نئے سپہ سالار کو در پیش تین بڑے چیلنجز!


کئی ہفتوں کی قیاس آرائیوں اور چند اعصاب شکن دنوں کے بعد بالآخر پاکستان آرمی کے نئے سپہ سالار کی نامزدگی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو سروس میں برقرار رکھتے ہوئے فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی ہے۔ یوں اب وہ 27 نومبر کو ریٹائر ہونے کی بجائے دو روز بعد اپنے نئے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے۔ اگرچہ حکومت کا اصرار ہے کہ اس تعیناتی میں سنیارٹی کا اصول مد نظر رکھا گیا ہے، تاہم گزرے دنوں کے واقعات اور زیر زمین سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ اس قدر سادہ اور سہل نہیں تھا۔ چنانچہ ممتاز پاکستانی نژاد امریکی سکالر شجاع نواز کا خیال ہے کہ نئی تعیناتی پر قانونی سوالات کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم اندریں حالات غالب امکان یہی ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد ایسی کوئی صورت حال پیدا ہونے کا بظاہر کوئی اندیشہ نہیں۔ یوں بھی معاملات کو اب آگے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ خدا ضرور بہتری کی صورت پیدا کرے گا۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت سر سے پاؤں تک بری طرح تقسیم کا شکار ہے۔ تاہم حالیہ چند دنوں میں ہمارے ہاں چھپنے وا لے اغیار کے تجزیوں اور تبصروں کو مدنظر رکھا جائے تو ہماری دانست میں نئے آرمی چیف کو درپیش تین بڑے چیلنجز ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اولا، پاک امریکہ تعلقات کی بحالی۔ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں ساؤتھ اور سنٹرل ایشین افیئرز کی انچارج لزا کرٹس نے اگلے روز واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ’پاکستان کے اندر آرمی چیف کا عہدہ ہی پاک امریکہ تعلقات، نیوکلیئر پالیسی، بھارت سے تعلقات اور دہشت گردی جیسے معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ چنانچہ بظاہر امریکہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں واپس آتے ہیں یا نہیں۔ تاہم عمران خان نے اس سال اپریل میں اپنی حکومت گرائے جانے کے بعد سے جس طرح امریکی مداخلت کے کارڈ کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے، کہا جا سکتا ہے کہ صرف انہی کی کرشماتی شخصیت ہی ہے کہ جو وہاں امریکہ مخالف جذبات کو واپس قابو میں بھی لا سکتی ہے‘ ۔

مس کر ٹس کو توقع ہے کہ ’عمران خان جب بھی اقتدار میں واپس آئے تووہ پاک امریکہ تعلقات کو ریسیٹ کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ دوسری طرف امریکہ بھی پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ امریکہ کو نا صرف یو کرین پر پاکستانی حمایت درکار ہے، بلکہ اسے یہ بھی دیکھنا ہے کہ معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک کہیں مکمل طور پر چین کی گود میں نہ جا گرے‘ ۔ دیکھنا یہ ہے کہ خود ہمارے ہاں اب اس سارے معاملے کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔

دوسرا اہم چیلنج جو نئے آرمی چیف کو در پیش دکھائی دیتا ہے وہ سیاسی بے یقینی اور معاشی عدم استحکام کا خاتمہ ہے۔ در پیش بحرانی صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ سر دست عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہی دکھائی دیتا ہے۔ واشنگٹن میں منعقدہ تقریب میں ہی امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمران خان پاکستان میں اس قدر مقبول نہیں جتنا ان کو سمجھا جا رہا ہے۔ چنانچہ عام انتخابات میں کافی سیٹیں جیتنے کے باوجود وہ سویپ نہیں کر سکیں گے‘ ۔

تاہم یو اے ای میں سابق افغان سفیر جاوید احمد اور عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک امریکی سکالر ڈگلس لنڈن نے موقع پر ہی رائے دی کہ ’عمران خان عام انتخابات بھر پور اکثریت سے جیتیں گے‘ ۔ چنانچہ جہاں بظاہر اسی خوف کے پیش نظر حکومتی اتحاد انتخابات کے انعقاد سے گھبرا رہا ہے، وہیں یو ایس کونسل آن فارن ریلیشنز کے اینڈریو گورڈن کا خیال ہے کہ ’تباہی کے دہانے پر کھڑی پاکستانی معیشت بہت دیر تک سیاسی بے یقینی اور محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اکنامک ڈیفالٹ پاکستان میں مزید سیاسی انتشار کا سبب بنے گا‘ ۔

چنانچہ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ملکی سیاست سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان کیا ہے، گمان یہی ہے کہ نئے آرمی چیف بہت دیر تک خود کو معاملات سے الگ نہیں رکھ سکیں گے۔ مسٹر گورڈن کی رائے ہے کہ (ملک کو درپیش خطرات کا پورا ادراک ہونے کی بناء پر ) اس بات کی توقع کی جانی چاہیے کہ “جلد یا بدیر نئے پاکستانی سپہ سالار متحارب سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک‘ ڈیل بروکر ’کا کردار ادا کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے” ۔

تیسرا اور سب سے اہم چیلنج جو نئے آرمی چیف کو در پیش دکھائی دیتا ہے وہ ادارے پر پاکستانی عوام کے اعتماد کی بحالی ہے۔ جاوید احمد اور ڈگلس لنڈن کی رائے میں ’اس سال اپریل میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی مقبولیت کا ہر گز درست اندازہ نہیں کیا تھا‘ ۔ نتیجے میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی مڈل کلاس ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ، واشنگٹن کے ڈائریکٹر فار پاکستان سٹڈیز ڈاکٹر مارون وائن بان نے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی موجودہ نوعیت پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سلامتی کے ادارے میں نچلے درجے کے افسروں کی اکثریت اس وقت ایک خاص سیاسی جماعت کی ہمدرد دکھائی دیتی ہے‘ ۔ چنانچہ نہ صرف سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ کو درست کرنا بلکہ ’خود ادارے کے اندر اتفاق رائے پیدا کرنا نئے سپہ سالار کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہو گا‘ ۔ اسی بناء پر ادارے کی خواہش ہو گی کہ اسے سڑکوں پر عوام کے سامنے لائے جانے کی بجائے آنے والے لانگ مارچ کے معاملات پولیس اور قانون کا نفاذ کرنے والے دیگر اداروں پر چھوڑ دیے جائیں۔

ڈاکٹر وائن بان کی رائے ہے کہ ’جس قدر جلدی ہو عمران خان کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات درست کر لینے چاہئیں‘ ۔ بصورت دیگر مخاصمت اگر مزید طول پکڑتی ہے تو ’پاکستانی عوام اور افواج میں اپنائیت کا قدیم روایتی رشتہ مزید کمزور ہو گا‘ ۔ تاہم در پیش صورت حال میں اطمینان کا جو پہلو ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے عمران خان اور ان کے سپورٹرز کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پرکی جانے والی شدید تنقید کے باوجود دو طرفہ ناراضگی نفرت میں نہیں بدلی۔ پاکستانی مڈل کلاس بشمول غازیوں اور شہیدوں کے ہزاروں خاندانوں اور سمندر پار بسنے والے وطن کی محبت میں ڈوبے لاکھوں تارکین وطن سے اس بات کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے وقتی ناراضگی کا سبب حکمران ٹولے سے عوام کی شدید بیزاری ہے کہ جس کو ملک پر مسلط کیے جانے کے لئے وہ اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس تاثر کو دور کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments