آرمی چیف کی تعیناتی – پس پردہ محرکات


جنرل عاصم منیر کو پاک فوج کا نیا سربراہ نامزد کیے جانے سے قبل سوشل میڈیا پر آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مختلف سوالات زیر بحث تھے۔ گزشتہ کئی روز سے ذرائع ابلاغ میں میں ایک ہی سوال پر بحث ہو رہی تھی کہ پاکستانی فوج کا اگلا آرمی چیف کون ہو گا اور اس حوالے سے حتمی فیصلے کے بارے میں جاری تنازع کب ختم ہو گا۔ اگر پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جتنی سیاست اس تقرری پر ہوئی ہے اور جس حد تک سخت عوامی بحث اس تقرری کے حوالے سے ہوئی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سابق وزیراعظم کی جانب سے فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو عوامی جلسوں میں موضوع بحث بنایا گیا۔ اس اہم عہدے پر تعیناتی کے لیے اگرچہ زیادہ وقت درکار نہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس معاملہ پر وجوہات بتائے بغیر مختلف تاریخیں دی جاتی رہی ہیں۔ وزیردفاع خواجہ آصف کئی مرتبہ اس عمل کو شروع ہونے اور مکمل ہونے کے بارے میں تاریخیں دی جس کی وجہ سے سوالات اٹھنے شروع ہو گئے کہ اتنی دیر کیوں کی جا رہی ہے۔

اس دوران ایسے واقعات ہوتے رہے جس سے یہ تاثر ملتا رہا کہ سیاسی اور عسکری تعیناتی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہے۔ اس تاثر کو حکومتی اور اپوزیشن کے بیانات کے بعد مزید تقویت ملتی رہی۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے بیان دیا کہ اگر سمری موصول نہ بھی ہو تو وزیراعظم اعلان کر سکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ضروری ہے کہ آرمی چیف کی سمری جلد آئے اور وزیراعظم اس پر جلد فیصلہ کریں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کی سمری نہ آنا آئین کی خلاف ورزی ہے، جب کہ ناموں کی فہرست میں اہل شخص کا نام شامل نہ ہونا یا اہلیت نہ رکھنے والے کا نام ہونا غلط ہو گا، یہ معاملہ عدالت میں چیلنج بھی ہو سکتا ہے۔

جبکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر عارف علوی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری پر کسی قسم کی تاخیر نہ کریں ورنہ نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ عمران خان کے حامی حلقوں میں صرف یہی کہا جا رہا تھا کہ عاصم منیر کو آرمی چیف نہ بنایا جائے۔ عمران خان نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ موجودہ آرمی چیف کو عام انتخابات کے انعقاد تک توسیع دے دینی چاہیے تاکہ نئی حکومت ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کرے۔

یہ تمام بیانات اس بات کو تقویت دیتے تھے کہ عسکری اور سیاسی افراد تعیناتی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس میں شرکت کے لیے مصر کے دورے پر تھے جہاں سے وہ بدھ کو نجی پرواز کے ذریعے اچانک لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔ شہباز شریف کا لندن کا دورہ پہلے سے طے نہیں تھا بلکہ اچانک اور آخری لمحات میں طے ہوا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ دورہ بھی تعیناتی کے حوالے سے اسلام آباد سے ایک اہم پیغام ملنے کے بعد ایمرجنسی میں کیا جاتا ہے۔

اس پیغام میں حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ موجودہ صورتحال میں یا تو موجودہ آرمی چیف کو مزید توسیع دی جائے یا جنرل اظہر عباس کو نیا آرمی چیف تعینات کیا جائے۔ لندن میں میاں برادران کی ملاقات میں میاں نواز شریف وزیر اعظم نواز شہباز شریف کو اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں کسی صورت میں مزید توسیع نہیں کرنی چاہیے۔ نواز شریف جنرل باجوہ کے حوالے سے کافی تحفظات رکھتے تھے اور ملک میں موجودہ بحران کے ذمہ دار بھی انہی کو سمجھتے تھے۔

اس لیے انہوں نے سنیارٹی کی بنیاد پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے نام پر اتفاق کیا گیا۔ جس کے بعد حکومت کی طرف سے عسکری قیادت کو بھی واضح پیغام دیا گیا جبکہ حکومتی اتحادوں نے بھی اس موقف پر حکومت کا ساتھ دیا۔ جس کے بعد نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کے حوالے سے حکومت کو جی ایچ کیو سے 6 ناموں کی سمری موصول ہو گئی۔ سمری میں لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کے نام شامل تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے سینئر لفٹیننٹ جنرلز کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف تعینات کیا جبکہ دوسرے نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے کے بعد اس سمری پر دستخط بھی کر دیے۔ یوں جنرل عاصم منیر پاک فوج کے 17 ویں سپہ سالار بن گئے ہیں۔ وہ 29 نومبر کو موجودہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنے عہدے کا چارج لیں گے۔

آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد دو اہم خبریں آتی ہے۔ پہلی خبر پاکستان آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف ( سی جی ایس ) لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کا قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے فوراً بعد خبر آتی ہے کہ کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں جرنیل سپرسیڈ نہیں ہوئے۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ ان جرنیلوں نے خود استعفیٰ دیا یا ان سے دلوایا گیا۔ لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ حکومت اور عسکری قیادت تعیناتی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments