عمران کی گھڑی، ٹروڈو کی عینک اور میری حماقت


سن دو ہزار اٹھارہ کی بات ہے۔ کینیڈین طیارہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کے سرکاری وفد کو لئے ویت نام کے ہوچی من ہوائی اڈے پر اترا تو ہمارے وزیر اعظم طیارے کے دروازے سے برآمد ہوئے۔ انہوں نے دھوپ کا چشمہ پہن رکھا تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے ایک نظر استقبالی ماحول پر ڈالی۔ پھر بڑے فلمی انداز میں چشمہ اتارا اور میزبانوں کو ہاتھ ہلا کر اور مسکر کر ’ہائے‘ کہا۔ ہلکے سلیٹی رنگ کے سوٹ میں، کوٹ کے بائیں جانب پوپی کا یادگاری سرخ کاغذی پھول سجائے ان کے چشمہ اتارنے کا لمحہ ایک صحافی فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔

جانے کیا کشش تھی اس تصویر میں کہ جسے دیکھ کریہ تحفہ دینے والے پرنس ایورڈ آئی لینڈ کے وزیر اعلیٰ کو خوشی اور وزیر اعظم کو جرمانے کا نوٹس ملا۔ یہ نوٹس مفادات کے تصادم اور اخلاقیات کے کمشنر کے دفتر سے جاری کیا گیا تھا۔ الزام یہ تھا کہ وزیر اعظم نے دو سو ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ وصول کرنے کی باقاعدہ تحریری اطلاع تیس دن کے اندر کیوں فراہم نہ کی۔ ٹروڈو صاحب نے یہ کہے بغیر کہ ’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘ معذرت کی اور سو ڈالر بطور جرمانہ ادا کیے اور ساتھ ہی ساتھ حزب اختلاف اور ذرائع ابلاغ کی تنقید بھی سمیٹ لی۔

پس منظر اس واقعہ کا اتنا سا ہے کہ جسٹن ٹروڈو کو پرنس ایورڈ آئی لینڈ کے وزیر اعلیٰ نے تحفتاً دھوپ کے دو چشمے پیش کیے جو مقامی سطح پر بنائے گئے تھے جن کی کل مالیت کوئی تین سو کینیڈین ڈالر بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ان کی بیگم کے لیے تھا۔ کہتے ہیں، وزیر اعظم نے مقامی مصنوعات کے فروغ کی نیت سے اسے اپنے دورے پر پہن لیا تھا اور یوں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔

ٹروڈو صاحب پر اس سے پہلے بھی جواب دہی کی ایسی گھڑیاں آ چکی تھیں جیسے کسی کی دعوت قبول کرلینا، اجازت کے بغیر سفر کا پروگرام بنا لینا وغیرہ۔ کینیڈا میں ایسی ’معمولی بے ضابطگیوں کو بہت غیر معمولی سمجھا جاتا ہے اور سرکاری اور حکومتی اہل کاروں کو سخت جواب دہی اور جرمانوں کا سامنا کرنا کرنا پڑتا ہے اور عوام کی نظر میں ان کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔

آج میں ڈیڑھ سو ڈالر کے اس تحفے پر سوچ رہا تھا کہ نظر ان خبروں پر جا پڑی جن میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گھڑی کے مبینہ حصول اور اس کی فروخت کا ذکر ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سعودی ولی عہد سے تحفے میں ملی اس گھڑی کی مالیت ایک ارب سے اوپر ہے۔ اس میں خانہ کعبہ کی تصویر بھی ہے اور ہیرے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ گھڑی دس کروڑ کی ہے۔ اور یہ کہ اسے پانچ کروڑ ستر لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔ کوئی کہتا ہے اسے جس نے خریدا اس نے پینتیس کروڑ میں آگے بیچ دیا اور یوں یہ گھڑی کسی اور کے ہاتھ آ گئی۔ پھر توشہ خانہ ہے، عمران خان کی نا اہلی ہے، پریس کانفرنسیں ہیں، بیرون ملک مقدمات کے اندراج کا عندیہ ہے۔

بھائی، کیا ہو رہا ہے یہ؟ یہ ہمارے وطن عزیز پر کیسی گھڑی آن پڑی ہے؟

عمران خان کی گھڑی کی تصویر دیکھی تو وہ گھڑی میری چشم تصور میں گھوم گئی جو نامور ہسپانوی سرریئلسٹ فن کار سلوادور دالی پر گزری تھی اور جس کا ذکر بڑے موثر انداز میں جناب وجاہت مسعود نے اپنے تازہ کالم میں بھی کیا ہے۔ دالی نے میز پر پگھلتے پنیر کے تین ٹکڑوں کو اپنے متخیلہ کی مدد سے تین گھڑیوں کی صورت دی اور ایک شاہکار یادداشت کی ہٹ دھرمی تخلیق کر دیا۔ پینٹنگ کی توجیح تو ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں کر سکتا ہے کہ ایک تو منظر خواب ناک سا ہے اور پھر یہ کہ اچھے فن پارے کی تہیں اور جہتیں بھی تو بہت ہوتی ہیں۔ مگر سامنے کے ان حقائق کی کیا توجیح کی جائے؟ حالات کی ان تلخیوں اور حکام کی بدعنوانیوں کو کیا معنی پہنائے جائیں جن کی کی داستانیں سنتے سنتے ہماری تو زندگی کی ناؤ کنارے آ لگی ہے۔

کیا کینیڈا کے موجودہ اور پاکستان کے سابق وزیراعظم کے تحائف کی کہانیوں کو کسی یکساں منطقی نتیجے سے آشنا کیا جاسکتا ہے؟ کوئی ایسا ترازو جس کے پلڑوں میں ان کا وزن یکساں نہیں تو قریب قریب ہی ہو جائے؟ دیگر پاکستانی سیاست دان بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں۔

اس حوالے سے پاکستان میں ایک دوست سے بات ہوئی تو میں نے اپنا یہ ’احمقانہ موازنہ بھی ان کے گوش گزار کر دیا۔ کہنے لگے کہ کیا کینیڈا کے انصاف اور احتساب کے محکموں کے پاس کرنے کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کہ وہ چند سو کی عینک جیسے تحائف کا نوٹس لیتے رہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ بڑی خرابی کبھی نہ کبھی کسی چھوٹی سی خرابی سے ہی آغاز ہوئی ہوتی ہے۔ غنچہ ہی پھول بنتا ہے۔ انہوں نے جھٹ مجھ پر مغرب پرستی کا الزام دھرا، قومی اور ملی مفاد سے متعلق عالمی قضیوں کے تناظر میں انہیں سراسر‘ حماقت ’قرار دیا اور بات ختم کردی۔

اب اگر آپ مجھ پر مغرب پرستی کا الزام نہ لگائیں تو میں آپ سے یہ یاد سانجھی کرنا چاہوں گا کہ ایسی بدعنوانی اور اس کے نتائج کے حوالے سے پہلی خبر برسوں پہلے جرمنی ہی میں میری نظر سے گزری تھی۔ شام کے ایک اخبار میں شہ سرخی تھی کہ فلاں وزیر صاحبہ کی سرکاری کار ان کے شوہر کے تصرف میں دیکھی گئی ہے۔ اور صبح کے اخبار میں وزیر صاحبہ کے رضاکارانہ استعفے ٰ کی خبر چھپی ہوئی تھی جس میں انہوں نے کسی مجبوری کا ذکر بھی کیا تھا مگر معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنے عہدے سے دست بردار ہونے کا اعلان بھی۔

میں نیا نیا پاکستان سے گیا تھا اور اس جرمن وزیر کی ’حماقت‘ پر مسکرا دیا تھا۔ ویسے بھی میں اخبار حالات سے باخبر رہنے کے بجائے جرمن زبان کی مشق کے لیے پڑھا کرتا تھا۔ اب آپ میری اس ’حماقت‘ یعنی سچائی کو کیا رنگ دیتے ہیں اس کا انحصار آپ کی عینک کے رنگ پر ہے۔ چاہے وہ عینک آپ نے خریدی ہو یا کسی مہربان سے تحفتاً وصول کی ہو۔ آپ سوچئے اور مجھے اجازت دیجئے کیونکہ میرے کالم کے اختتام کی گھڑی آن پہنچی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments