بلوچ عسکریت پسند کمانڈر گلزار امام کی گرفتاری کیا اہم پیشرفت ہے؟


گلزار امام
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں متحرک عسکریت پسند تنظیم بلوچ نیشنل آرمی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے سربراہ گلزار امام حکومت پاکستان کی حراست میں ہیں۔ پاکستان کے ایک اہلکار کا دعویٰ ہے کہ گلزار امام کو ترکی سے حراست میں لیکر پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔

بلوچ نیشنل آرمی نے گلزار امام کی گرفتاری کی اطلاع ایک اعلامیے میں جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل گلزار امام لاپتہ ہو گئے تھے، جس پر تنظیم نے تحقیقات کی اور مصدقہ شواہد سے معلوم ہوا کہ گلزار امام گمشدگی کے بعد پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔

گلزار امام کا تعلق بلوچستان کے علاقے پنجگور پروم سے ہے۔ اُنھوں نے سنہ 2003 میں طلبہ سیاست میں قدم رکھا اس وقت وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او امان گروپ میں تھے اور جب سنہ 2006 میں تمام بی ایس او کے دھڑوں کا انضمام ہوا اور ڈاکٹر اللہ نذر کی قیادت میں بی ایس او آزاد کا قیام عمل میں آیا تو وہ بی ایس او پنجگور ریجن کے صدر منتخب ہوئے۔

گلزار کے بھائی ناصر امام بھی عسکریت پسند تنظیم مجید بریگیڈ میں رہے ہیں۔ پنجگور میں رواں سال ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملے میں وہ ہلاک ہوئے تھے۔

بی ایس او کے خلاف جب حکومت پاکستان نے کریک ڈاؤن شروع کیا تو گلزار امام پہاڑوں پر چلے گئے اور اُنھوں نے بلوچ ریپبلکن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور اس کے کمانڈر بن گئے۔

پاکستان کے اداروں کا دعویٰ ہے کہ بی آر اے کے سربراہ براہمداغ بگٹی ہیں اور نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد یہ عسکریت پسند تنظیم قائم کی گئی تھی۔ 

بی ایس او آزاد کے سابق مرکزی رہنما پردھان بلوچ کا کہنا ہے کہ جب استاد اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مری سرداروں سے لا تعلق ہو کر بلوچ لبریشن آرمی پر اپنی گرفت مضبوط کی اور مقامی فیصلے لیے، تو اس سے متاثر ہو کر گلزار امام نے بلوچ ریپبلکن آرمی میں پہلے اپنا دھڑا بنایا، اس کے بعد بلوچ نیشنل آرمی یعنی بی این اے کا قیام عمل میں لائے۔

گلزار امام نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے بنیادی اختلافات قیادت کی طرف سے حکومت پاکستان سے مذاکرات کی کوشش سے شروع ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ جب تنظیمی و قومی فیصلے ’درباری‘ لوگ کریں تو وہاں تنظیم و قوم کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔

پاکستان میں عسکریت پسندی کے رجحانات پر کام کرنے والے ادارے پاکستان اسنٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا گلزار امام کی گرفتاری کو حکومت پاکستان کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہیں۔ 

بقول عامر رانا کے، بی آر اے اور یو بی اے کے دھڑوں کے ساتھ مل کر گلزار امام نے بلوچستان نیشنل آرمی کی بنیاد رکھی اور اس کی کارروائیوں کا دائرہ کار لاہور اور جنوبی پنجاب تک پھیلا دیا تھا۔

’گلزار امام بلوچستان کے نوجوانوں بالخصوص بی ایس او آزاد میں کافی مقبول رہے ہیں۔‘

عامر رانا کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان سے اب بلوچ عسکریت پسندوں کو نکال رہے ہیں، اب ان کے پاس دو آپشنز ہیں یا تو ایران چلے جائیں یا پاکستان میں رہیں تاہم ایران کی شرائط بہت سخت ہیں۔

’بی این اے کے اعلامیے میں کہا گیا کہ وہ تحقیقات کر رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ اندرونی طور پر دیکھ رہے ہیں۔‘

عسکریت پسند

برطانیہ میں موجود اسلامک تھیالوجی آف کاؤنٹر ٹیررازم کے ڈائریکٹر فاران جعفری کہتے ہیں کہ یہ کامیابی اور پیشرفت تو ہے لیکن اسے کوئی غیر معمولی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

اُن کے مطابق ’گلزار امام نے اپنے وفاداروں کے ساتھ یہ گروپ بنایا جس نے بعض کارروائیاں بھی کیں لیکن یہ کوئی بڑا گروپ نہیں۔‘

’بلوچ عسکریت پسند تحریک اس وقت بنیادی سطح تک ہے، اگر دو چار کمانڈر اٹھا لیے جائیں یا اُنھیں مار دیا جائے تو اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسے اسلم عرف اچھو کو جب ہلاک کیا گیا تو اس کو بڑی پیشرفت قرار دیا گیا لیکن ہم نے دیکھا کہ اس سے کوئی خاطر خواہ فرق نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے جو عکسریت پسند ہیں، ان کا کچھ وقتی طور پر مورال کم ہوا ہو لیکن بعد میں وہ ایک نئی ہمت و قوت سے نظر آتے ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ اگر گلزار امام حکومت پاکستان کو کوئی معلومات فراہم کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر چھاپے مارے جاتے ہیں یا کچھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں تو باقی لوگ کسی اور گروپ میں شامل ہو جائیں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ہی صف میں سے کوئی اور کمانڈر چن لیں۔ 

پاکستان کے ادارے غیر سرکاری طور پر گلزار امام کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بعض افراد بشمول صحافی اس کا تذکرہ کرتے آئے ہیں لیکن باضابطہ گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی۔

تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ طریقہ کار کے مطابق پاکستان کے کئی ادارے تحقیقات کرتے ہیں، اس کے بعد ہی اُنھیں پولیس یا سی ٹی ڈی کے حوالے کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments