کیا آپ پاکستان کے ”راسپوتین“ کو جانتے ہیں؟


راسپوتین ایک مشہور زمانہ ”روحانی گرو“ تھا جس کے پیروکاروں کا خیال تھا کہ وہ ایک اوتار ہے، وہ جو کچھ بھی کہتا اور کرتا ہے اس پر دیوتاؤں مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے اسی لیے لاکھوں لوگ اس کی رنگ رنگینیوں اور واضح قسم کے قول و فعل میں تضاد ہونے باوجود بھی اس کے آگے سرتسلیم خم کیے رکھتے کہ کہیں دیوتا ناراض نہ ہو جائیں اور ہم خواہ مخواہ میں مارے جائیں یا ان دیکھے عذاب کا شکار ہو جائیں کیونکہ دیوتاؤں کی مرضی کے بغیر تو گرو راسپوتین بھی کچھ نہیں کر سکتا۔

راسپوتین ایک روسی ”مسٹک، سپرچوائل گرو اور سیلف پروکلیمیڈ“ طرز کا ہولی مین تھا جو روس کی شاہی کلاس میں بہت زیادہ مقبول تھا اور اپنی شاطر دماغی کی وجہ سے روس کی ایلیٹ کلاس میں ایک با اثر قسم کا تاثر و دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ روسی لوگ اسے مسٹک اور پروفٹ سمجھتے تھے حالانکہ وہ ایک اسکینڈل زدہ اور عیاش ترین شخص تھا۔ چوری چکاری اور ہر طرح کی کرپٹ پریکٹسز کرتے کرتے ایک دن اچانک سے غائب ہو جاتا ہے اور جب منظر عام پر آتا ہے تو وہ ایک ایسے حلیے میں ہوتا ہے جسے سادہ زبان میں ”پہنچی ہوئی سرکار“ کہا جاتا ہے۔

اس کے متعلق مشہور ہوجاتا ہے کہ اسے روحانی گیان حاصل ہو چکا ہے۔ روحانی و مذہبی ماسک کا کرشمہ دیکھیے کہ جوانی بطور پلے بوائے اور بھرپور عیاشی نما رنگینیوں میں گزارنے کے باوجود بھی راسپوتین کا ماضی دفن ہو جاتا ہے اور وہ ایک صاف ستھرا روحانی گرو بن کر لاکھوں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے لگتا ہے، مطلب جوانی اور بڑھاپے کا حسین امتزاج و سنگم، زندگی کے اتار چڑھاؤ میں ”من چاہیوں“ کے باوجود بھی معاشرے میں ایک عام سا شخص اگر اپنا روحانی مجسمہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ذرا سوچئے کہ وہ کس قدر شاطر اور مہان شخص ہو گا؟

راسپوتین نے اپنی رنگین مزاجی کو پروٹیکٹو کور دینے کے لیے ایک ایسا پر سونا ماسک پہن لیا تھا جسے تقریباً ہر معاشرے میں ایک منفرد قسم کی عزت نگاہی سے دیکھا جاتا ہے جسے ”مذہبی لبادہ“ کہتے ہیں۔ یہ لبادہ ایک طرح کا معاشرتی اجازت نامہ ہوتا ہے جس کی آڑ میں بہت ساری آزادیاں نصیب ہو جاتی ہیں آپ کھڑے کھڑے کسی کو کچھ بھی ڈیکلیئر کر دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، آپ کی ذات ہر لحاظ سے محفوظ رہتی ہے بھلے اس شخص کی زندگی اجیرن بن جائے جسے آپ اپنے احساس تفاخر کو سہلانے کے چکروں میں کافر یا مشرک تک ڈکلیئر کر ڈالتے ہیں۔

مذہبی لبادہ وہ ”آئرن کرٹن“ ہوتا ہے جسے کاٹنا یا اس کے پار دیکھنے کی جرات و ہمت کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتا اسی لیے یہ ”چکرویو“ شروع دن سے یونہی چلتا آ رہا ہے بس شکلیں اور لوگ بدل جاتے ہیں۔ اسی لیے راسپوتین ایک ایسا علامتی کردار بن چکا ہے جس کی جھلک دنیا کے مختلف معاشروں میں مختلف طرح سے ملتی ہے۔ یہ ایک ایسا کردار کہلاتا ہے جو ”لبادہ تقدیس“ میں عیاش ترین کردار کا حامل ہوتا ہے جس کے ڈی این اے میں عیاشی یا فراڈ کے جراثیم کا غلبہ ہوتا ہے مگر وہ انتہائی چالاکی و عیاری سے اپنی علتوں کو ”روحانائز“ کر لیتا ہے اور خود کو ”وینٹیج پوائنٹ“ یا محفوظ فاصلاتی مقام پر رکھتے ہوئے روحانی گینگ کے ذریعے سے اپنی جیبیں بھرتا رہتا ہے۔

ہماری سرزمین اس لحاظ سے بھی کافی مقدروں و نصیبوں والی ثابت ہوئی ہے جہاں کرہ ارض پر پائے جانے والے ”دوسرے“ پارسا اور انتہائی دیانت دار شخص کا جنم ہوا ہے جس کی عادات و اطوار راسپوتین سے ملتی جلتی ہیں۔ کرہ ارض پر پہلا صادق و امین اور انتہائی دیانتدار شخص بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو سمجھا جاتا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اپنی گزر بسر ٹوپیاں سی کر کیا کرتا تھا۔ اس نے تمام تر سہولیات و آسائشوں کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا تھا، اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ اتنی ساری ٹوپیاں کہاں بیچا کرتا تھا۔

لمحہ موجود میں کرہ ارض پر پایا جانے والا ”دوسرا“ انتہائی صادق و امین شخص عمران خان نیازی ہے جس کے متعلق مشہور ہو چکا ہے کہ وہ ”رجا ہوا یا مالیاتی طور پر نکوں نک“ مطلب تمام تر آسائشیں انجوائے کرنے کے بعد ”آسائش بیزار“ ہو چکا ہے۔ اس کی شخصیت کو ”پروجیکٹ“ کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ جیسے وہ واحد شخص ہے جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے اگر وہ چاہے تو اپنی بقیہ کی زندگی بڑے آرام سے یورپ میں گزار سکتا ہے جیسا کہ اس نے گزاری ہے مگر اس نے دنیاوی آسائشوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور خود کو ملک و قوم کے لئے وقف کر دیا۔

اتنی آسائشیں یا تو ابراہیم بن ادھم نے چھوڑی تھیں یا اب عمران خان نیازی المعروف صادق و امین نے چھوڑی ہیں، اس کی قربانیوں کا اعتراف کرنے اور اسے مسیحا کے روپ میں منظرعام پر لانے کا فیصلہ سسٹم کے چند طاقتوروں نے مل کر کیا اور اس پروجیکٹ پر جسے پروجیکٹ عمران کا نام دیا گیا لانچ کرنے کی کوششوں میں قابل ترین طاقتوروں کی بہت زیادہ محنت و ریاضت لگی اور سسٹم کو انتہائی لچک دار بنایا گیا تاکہ پروجیکٹ عمران بغیر کسی تعطل کے چلتا رہے۔

اس بت کو مسیحائی کے سانچے میں سجانے اور آسمانی اوتار ثابت کرنے کے لئے درجنوں ذہن اور ہزاروں قلم کاروں کی قلمیں خریدی گئیں اور بیسیوں اینکرز کو نجانے کیسے کیسے کرپشن کے ثبوت دکھا کر ”ایموشنل فول“ بنانے کے بعد پروپیگنڈا کیمپین کے طور پر ان کی خدمات کرائے پر حاصل کی گئیں۔ اکیلے بندے کی سہولت کی خاطر سسٹم کو اتنا لچک دار بنا دیا گیا کہ وہ جو چاہے جیسے چاہے کرے کوئی مضائقہ نہیں یا یوں کہہ لیں کہ سسٹم کے طاقتوروں نے اس بندے کو یقین دلا دیا کہ

”تم سا اس سرزمین پر کوئی بھی نہیں ہے“

آخر کار اسے ایک دن اس فرضی جھوٹ پر یقین ہو گیا جیسے ہی اس کا ”یقین خودی“ مستحکم ہوا سسٹم نے فوری طور پر اسے اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے وزیر اعظم بنا دیا۔ اب ایسا شخص بھی کیا کرے جس کے کانوں کو صرف ایک جملہ سننے کا عادی بنا دیا گیا ہو کہ

”تم سا کوئی نہیں“

تو بس پھر وہ اسی یقین محکم کے گہرے پانیوں میں اتر گیا اور خود کو حقیقت میں اوتار سمجھ بیٹھا اور اس کے اندر بھی ”راسپوتونیک“ روح حلول کر گئی اور اپنی اسی مقدس پوزیشن کا اس قدر بھرپور استعمال کیا کہ تاریخ میں شاید اس کا کوئی متبادل پیدا ہو سکے۔ گملے میں تیار کیے گئے مسیحا نے اپنے استحقاق کا اس قدر بے رحمی سے استعمال کیا کہ لانے والوں کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ریاست مدینہ کا شاطرانہ کارڈ اس قدر عیاری سے کھیلا کہ انصار عباسی، حسن نثار، اوریا مقبول جان اور اس کے علاوہ درجنوں بڑے بڑے دانا جنہیں اپنی دانشوری پر بڑا ناز تھا وہ سب اس مہان پاکستانی راسپوتین کے جھانسے میں آ گئے اور زمین و آسمان کے قلابے ملانے اور اسے ”چنیدہ“ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بس پھر اس رجسٹرڈ صادق و امین نے ایک ایسی داستان رقم کر ڈالی کہ کوئی اس کے خلاف جانے کی کوشش کرتا تو اس کو اس قسم کے جملے سننے کو ملتے۔

میرے خلاف جانے والے مشرک تصور ہوں گے۔
قبر میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سچے پیغامبر کا ساتھ نہ دینے والوں سے فرشتے پوچھیں گے۔
میرا ساتھ نہ دینے والے بدعنوان ہیں۔
مجھے بدعنوانوں کو لٹکانے کے لیے چنا گیا ہے۔
جو تحریک عدم اعتماد میں میرے خلاف جائے گا لوگ اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیں گے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے عمرانی بریگیڈ نے اپنے مہاتما کے خلاف جانے والوں کی انتہائی گھٹیا انداز میں کردار کشی کی اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس قسم کی گھٹیا مہم کی زد میں کون کون آتا ہے، بس اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ بندہ معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ جیسے ہی سیم پیج ختم ہوا اور مہاتما جی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں رخصت ہو گئے تو اب رجسٹرڈ صادق و امین کا کچھا چٹھا کھلنے لگا ہے۔

ایسے ایسے پردہ نشین سامنے آنے لگے ہیں جن کو مہاتما کی بھرپور تائید حاصل رہی، مردوں اور خواتین کے روحانی گینگ کے ذریعے سے توشہ خانہ کو ڈمی خانہ میں تبدیل کر دیا گیا اور غیر ملکی مہمانوں کے تحائف کا بزنس انتہائی ڈھٹائی سے کیا گیا۔ توشہ خانہ کی اسٹوری بریک کرنے والے رانا ابرار خالد کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک تو اس اسکینڈل کی 30 فیصد پرتیں کھلی ہیں جس دن سو فیصد کھل گئیں اس وقت پتہ چلے گا کہ یہ کس قدر ”کھوکھلا مہاتما“ تھا۔

سوال تو لانے والوں کی قابلیت اور عقل کل ہونے کے دعویداروں پر بھی اٹھے گا کہ وہ کیا دیکھ کر اس مہان کو سامنے لائے تھے؟ بھلا تحفے بیچنے کی گھٹیا حرکت کون کرتا ہے؟ اب ایسے بندے کی ذہنی سطح کیا ہوگی جو مہمانوں کے تحائف کا بھی بزنس کرنے کی جسارت کر ڈالے؟ کمال مہارت سے ہاتھ میں تسبیح اور زبان پر مقدس کلمات کے ذریعہ سے راسپوتین کی طرح عوام کی غالب اکثریت کو چونا لگانے میں کامیاب ہو گیا اور اب تو اس بندے کی ایبسولوٹلی ناٹ کا راز بھی آہستہ آہستہ کھلنے لگا ہے۔

ایک ٹشو پیپر ٹائپ کاغذ کے ٹکڑے کو لہرا کر امریکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹنے میں کافی حد تک کامیاب رہا مگر افواہی اسموگ بیٹھ جانے کے بعد منظر واضح ہونے لگا ہے اور سازشی نظریات کی ہوا نکلنا شروع ہو چکی ہے اور انٹرنیشنل میڈیا نے تو اس مسیحا کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی طرف سے پوچھا جانے والا سوال صرف ایک ہی تھا

آپ پر حملہ ہوا ہے تو آپ کے پاس ثبوت کیا ہیں ”؟
جواب ملاحظہ فرمائیں
میں کرکٹ کی دو ہزار سالہ تاریخ بتاؤں کہ کیسے میری وجہ سے نیوٹرل امپائرز آئے۔
میں ذرا پہلے تھوڑا سا پس منظر بتا دوں۔
مجھے سازش کا دو مہینے پہلے سے معلوم تھا۔

ان جوابات میں صرف عقل والوں کے لیے واضح نشانیاں موجود ہیں اہل جنوں و جذبات جو سمجھنا چاہیں سمجھ لیں ہمارا مقصد تو گراف سامنے رکھنا تھا اب جو ڈاٹ سے ڈاٹ ملانے کی کوشش کرے گا وہی بامراد ہو گا۔ اب بہت سی نگاہیں اوریا مقبول جان کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ ان کی مقدس نگاہیں راندہ درگاہ عمران خان کے لیے کون سا روحانی خواب دیکھیں گی؟ اور مولانا طارق جمیل جنہوں نے مہاتما کے متعلق صادق و امین اور پختہ دیندار ہونے کی گواہی دی تھی بددیانت ثابت ہونے پر ان کا اب کیا موقف ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments