نے برہان اور اُس کے سبھی ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔

سنہ 2019 میں جموں کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے ساتھ ہی سیکورٹی پالیسی بھی مزید سخت کر دی گئی، جس کے بعد عسکریت پسند روپوش ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی کھل کر سامنے نہیں آتے۔

سکیورٹی ماہرین اسے کشمیر کی شورش کا تیسرا مرحلہ کہتے ہیں۔

جموں کشمیر کے لیفٹینینٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ ماہ جموں میں ایک تقریب سےخطاب کے دوران کہا کہ ’ہڑتال اور پتھراوٴ اب تاریخ بن چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کو ختم کیا ہے اور جو بچے ہیں ان کا قافیہ تنگ ہے لیکن اب نوجوان لڑکوں کو گمراہ کرکے ہائیبرِڈ ملی ٹنٹ بنایا جا رہا ہے اور ہم نے انھیں ڈی ریڈیکلائز کرنے کے لیے ہمہ جہتی مہم چھیڑ دی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments