سندھ ‘مورت مارچ’ اور سماجی برابری کا سوال


جب بھی میں شہر میں کوئی احتجاج یا لوگوں کا ہجوم دیکھتا ہوں تو اکثر مجھے سندھ کے مشہور قومی اور رومانوی شاعر ابراہیم منشی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔

برابری، سراسری، اسان گھرون ٿا ایتری،
آزاد قوم جیتری، آزاد قوم جیتری،

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم برابری چاہتے ہیں، ایک خود مختیار اور آزاد انسان کی طرح ہم جینا چاہتے ہیں۔ اتوار کے دن کراچی شہر میں برطانیہ راج کے دور میں بنے ہوئے فریئر ہال کے میدان میں خواجہ سراؤں ٹرانسجینڈرز برادری نے تاریخ رقم کردی، پاکستان میں پہلی بار ’مورت مارچ‘ کا دن بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ مارچ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رہنما، سماجی اور سیاسی ورکر، سول سوسائٹی، بائیں بازو کی تنظیمیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی صحافی برادری، مختلف جامعات کے طلبا اور عورتوں کی بڑی تعداد نے شرکت کر کے خواجہ سراؤں کی حقوق اور سماجی برابری کے لئے آواز بلند کی۔

ویسے تو ہر سال 8 مارچ کو عورت مارچ کا دن منایا جاتا ہے، مگر کراچی کی تاریخ میں خواجہ سراؤں نے اپنے جائز حقوق، سماجی برابری اور شناخت کے حوالے سے پہلی بار یہ دن منایا ہے۔ خواجہ سرا برادری کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی تنظیم جینڈر انٹرایکٹو الائنس سے جڑی ایک سماجی کارکن ’شہزادی رائے‘ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے صوبے سندھ میں ایسی نوعیت کے پہلے سیاسی مارچ ’سندھ مورت مارچ‘ کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔

ہمارے لئے ایسے حالات پیدا کیے گئے، نفرتیں پھلائیں گئیں کہ سماج میں خواجہ سراؤں کے لئے کوئی جگ نہ ہو، اور جینا مشکل کر دیا گیا ہے، اس لئے یہ مارچ پاکستان کی تاریخ میں ایک لمبی خاموشی کے بعد خواجہ سراؤں کا آواز بنا ہے۔ جب مذہبی اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں ہیں، تو خواجہ سراؤں کے لئے بھی مخصوص نشستیں ہونی چاہیے۔ قانون اور آئین سب کے لئے برابر ہونا چاہیے۔ مارچ میں خواجہ سرا کمیونٹی کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا۔

مارچ میں شرکت کرنے والوں کی بڑی تعداد بینر اور پلی کارڈز لے کر آئے تھے جن پر نعرے لکے ہوئے تھے۔ زن، زندگی، آزادی۔ عورت زندگی اور آزادی، اصل میں یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ احتجاج میں شریک ہونے والے ایک خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ ’ہم بھی عورت اور مرد کی طرح انسان ہیں، مگر ہم پیدا ہوتے ہی نفرت کا سامنا کرتے ہیں‘

مارچ کا بنیادی مقصد خواجہ سراؤں برادری کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ سماجی اور جنسی برابری کے بنیاد پر حقوق دیے جائے، کیوں کہ ایک بہت بڑے عرصے سے اس برادری کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، بلکہ سماجی اور سیاسی معاملات سے بھی بالکل لاتعلق رکھا گیا ہے، جیسے کہ یہ لوگ اس معاشرے کا حصہ ہی نہ ہو۔ ٹرانس ایکشن الائنس کے مطابق پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں 2015 سے لے کر 91 ٹرانس عورتوں کو قتل کیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں خواجہ سرا برادری کے 2000 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

2018 پاکستان میں ٹرانسجینڈرز پرسنز ( پروٹیکشن آف رائٹس) حوالے سے ایکٹ پاس کیا گیا۔ جس میں وفاقی حکومت نے خواجہ سرا برادری کے تحفظ اور جنسی شناخت کے حوالے سے قانونی اصلاحات کیں۔ جس پر خواجہ سرا برادری میں ایک خوشی کی لہر دیکھی گئی۔ اس بل کے حوالے سے مذہبی جماعتوں نے شدید مخالفت کی۔ مذہبی جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ مذہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ پارلیمنٹ نے آئیں کے مطابق ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ پاس کر کے خواجہ سرا برادری کے بنیادی انسانی حقوق اور سماجی برابری کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں خواجہ سراؤں پر بنی ایوارڈ یافتہ فلم ’جوئی لینڈ‘ کے ریلیز ہونے کی اجازت ملنے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے پابندی لگا دی گئی۔ جس کے بعد خواجہ سرا برادری اور مذہبی جماعتوں میں سوشل میڈیا پر گرما گرمی کی شروعات ہوئی۔

ٹرانسجینڈرز پرسن تحفظ کا قانون کے پاس ہونے سے خواجہ سراؤں کو رہائش اور وراثت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اور ریاست پاکستان ان کی شناخت کو تسلیم کرنے کی اجازت دیتی ہے، اس قانون سے پہلے نادرا انہیں قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے بھی قاصر تھا۔

2018 میں بننے والے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کے تحت ٹرانس جینڈرز ہی اپنی جنس کو سرکاری ریکارڈز میں بدل سکتے ہیں۔ نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے ریکارڈ کے مطابق 2018 کے بعد سے ملک میں تقریباً 30 ہزار ٹرانس جینڈر افراد نے سرکاری ریکارڈ میں خود کو مخالف جنس کے طور پر رجسٹر کروایا ہے۔ 2018 میں اس قانون پاس ہونے کے بعد گزشتہ سال نادرا کی معلومات کے مطابق ساڑھے 15 ہزار سے زیادہ ٹرانس جینڈر مردوں نے خود کو مخالف جنس کے طور پر رجسٹر کروایا، جبکہ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والی 12 ہزار سے زیادہ عورتوں کا مخالف جنس کی حیثیت سے اندراج ہو چکا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرانسجینڈر قانون سے پہلے ریاست میں ٹرانس کمیونٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ قانون پاس ہونے کے بعد ان کو سماجی برابری اور قانونی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس مارچ کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں کس طرح سے ان کی سماجی اور شناختی معاملات کو حل کرنے میں کس قدر دلچسپی لیتی ہیں۔ اس حوالے سے کراچی میں اتوار کو ہوئے ’مورت مارچ‘ کے بعد سندھ کی وزیر برائے ترقی نسواں شہلا رضا نے یقین دہائی کروائی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کری گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments