’2025 تک 15 لاکھ تارکین وطن‘: کینیڈا کے امیگریشن نظام میں کن لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے؟


کینیڈا
کینیڈا میں معمر لوگ ملازمتیں چھوڑ رہے ہیں اور ان کے جانے سے معیشت میں پیدا ہونے والا خلا ملکی ترقی کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اسی تناظر میں کینیڈا نے امیگریشن کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ہر کوئی اس فیصلے کے حق میں نہیں کہ معاشی ترقی کے لیے اتنے سارے لوگ باہر سے بلانے کی ضرورت ہے۔

کینیڈا کی وفاقی حکومت نے رواں ماہ کے اوائل میں جارحانہ اعلان کیا کہ وہ 2025 تک سالانہ پانچ لاکھ تارکین وطن قبول کرنے جا رہے ہیں۔ اس طرح اگلے تین برس میں 15 لاکھ نئے تارکین وطن کینیڈا داخل ہوں گے۔

برطانیہ کے مقابلے اور آبادی کے لحاظ سے کینیڈا آٹھ گنا زیادہ افراد کو مستقل رہائش دے گا جبکہ امریکہ کے مقابلے میں یہ چار گنا زیادہ ہے
تاہم حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ تارکین وطن کے حوالے سے پریشانی اور تشویش پائی جاتی ہے۔

کینیڈا نے زیادہ تارکین وطن قبول کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

کئی برسوں سے کینیڈا مستقل رہائش کے لیے ایک پُرکشش مقام ثابت ہوا ہے۔ مستقل رہائش حاصل کرنے والے لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں ملک میں ملازمت حاصل کرنے کا حق ہے مگر وہ شہری نہیں۔

کینیڈا نے آبادی اور معیشت کی پیداوار بڑھانے کے لیے مستقل رہائشیوں کا سہارا لیا ہے۔ گذشتہ سال کینیڈا نے چار لاکھ پانچ ہزار افراد کو مستقل رہائش دی تھی۔ یہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد تھی۔

اس کی وجہ سمپل میتھ ہے۔ دیگر مغربی ملکوں کی طرح کینیڈا کی آبادی معمر ہو رہی ہے کیونکہ بچوں کی پیدائش کی شرح کم ہے۔ اس کا مطلب ہے اگر ملک کو پیداوار بڑھانی ہے اور معیشت کو سکڑنے سے روکنا ہے، تو اسے نئے لوگوں کو اپنانا ہوگا۔

ملک کی لیبر فورس گروتھ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس کا کل انحصار امیگریشن پر ہے۔ سرکاری پریس ریلیز کے مطابق سال 2032 تک ملک کی آبادی کی پیداوار کا انحصار بھی امیگریشن پر ہوسکتا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں حکومت نے اعلان کیا کہ 2025 تک کینیڈا ہر سال پانچ لاکھ تارکین وطن اپنائے گا۔ سال 2021 کے مقابلے ان اعداد و شمار میں 25 فیصد اضافہ ہے۔

کینیڈا

کینیڈا کا دنیا میں ایک منفرد مقام

ہر چار میں سے ایک کینیڈین اس ملک میں تارکین وطن کی حیثیت سے آیا تھا۔ یہ جی سیون ملکوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ اگر اس کا موازنہ امریکہ سے کیا جائے، جسے سب سے متنوع ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے، تو وہاں صرف 14 فیصد پناہ گزین ہیں۔

برطانیہ میں تارکین وطن کی آبادی قریب 14 فیصد ہے۔

آکسفرڈ یونیورسٹی میں مائیگریشن ابزرویٹری کی سربراہ میڈلین سمپشن کہتی ہیں کہ ان اعداد و شمار کا یہ مطلب نہیں کہ برطانیہ امیگریشن میں پیچھے ہے بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ کینیڈا بہت آگے ہے اور اپنے جیسے ملکوں سے بہت الگ ہے۔

برطانیہ ایک چھوٹا جزیرہ ہے جس کی آبادی کینیڈا کے مقابلے میں دگنی ہے۔ خطے کے اعتبار سے اس کی آبادی پہلے ہی زیادہ ہے جبکہ کینیڈا کی آبادی قریب تین کروڑ 80 لاکھ ہے۔ اس کے کثیر خطے میں ابھی مزید آبادی کی گنجائش ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’برطانیہ کے پاس آبادی بڑھانے کا کوئی جواز نہیں، جیسے کینیڈا نے کیا ہے۔‘

مکماسٹر یونیورسٹی کے ماہر جوفری کیمرون نے کہا کہ دیگر ملکوں کی طرح کینیڈا کو بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آبادی کی اوسط عمر بڑھتی ہے مگر امیگریشن کے نظام کی کامیابی عوام میں اس کی مقبولیت سے جڑی ہوتی ہے۔
’عوام کی رائے اسے محدود کرتی ہے۔‘

امریکہ میں جنوبی سرحد سے پناہ گزینوں کی آمد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے مگر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نوکریوں سے زیادہ تارکین وطن آ جائیں۔

برطانیہ میں بریگزٹ سے قبل جب جنوبی یورپ سے لوگوں نے ملک کی جانب نقل و حرکت شروع کی تو اس سے وہاں ایک تنازع شروع ہو گیا تاہم سمپشن کہتی ہیں کہ گذشتہ برسوں میں امیگریشن کے نظام پر عوام کا اعتماد بڑھا ہے۔

اس کی وجہ ہے کہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہونے لگا ہے کہ اس سے ملک کے پاس زیادہ کنٹرول ہوتا ہے کہ کون یہاں آسکتا ہے اور یہ اب پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے۔

دریں اثنا کینیڈا میں امیگریشن کو بہت زیادہ حمایت حاصل رہی ہے۔ کیمرون نے کہا ہے کہ ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی لوگوں کو یقین ہے کینیڈا کی حکومت امیگریشن کا اچھا نظام چلاتی ہے اور یہ ملک کے مفاد میں ہوتا ہے‘
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ امیگریشن کے حوالے سے لوگوں میں تشویش نہیں پائی جاتی۔

کینیڈا

حالیہ برسوں میں امریکہ کے ساتھ سرحد پر تارکین وطن کی تعداد بڑھنے سے کینیڈا میں تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ سال 2018 میں ملک میں ایک دائیں بازو کی جماعت پیپلرز پارٹی آف کینیڈا نے زور پکڑا اور 2018 کے وفاقی الیکشن کے دوران اس موضوع کو زیرِ بحث لایا گیا۔

کینیڈا کے مختلف علاقوں میں بھی امیگریشن کے حوالے سے لوگوں کے رویے الگ ہیں۔

جب کینیڈا کی حکومت نے سالانہ پانچ لاکھ تارکین وطن لینے کا اعلان کیا تو اس کے 13 میں سے ایک صوبے کیوبک نے کہا کہ وہ اپنی خود کی امیگریشن حد طے کرے گا اور سال میں 50 ہزار سے زیادہ تارکین وطن کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں ملک کی 23 فیصد آبادی ہے اور یہ صرف ملک کے 10 فیصد نئے تارکین وطن قبول کرے گا۔

کیوبک کے سربراہ فرانسوا لاگو نے کہا کہ زیادہ تارکین وطن کے آنے سے صوبے میں فرانسیسی زبان کی جڑیں کمزور ہوں گی۔ ’سالانہ 50 ہزار سے بھی فرانسیسی زبان کی تنزلی کو روکنا مشکل ہوگا۔‘

یہ سچ ہے کہ کینیڈا میں پیداوار کے مواقع موجود ہیں مگر کچھ شعبوں میں جگہ تنگ ہو رہی ہے۔ ٹورنٹو اور وینکوور جیسے بڑے شہروں، جہاں قریب 10 فیصد آبادی رہتی ہے، میں سستی رہائش کا بحران ہے۔

لیگر اور ایسوسی ایشن آف کینیڈین سٹڈیز کے ایک سروے (جو 1537 کینیڈین شہریوں پر مبنی ہے) کے مطابق چار میں سے تین لوگ کہتے ہیں کہ انھیں امیگریشن کے حوالے سے نئے منصوبے پر تشویش ہے اور انھیں ڈر ہے کہ اس منصوبے سے رہائش اور سوشل سروسز جیسے شعبوں پر کیا اثر پڑے گا۔

49 فیصد نے کہا کہ یہ اہداف بہت بلند و بالا ہیں جبکہ 31 فیصد نے اس کی حمایت کی اور کہا یہ صحیح اعداد و شمار ہیں۔

کینیڈا

امیگریشن کے لیے کینیڈین حکمت عملی

مغربی دنیا میں کینیڈا کی حکمت عملی الگ اس لیے بھی ہے کیونکہ یہاں امیگریشن کی بنیاد معاشی فائدے حاصل کرنا ہے۔

کینیڈا میں قریب نصف تارکین وطن کو ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر خوش آمدید کہا جاتا ہے، نہ کہ خاندانی رابطوں کے باعث۔
حکومت کو توقع ہے کہ سال 2025 تک یہ 60 فیصد ہوجائے گا۔

کیمرون نے کہا کہ اس کا جزوی انحصار اس بات پر ہے کہ کینیڈا کا امیگریشن کا نظام کس طرح بنایا گیا تھا۔ سال 1960 کی دہائی میں کینیڈا نے کوٹا سسٹم کو ختم کیا (جس میں ملک مختلف اہداف طے کرتے تھے) اور پوائٹس پر مبنی ایک نظام بنایا جس میں زیادہ صلاحیتوں والے تارکین وطن کو ترجیح دی جانے لگی۔ اس طرح یہ طے پایا کہ ایسے لوگ کینیڈا کی معیشت میں زیادہ آسانی سے ایک اہم کردار ادا کر سکیں گے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آج کا (کینیڈان امیگریشن) نظام بھی انھی اصولوں پر مبنی ہے۔‘

عالمی تناظر میں یہ نظام منفرد ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی ایسے ہی نظام عمل میں لائے گئے ہیں۔

برطانیہ میں چار میں سے ایک مستقل رہائش کی منظوری معاشی ترقی کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ امریکہ میں صرف 20 فیصد گرین کارڈ جاری کرنے کی معاشی وجوہات ہوتی ہیں۔

دونوں ملکوں نے یہ اشارے دیے ہیں کہ وہ معاشی بنیادوں پر امیگریشن کے حصے کو بڑھائیں گے مگر ان دونوں ملکوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں کمپنیوں یا امپائرز کی جانب سے معاشی امیگریشن کو سپانسر کیا جاتا ہے تاہم کینیڈا میں نوکری کی پیشکش آپ کے کل پوائنٹس بڑھا سکتی ہے مگر یہ ضروری نہیں۔

حال ہی میں برطانیہ نے بھی پوائنٹس کی بنیاد والا نظام متعارف کرایا ہے مگر سمپشن کے مطابق برطانیہ میں اب بھی یہ پرانے نظام جیسا ہے جس میں زیادہ تر ان تارکین وطن کو ترجیح دی جاتی ہے جنھیں نوکری کی پیشکش ہو۔

کینیڈا کے پوائنٹس پر مبنی امیگریشن نظام میں زبان کی مہارت، تعلیمی پس منظر، کام کا تجربہ، عمر، نوکری کی پیشکش اور نئے حالات میں خود کو ڈھالنے جیسے عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

کیا کینیڈا اپنے اہداف پورے کر سکے گا؟

کینیڈا میں نہ صرف زیادہ سے زیادہ مڈل کلاس افراد کو قبول کیا جاتا ہے بلکہ یہاں بے گھر پناہ گزین کو بھی سب سے زیادہ جگہ دی جاتی ہے۔ سال 2021 میں 20 ہزار 428 پناہ گزین کو اپنایا گیا۔

اگرچہ اس نے مسقبل کے لیے بڑے اہداف طے کیے ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی توقعات کو پورا نہیں کیا۔

سنہ 2021 میں کینیڈا نے 59 ہزار بے گھر پناہ گزین کو اپنانے کا ہدف دیا تھا جس پر صرف ایک تہائی عملدرآمد ہوسکا۔

سی بی سی کو دیے انٹرویو میں امیگریشن کے وزیر شان فریزر نے کہا کہ اس فرق کی وجہ کووڈ کی عالمی وبا کے دوران کینیڈا اور دنیا بھر میں سرحدوں کی بندش تھی۔

کینیڈا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2023 تک 76 ہزار بے گھر پناہ گزین کو اپنا لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments