مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان


اسلام سے پہلے کی عرب تہذیب و تمدن نے انسانی تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اس زمانے میں یونان کی تہذیب انسانی اقدار کی نشوونما میں کچھ نہ کچھ قدرے بہتر کرنے کے لیے کردار ادا کر رہی تھی۔ یونانی فلاسفرز کے نظریات و خیالات کا بہت بڑا چرچا تھا۔ یونان اس زمانے میں بطور ایک سلطنت کے روپ میں دنیا کے سامنے ظہور پذیر ہوا۔ اس کے ساتھ روم کا بھی انسانی تہذیب کی نشوونما میں آٹے میں نمک کے برابر کردار تھا۔

لیکن بہت ساری ایسی خامیاں ان نظاموں میں موجود تھیں کہ ہم ان معاشروں کو مکمل انسانی معاشرہ نہیں کہہ سکتے مثال کے طور خواتین کے ساتھ ظلم ہونے کے ساتھ ساتھ غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں عرب کی انتہائی جہالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رحمتہ اللعالمین بن کر آئے اور ظلمت کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدل دیا۔ ایک مثالی ریاست ریاست مدینہ قائم کی۔ ریاست مدینہ نے اپنے معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کیا، اور جاہلیت کا وہ سارا گند صاف کیا جس نے پوری دنیا کے ہر معاشرے کو گھیرا ہوا تھا۔

ریاست مدینہ نے عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ کھڑا کیا، جس میں قانونی مساوات کو رائج کیا۔ قانون سب کے لیے ایک تھا، امیر غریب کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ریاست مدینہ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قائم کردہ وہ حکومت تھی جو مدینہ میں قائم ہوئی اور پھر پھیلتی چلی گئی، جسے خلافت راشدہ بھی کہا جاتا ہے۔ عہد رسالت کے بعد تاریخ اسلامی کا سب سے قیمتی عہد، عہد صدیقی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد پوری دنیائے حکمرانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد بھی امن وامان کی بحالی، رواداری، داخلی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے مثالی تھا۔ شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم کا عہد بھی دین و تقویٰ، اخلاص، مشاورت، قرآن و حدیث کے اصولوں پر قائم تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کا عہد بھی فتوحات، امن، خوشحالی کا زمانہ تھا۔ پھر بنو امیہ کا دور موروثی بادشاہت اختیار کر گیا لیکن اس دور میں بھی چند بڑی فتوحات ہوئیں محمد بن قاسم جیسے مجاہدین اسلام کی سرحدیں وسیع کرتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد، حضرت عمر بن عبد العزیز، یوسف بن تاشفین، نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمود غزنوی، خلافت عثمانیہ کے بانی غازی ارطغرل، غازی عثمان اور سلطان محمد فاتح سے لے کر خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی تک، سمیت اسلامی تاریخ کے کئی ہیروز ہیں جنہوں نے دنیا پر مثالی حکومت کی۔

مسلمانوں نے کم وبیش بارہ سو سال تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر حکومت کی۔ اس دورانیہ میں مسلمانوں کو کچھ علاقوں میں پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی جیسا کہ اندلس سے مسلم اقتدار کا خاتمہ، فلسطین پر کچھ عرصہ کے لیے عیسائیوں کا قبضہ یا پھر تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست۔ لیکن مجموعی طور پر مسلمان ہی غالب رہے۔ مسلمانوں کا زوال تب منظر عام پر آنے لگا جب خلافت عثمانیہ جس کی حکومت ایشیا، افریقہ اور یورپ پر پھیلی ہوئی تھی ’ماند پڑنے لگی۔

دوسری طرف مغل سلطنت جس کا رقبہ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا، ایک دم سے سمٹنا شروع ہو گئی۔ انگریز برصغیر میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے اور اپنی چالبازیوں سے آہستہ آہستہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بالآخر 1857 ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کر کے مسلمانوں سے ان کا رہا سہا وقار بھی چھین لیا۔ اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا بھی مکمل خاتمہ ہو گیا۔ مسلمانوں نے گزشتہ صدی عیسوی یعنی بیسویں صدی کا آغاز اس ماحول میں کیا تھا کہ دنیا کے بہت سے مسلم ممالک مغربی استعماری ملکوں کی نو آبادیاں بنے ہوئے تھے۔

خود موجود وطن عزیز پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما کے وسیع خطے میں برطانوی استعمار کی غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے اور آزادی کی تحریکیں مختلف سمت سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کی سیاسی وحدت کے آخری علامتی مرکز ”خلافت عثمانیہ“ کو سبوتاژ کرنے کے لیے یورپی ممالک کی سازشیں نقطۂ عروج کو پہنچی ہوئی تھیں اور ملت اسلامیہ مغربی قوتوں کے مقابلہ میں مسلسل پسپائی کی حالت میں تھیں۔ لیکن بیسویں صدی کے وسط سے ہی حالات نے پلٹا کھانا شروع کیا اور دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور اسلامی نظام کی اجتماعی زندگی سے بے دخلی کے تھوڑے عرصے بعد اسلام ہی کے نام پر ایک نئی سلطنت وطن عزیز وجود میں آ گئی اور متعدد مسلمان ملکوں کی سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں اسلامی نظریاتی تحریکوں نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔

کشمیر، فلسطین، برما، عراق، شام، افغانستان کے علاوہ کئی مسلمان علاقوں کو اغیار کی طرف سے تباہ و برباد کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور کئی جگہوں پر تا حال جاری ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں مثال کے طور پر عالم اسلام معاشی طور پر آزاد نہیں ہیں، اسلامی ممالک کی معیشت بھی اغیار چلا رہے ہیں۔ عالم اسلام مجموعی طور پر عسکری قوت میں بھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین تکنیک سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ مسلمان حکومتیں ابھی تک نوآبادیاتی ماحول سے باہر نہیں نکل سکیں اور بدستور مغربی آقاؤں کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مرعوب اور غلامانہ ذہنیت کی حامل مسلمان حکومتوں سے جس قدر ممکن ہو نجات حاصل کی جائے۔ ہر مسلمان ملک اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے۔ جدید علوم سے آراستہ مسلمان نوجوان یہودیوں اور اغیار کے مقابلے میں امت مسلمہ میں تجارت و کاروبار کو فروغ دیں۔ عسکری قیادت جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ منظم افواج تیار کریں۔ اور اسلامی تحریکات میں باہمی ربط و مفاہمت کی صورتیں پیدا کی جائیں تاکہ عالم اسلام ایک بار پھر انسانی معاشرہ کی قیادت کر کے انسانیت کو فرسودہ نظاموں سے نجات دلائی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments