شرمین عبید چنائے نے لکس سٹائل ایوارڈ کیوں واپس کیا؟


”جنسی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی فعالیت“ ایک بین الاقوامی مہم ہے جو 1991 میں خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے شروع ہوئی۔ 25 نومبر، خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے شروع ہو کر، 10 دسمبر، انسانی حقوق کے عالمی دن تک، یہ مہم دنیا بھر کے افراد اور گروہوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کے لئے کام کریں۔

اقوام متحدہ نے خواتین کے خلاف تشدد کی تعریف جنسی بنیاد پر تشدد کے کسی بھی عمل کے طور پر کی ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تکلیف یا نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بشمول اس طرح کے اعمال کی دھمکیوں، جبر اور آزادی سے محرومی چاہے وہ عوامی زندگی میں ہو یا نجی زندگی میں۔ خواتین اور لڑکیوں پر تشدد انسانی حقوق کی سنگین ترین اور اکثر ہونے والی خلاف ورزیوں میں سے ہے جو مختلف شکلوں میں موجود ہے مثلاً جنس کی بنا پر منتخب اسقاط حمل، ذہنی جبر، بدسلوکی، گھریلو تشدد، جسمانی تشدد، ریپ، تیزاب گردی، کاروکاری، ونی، غیرت کے نام پر قتل، بچپن کی شادی، جبری شادی، بچیوں سے مزدوری، تعلیم اور مواقع کی راہ میں رکاوٹ وغیرہ۔ صنفی تشدد انسانی سلامتی اور وقار کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ پائیدار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اگر ہم پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 افراد کے درمیان مساوات کو یقینی بناتا ہے اور آرٹیکل 34 اسی اصول کی تصدیق کرتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی معیارات اور ذمہ داریاں بھی رکن ریاستوں میں صنفی مساوات پر زور دیتے ہیں۔ مثلاً انسانی حقوق کا عالمی منشور یہ بتاتا ہے کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہیں۔ مزید برآں، پاکستان اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال (UNCRC) ، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا معاہدہ (CEDAW) اور تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف معاہدہ (CAT) کا فریق ہے۔

پائیدار ترقی کے اہداف میں SDG# 5 صنفی مساوات کے حصول کے لئے عوامی اور نجی شعبوں میں تمام خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کا ٹارگٹ دیتا ہے۔ مذکورہ بین الاقوامی معیارات زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین اور بچیوں کے مساوی حقوق کی وکالت کرتے ہیں اور تشدد کی خاتمے کے لئے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کا پابند کرتے ہیں۔

تاہم، 2022 کے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کے مطابق پاکستان صنفی مساوات کے لحاظ سے دوسرا بدترین ملک ہے۔ خواتین پر تشدد کے واقعات کی کم رپورٹنگ کے باوجود، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2021 میں ریپ کے 5279 جبکہ غیرت کے نام پر قتل کے 478 مقدمات درج ہوئے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017۔ 18 کے مطابق 3.6 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 سال سے پہلے کردی جاتی ہے جبکہ 18.3 فیصد کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ دیگر لڑکیوں کی نسبت شادی کردی جانے والی لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ شوہر اور سسرال کی بدسلوکی کا آسان شکار ہوتی ہیں۔ یہ حقائق اور بہت سے دوسرے پریشان کن اعداد و شماریہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔

امید افزا بات یہ ہے کہ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ اب شوبز اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے وا لے افراد بھی صنفی تشدد کے خلاف بھر پور آواز اٹھا رہے ہیں۔ اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والی پاکستانی ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے نے اپنا لکس سٹائل ایوارڈ واپس کر دیا ہے۔ انھوں نے اداکار فیروز خان کی لکس سٹائل ایوارڈ میں بہترین اداکار کے طور پر نامزدگی کے خلاف احتجاج میں اپنا ایوارڈ واپس کیا ہے۔ اداکار کے خلاف ان کی بیوی علیزہ سلطان نے عدالت میں ثبوت پیش کیے کہ وہ ان پر گھریلو تشدد کرتے تھے۔ شرمین عبید چنائے نے یہ قدم گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی میں اٹھایا ہے۔ انھوں نے ان لوگوں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے جو خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور انھیں با اختیار انسان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

شرمین عبید چنائے نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ میں لکھا کہ ”لکس ایک بیوٹی برانڈ ہے جو خواتین کو اپنا صابن بیچتا ہے۔ تب بھی اس نے ایک ایسے مرد کی نامزدگی کی اجازت دی جو اپنی سابقہ بیوی کو پیٹتا تھا۔ لکس بنانے والی کمپنی یونی لیور عالمی سطح پر گھریلو تشدد کے خلاف مہم چلاتی ہے تاہم پاکستان میں اس کے دفاتر ان اقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے۔ 1912 میں مجھے لکس لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا لیکن میں یہ ایوارڈ یونی لیور کو واپس بھیج رہی ہوں کیونکہ ہماری اقدار میں فرق ہے۔ یونی لیور اور لکس نے معاشرے اور ایوارڈز کی ضرر رسائی کی ہے۔ یہ ان کے لئے ٹھیک نہیں ہے کہ وہ بد سلوکی کرنے والوں کے لئے جشن کا اہتمام کرتے ہیں۔ معاشرے کی سطح پر ہمیں گھریلو تشدد کے خلاف مل کر آواز اٹھانی چاہیے اور ان لوگوں پر تنقید کرنی چاہیے جو متشدد لوگوں کو پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں“ ۔

اداکارہ اقرا عزیز نے اپنی انسٹاگرام سٹوری میں لکھا کہ ”نا انصافی کی صورت میں خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ گھریلو تشدد کے خلاف مشکل مگر ضروری فیصلہ کرتے ہوئے میں نے فیروز خان کے ساتھ اپنا پراجیکٹ ختم کر دیا ہے۔ یہ گھریلو بدسلوکی کا شکار ہونے والوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار ہے“ ۔ شو بز اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ کئی اور افراد نے بھی عورتوں پرتشدد کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ حال ہی میں نیوز کاسٹر اور اینکر پرسن رابعہ انعم نے ندا یاسر کے مارننگ شو میں بیٹھنے سے آن ائر انکار کر دیا جب انھیں معلوم ہوا کہ شو میں ان کے ساتھ اداکار و گلوکار محسن عباس حیدر بھی ہوں گے۔ محسن عباس حیدر پر اپنی سابقہ بیوی فاطمہ سہیل پر تشدد کے الزامات ہیں۔

معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر کوشش اپنے گھر کے بچوں کی تربیت سے کرنا ہو گی۔ سوچ اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ دوسروں کو قبول کرنے، باہمی احترام، سماجی انصاف، مساوی حقوق اور وسائل کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہو گا۔ پاکستان میں حقوق کے بہت سے اہم چیلنجز ہیں لیکن حکومت کو بچیوں اور عورتوں کے حقوق کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم لڑکیوں اور عورتوں کے خلاف تشدد پر قابو نہیں پاتے اور انھیں مناسب مواقع فراہم نہیں کرتے تو پاکستان کی پائیدار معاشی اور سماجی ترقی ناپید رہے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں اور عورتوں کو با اختیار بنانے کے مواقع کو فروغ دے اور معاشرے میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments