ایران میں سماجی و سیاسی تغیرات اور آیت اللہ خمینی کے گھر پر حملہ


مظاہرین کے ایک گروہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موسس اعلی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے آبائی گھر کو آگ لگا دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے دو ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جاری کردہ تصاویر میں مغربی مرکزی صوبے کے شہر خمین میں واقع اس مکان کو جمعرات کی رات پرجوش مظاہرین کے ہجوم کے ساتھ جلتے ہوئے دکھایا گیا، جہاں امام خمینی پیدا ہوئے، قدیم ساسانی روایات کے مطابق اسی قصبہ سے ان کی کنیت بھی نکلی۔

امام خمینی کی وفات کے بعد اسی گھر کو ان کی یادگار کے طور پر میوزیم میں بدلا گیا تھا، فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آگ لگنے سے گھر کو کس قدر نقصان پہنچا تاہم ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی نے آگ لگنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ”تاریخ ساز گھر کا دروازہ زائرین کے لئے اب بھی کھلا ہے“ ۔ ادھر فیفا ورلڈ کپ کے مقابلوں میں شامل ایرانی فٹ بال ٹیم نے بھی سماجی آزادیوں کی خاطر جدوجہد کرنے والے مظاہرین سے یکجہتی کے لئے قومی ترانہ کی تقریب کے دوران خاموش احتجاج ریکارڈ کرا کے مذہبی مقتدرہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔

امام خمینی کی شخصیت سے جڑی علامات پر جارحانہ حملوں اور عالمی سطح پہ ایرانی یوتھ کی نمائندگی کرنے والی فٹ بال ٹیم کی طرف سے قومی ترانے کو اپنانے سے انکار ایران کے ایسے مہیب داخلی انحطاط کی نشاندہی کرتا ہے، جو بالآخر ایک پرشکوہ عہد کے اختتام پہ منتج ہو سکتا ہے۔ اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ایران بدل رہا ہے اور ایرانی سماج میں اجتماعی حیات کی تشکیل نو کے حوالہ سے رضا شاہ پہلوی کے عہد کی پرانی نظریاتی تقسیم کی لکیریں، فکری اختلاف رائے کے دائروں سے نکل کر عملی تصادم کی تلخی میں ڈھلنے والی ہیں، ایسے پیچیدہ تنازعات کو ہوا دینے کے لئے اقتصادیات اور سیاسیات جیسے کچھ عصری عوامل بھی شامل ہوں گے لیکن بنیادی مسائل اسی نظریاتی جمود کی پیداوار ہیں جو 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کے نفسیاتی ماحول پہ حاوی ہو گیا تھا اور جسے ایک طاقتور مذہبی اشرافیہ نے اپنے سیاسی مفادات کے ڈیزائن میں ڈھال کر اتنا بے لچک بنا دیا کہ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں وہ عمرانی تصادم اور زندہ تغیرات کی حرارت میں جل کر راکھ ہونے والا ہے۔

24 ستمبر 1902 میں مغربی ایران کے شہر خمین میں پیدا ہونے والا امام خمینی جب پانچ ماہ کے ہوئے تو ان کے والد کو مقامی زمیندار کے حکم پر قتل کر دیا گیا، نوخیز خمینی کی پرورش والدہ اور خالہ نے کی جن کی موت کے بعد بڑے بھائی مرتضیٰ (بعد میں آیت اللہ پسندیدہ کے نام سے مشہور) نے انہیں پروان چڑھایا، انہوں نے مختلف اسلامی مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1922 میں ایران کے علمی و فکری مرکز قم میں آباد ہونے کا فیصلہ کیا اور 1930 کی دہائی تک وہیں سے وہ ممتاز عالم دین بنکر ابھرے، مذہبی سکالر کے طور پر خمینی نے اسلامی فلسفہ، قانون اور اخلاقیات پر بے شمار تحریریں تخلیق کیں لیکن ایران کے حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کی پالیسیوں کے خلاف ان کی سیاسی مزاحمت، ایران پہ مغرب کے تہذیب اثرات کی مذمت اور اسلامی پاکیزگی کی ان کی بے باک وکالت نے اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

1950 کی دہائی میں انہیں بڑے مذہبی رہنما کے طور پر سراہا گیا، 1960 کی دہائی کے اوائل تک انہیں عظیم الشان آیت اللہ کا خطاب ملا، اس طرح وہ ایران میں شیعہ مکتب فکر کے اعلیٰ مذہبی رہنماؤں میں سے ایک بن گئے۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں شاہ نے پارلیمنٹ کو معطل کر کے جارحانہ جدید پروگرام شروع کیا جسے سفید انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں خواتین کی آزادی میں اضافہ، مذہبی تعلیم کو محدود کرنے اور پاپولسٹ لینڈ ریفارم جیسے قوانین شامل تھے، شاہ کی پیش دستی نے اس وقت کی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا، انہی پالیسیوں کے نفاذ نے خاص طور پر علماء کے طاقتور اثر و رسوخ کو کم کرنے کے علاوہ ایرانیوں کی سماجی زندگی بالعموم دیہی معیشت و ثقافت اور معاشرتی اقدار کو بھی بڑے پیمانے پر ٹھیس پہنچائی، اسی سکیم نے تیزی سے ایسے جدید مغربی تمدن کو فروغ دیا جس نے روایتی سماجی اصولوں اور اقدار میں اساسی تبدیلیوں کے امکانات کو جنم دیا۔

اسی جدید طرز معاشرت کی جبری تنفیذ کی خاطر شاہ کے استبدادی رویوں نے جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کا دائرہ تنگ کر کے حکومت مخالفت قدامت پسند علمائی، بائیں بازو کی سیکولر جماعتوں اور چھوٹے سیاسی گروپوں کو باہم متحد ہونے کا موقعہ فراہم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب خمینی شاہ کے پروگرام کے کھلے نقاد بنکر سامنے آئے۔ ملک بھر میں بڑے پیمانے پہ سیاسی بدامنی پیدا ہو جانے کی وجہ سے انہیں 1963 میں قید کر لیا گیا، ایک سال کی قید کے بعد نومبر 1964 کو امام خمینی کو ایران سے زبردستی جلاوطن ہو کر عراق جانا پڑا، 1970 کی دہائی کے وسط سے ایران میں خمینی کے اثر و رسوخ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا، جس کے باعث شاہ کی حکومت کے خلاف عوامی عدم اطمینان بڑھتا چلا گیا۔

عراق کے صدر صدام حسین نے 6 اکتوبر 1978 کو خمینی کو عراق چھوڑنے کا حکم دیا تو وہ فرانس منتقل ہو گئے، پیرس سے ان کے حامیوں نے اس کے ریکارڈ شدہ پیغامات کو تیزی سے بیدار ہونے والی ایرانی پبلک تک پہنچایا۔ 1978 کے اواخر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں، ہڑتالوں اور شہری بدامنی نے شاہ کو 16 جنوری 1979 کو ایرانی تخت و تاج چھوڑنے پر مجبور کر دیا، یکم فروری 1979 کو امام خمینی فاتح بن کر تہران کے ائرپورٹ پر اترے تو پورا ایران چشم براہ تھا، انہوں نے چار دن بعد نئی حکومت کے قیام کا اعلان کیا، اپریل میں ہونے والے قومی ریفرنڈم میں اسلامی جمہوریہ کے اداروں کے لئے زبردست عوامی حمایت کے مظاہروں میں تودہ پارٹی کے بنی صدر کی مقبولیت بڑھتی نظر آئی تو بنی صدر کے اثرات کو کند کرنے کی خاطر دسمبر میں ہونے والے ریفرنڈم میں اسلامی جمہوریہ کے آئین کی منظوری لے کر خمینی کو رہبر کا لقب دے کر ایران کے آئینی نظام سے ماورا تاحیات سیاسی اور مذہبی رہنما منوا لیا گیا، حالات کے تیور بھانپ کر بنی صدر ملک سے فرار ہو گئے، جس کے بعد ایران کے شیعہ علما نے بڑی حد تک حکومتی پالیسی کی عنان سنبھال لی، خمینی نے مختلف انقلابی دھڑوں کے مابین ثالثی اور ان اہم معاملات پر حتمی فیصلے کیے جن کے لیے انہیں ذاتی اختیار کی ضرورت تھی۔

پہلے اس کی حکومت نے انقلابی عدالتوں کے ذریعے شاہ کے لئے کام کرنے والے سینکڑوں فوجی افسران کو پھانسی کی سزائیں سنائیں، اس کے بعد بائیں بازو کی ان سیاسی مخالفت کو کچل دیا جو شہنشاہیت کے خلاف تحریک کے دوران ان کی ہمسفر بنی تھیں۔ امام خمینی نے شائستگی، اصول پسندی اور قدما کی پیروی اور ان کے اسالیب کو چراغ راہ بنانے کی خاطر ایرانی خواتین کو حجاب پہننے کا پابند بنایا، موسیقی اور شراب پر پابندی لگا دی، اسلامی قانون کے تحت مقرر کردہ سزاؤں کو بحال کر دیا۔

خمینی کی خارجہ پالیسی کا محور شاہ کے مغرب نواز رجحان کو مکمل طور پر ترک کرنے کے علاوہ اس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین کے خلاف غیر متزلزل مزاحمت کا رویہ تھا، ایران نے اسلامی احیاء پسندی کے اپنے برانڈ کو پڑوسی مسلم ممالک، خاص طور پر وہاں کی شیعہ آبادیوں میں برآمد کرنے کی کوشش کر کے جنوبی ایشیا میں ایرانی ریاست کو سیاسی تنہائی کی طرف دھکیل دیا۔ امام خمینی نے ایرانی عسکریت پسندوں کے تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے ( 4 نومبر 1979 ) اور امریکی سفارتی عملے کو ایک سال سے زائد عرصے تک یرغمال بنائے رکھنے کی منظوری دے دے کر جس عالمی مبارزت کی بنیاد رکھی تھی وہ تاحال تھم نہیں سکی۔

امام خمینی نے 1980 میں شروع ہونے والی ایران عراق جنگ کے پرامن خاتمہ کی بجائے فوجی قوت سے صدام حکومت کا تختہ الٹنے کی امید میں طول دینے پر اصرار جاری رکھا تاہم بالآخر 1988 میں انہوں نے جنگ بندی کی منظوری دے کر اس مہلک جنگ کے خاتمہ کی راہ تو نکالی لیکن اس طویل جنگ نے ایرانی معیشت کو تباہ کرنے کے علاوہ آبادی کے تناسب کو جس بری طرح متاثر کیا اس کی تلافی ممکن نہ بنائی۔ لاریب، ایران، عراق جنگ میں ان کی حتمی فتح کے حصول کی خواہش تو بے سود ثابت رہی مگر اسی جنگ کی بدولت امام خمینی ایران میں شیعوں پر اپنی کرشماتی گرفت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، وہ اپنی موت تک ملک میں اعلیٰ ترین سیاسی اور مذہبی ثالث کے طور پہ نمایاں رہے۔

تہران کے بہشت زہرا قبرستان میں ان کا سونے کے گنبد والا مقبرہ آج بھی ان کے حامیوں کے لئے مرجع عقیدت بنا ہوا ہے۔ امام خمینی کا انتقال 1989 میں ہوا لیکن وہ 33 سالوں سے اپنے جانشین آیت اللہ علی خامنہ ای کی سوچ میں جلوہ گر دکھائی دیے تاہم مہسا امینی کی موت سے شروع ہونے والے مظاہرے، جس کی پولیس کی حراست میں موت واقع ہوئی تھی، اب 1979 کے انقلابی رہنماؤں کے سامنے کوچہ و بازار سے پھوٹنے والا سب سے بڑا چیلنج بنکر کھڑے نظر آتے ہیں بلکہ خواتین کے لئے حجاب کی جبری پابندی کے خلاف اٹھنے والی آوازیں ریاستی جبر کی بدولت ازخود اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا مطالبہ میں ڈھلتی جا رہی ہیں، ایران کے طول و ارض میں تیزی سے پنپتے ہوئے یہ خونی واقعات انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی سائنسی تحریکات کی بنا پر عقلی ورثہ میں جن تبدیلیوں کی محرک بن رہی ہیں، وہ معاشرتی اور اخلاقی کشمکش کے متعلق ایرانیوں کے خیالات کی توضیح کے لئے کافی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments