ایرانی فلمیں، ماجد مجیدی اور باران


فلموں کو پسند کرنے اور انہیں سمجھنے کے مراحل سے میں ابھی گزرا ہی نہیں تھا کہ میں خود ایک فلم کا حصہ بن گیا تھا۔ میرے والد کے خالہ زاد بھائی حیدر علی جو کہ ان سے عمر میں کافی بڑے تھے اور میرے دادا کے جیسی حیثیت رکھتے تھے، ان کو فلموں سے عشق تھا۔ عشق اتنا کے کاروبار کے ساتھ وہ فلم پروڈیوسر بھی بن گئے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی اور آخری فلم ”دشمن“ ، جو کہ سندھی زبان میں تھی، پروڈیوس کی تھی اور اس فلم میں ہیرو کے بچپن کا کردار ادا کرنے کا قرعہ میرے نام نکلا تھا۔

وہ اس فلم کے بعد شاید اور فلمیں بھی بناتے لیکن زندگی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ یوں میں فلموں کو سمجھنے اور پسند کرنے سے پہلے فلموں سے جڑ گیا تھا۔ آگے چل کہ مجھے بھی فلموں سے لگاؤ پیدا ہوا، جو ایک بیج کی طرح تھا؛ وہ بیج بڑھتا ہوا ایک درخت کا روپ اختیار کر گیا، سایہ دار درخت، شاید برگد کا یا پھر ایسا جس کی جڑیں پاتال میں ہوں، گہرا۔

میرے لئے فلمیں صرف تفریح کے لئے نہیں۔ فلمیں کہانیاں سناتی ہیں جو کہ ہماری اپنی ہوتی ہیں۔ فلمیں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں جن میں کردار اپنے داخلی احساسات اور خارجی حالات سے رنگ بھرتے ہیں اور دیکھنے والے ان کے ساتھ سانس لینے لگتے ہیں۔ سندھی زبان کے معروف ناول نگار موھن کلپنا نے کہیں لکھا تھا کہ ”فلم مرکب آرٹ ہوتی ہے“ اور میں ان کی اس بات سے متفق محسوس کرتا ہوں۔ فلموں کا سیاسی پہلو بھی ہوتا ہے اور ان میں معاشرتی نا انصافیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

پاکستان کے جمیل دہلوی کو ہی لے لیں۔ مارچ 2008 ء میں انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ آغا خان یونیورسٹی میں ”گوریلا فلم سازی“ کے بارے میں ایک لیکچر پروگرام میں ان سے گفتگو کا موقعہ ملا تھا اور میں نے ان کی فلموں میں گدھ کو بطور علامت استعمال کرنے کے حوالے سے سوال اٹھایا تھا، انہوں نے مسکراتے ہوئے موضوع بدل دیا تھا۔ جمیل دہلوی کی، 1980 کی دہائی میں جاری ہوئی فلم، ”بلڈ آف حسین“ نے، انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہ ہے فلموں کا اثر جن میں حقیقت نگاری اور علامتوں کا استعمال دیکھنے والے متاثر کرتا ہے اور تحرک کا باعث بنتا ہے۔ انہی ایام میں انقلاب ایران کے بعد ایران میں فلم سازی کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے تھے۔ ایران میں انقلاب کے بعد سنیما گھروں پر حملے بھی ہوئے اور قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا لیکن ایرانی فلم سازوں نے نوے کی دہائی میں کافی ترقی کی۔ ان فلم سازوں میں ماجد مجیدی کا شمار صف اول کے فلم سازوں میں کیا جاتا ہے۔ آج ہم ان کی فلم ”باران“ کے بارے میں بات کریں گے۔

انقلاب ایران کے بعد کی ایرانی فلم سازی میں حقیقت نگاری کی اہم جگہ ہے جس میں علامتوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ماجد مجیدی اور اس کے ہم عصروں نے سینسرشپ سے بچنے کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھر پور انداز میں استعمال کیا اور عالمی شہرت کے حامل ہوئے۔ ایرانی فلم سازی کو عالمی فلمی منظر نامی میں نیو ریئل ازم کی تحریک سے جوڑا جاتا ہے جیسا کہ عالمی جنگ دوئم کے بعد اطالوی فلم سازی کو مانا جانے لگا تھا۔ ماجد مجیدی کی فلمیں بھی اسی تسلسل کا حصہ سمجھی جاتی ہیں جن میں روز مرہ کے حالات اور واقعات کی عکس بندی کی گئی ہوتی ہے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو فلم باران میں بھی ایران میں افغان مہاجرین کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کا پروٹوگانسٹ ”لطیف“ نامی ایک مزدور ہے جو باقی مزدوروں کے لئے چائے بناتا ہے۔ یہ مزدور کسی عمارت کی تعمیر کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دن ان میں سے ایک کا پاؤں ٹوٹ جاتا ہے اور وہ اپنی جگہ اپنی بیٹی کو لڑکا بنا کر بھیجتا ہے۔ ٹھیکیدار کچھ پس و پیش کے بعد اسے رکھ لیتا ہے لیکن مزدوری کا کام اس کے بس سے باہر کا محسوس ہوتا ہے۔

اس لیے لطیف کو ہٹا کر اسے چائے وغیرہ بنانے کا ذمہ دے دیا جاتا ہے۔ لطیف اس بات پر برہم ہوتا ہے اور اسے تنگ کرنے لگتا ہے لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکا حقیقتاً ایک لڑکی ہے تو اسے اس سے ہمدردی ہونے لگتی ہے اور وہ اس کے خاندان کی مدد کرنے لگتا ہے۔ یوں آخر میں وہ انہیں اپنا شناختی کارڈ بیچ کر افغانستان جانے کے لئے خاموشی سے رقم فراہم کرتا ہے اور انہیں پتہ نہیں لگنے دیتا ہے کہ حقیقتاً وہ اس کے پیسے ہیں۔

ایرانی فلموں میں مرد اور عورت کی محبت کے تعلق کو واضح دکھانے پر پابندی ہے اور فلم سازوں کو سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے فلم باران میں ماجد مجیدی نے مرکزی کردار لطیف اور ”باران“ کے درمیان تعلق کو واضح نہیں کیا۔ ماجد مجیدی نے اپنی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے اشارتاً بات کی ہے اور اس رشتے کی جمالیات کو اجاگر کیا ہے جو کہ ماجد مجیدی کی فنی مہارت ہے۔ فلم سازی کے نقاد ماجد مجیدی کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ معاشرے کے مزدور طبقے کو فوکس کرتا ہے اور ان کی مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے کہانیاں سناتا ہے۔

اس فلم میں بھی یہ پہلو آشکار ہوتا نظر آتا ہے۔ فلم کی شروعات کلوز اپ سے ہوتی ہے جو کہ ایک محنت کش کے کام کرتے ہاتھ ہیں۔ یہی تکنیک ماجد مجیدی نے اپنی فلم ”چلڈرن آف ہیون“ میں بھی استعمال کی ہے جس میں ایک موچی کے ہاتھوں کو کلوز اپ میں کام کرتے دکھا یا گیا ہے۔ ماجد مجیدی کی فلموں کے کردار ایمان دار، با اخلاق اور نیک گردانے جاتے ہیں۔ باران فلم میں لطیف کا کردار بھی ایسا ہی ہے جو اپنی ذات کو قربان کر کے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

اطالوی فلم ساز روزیلینی نے اپنے ہم عصر فلم سزاؤں کو حقیقت نگاری کے حوالے سے 1945 ء میں اپیل کی تھی جس میں کہا تھا کہ ”اگر ہم پھٹے پرانے کپڑوں میں ہیں تو ہمیں دنیا کو اپنے پھٹے پرانے کپڑے ہی فلموں میں دکھانے ہوں گے۔ اگر ہم ہارے ہوئے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنی ہار کو تسلیم کریں۔ اسی طرح اگر مافیا، آمریت، غیر ذمہ دارانہ روئیے یا ہماری خراب پرورش ہمارا اثاثہ ہے تو ہم یہ قرض سچ گوئی اور حقیقت پسندانہ فلم سازی سے اتار سکتے ہیں“ ۔ اگر ہم ماجد مجیدی کی فلم باران کو دیکھیں گے تو ہمیں ایرانی معاشرے کی حقیقتیں واضح نظر آئیں گی۔ باران فلم ہمیں افغان مہاجرین کی ایران میں غربت و تکلیف، مزدور طبقے کے مسائل، ایرانی نظام حکومت کے طور طریقوں اور انقلاب کے بعد جڑنے والے نئے سماجی معاہدے کی روداد نظر آئے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments