کیا گلگت بلتستان میں سیلاب کی تباہی کم کرنے والا نظام پاکستان کے دوسرے حصوں میں کارگر ہو سکتا ہے؟


ویدر مانیٹرنگ پوسٹ
یہ سنہ 2017 کی بات ہے جب ناشدہ کریم گرلز ہاسٹل میں بیٹھی ہوئی تھیں اور انھیں اطلاع ملی کی اُن کے گاؤں میں سیلاب آنے والا ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی ہاسٹل میں بھگدڑ جیسی کیفیت پیدا ہو گئی کیونکہ رواں برس ہونے والی بارشوں کے باعث یہ تو سب کو معلوم تھا کہ تباہ کاریاں زیادہ ہوں گی مگر آنے والے سیلاب کی شدت کیا ہو گی یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔

گاؤں کے نوجوان بھی علاقے کے مختلف پہاڑوں میں جا کر بیٹھ گئے تھے تاکہ سیلابی ریلہ آنے کی صورت میں گاؤں والوں کو بروقت مطلع کر سکیں۔

ناشدہ کریم گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے وادی شیر قلعہ میں رہتی ہیں جو کہ پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ وہ اس علاقے میں لڑکیوں کا ایک ہاسٹل چلاتی ہیں جہاں مختلف علاقوں سے آنے والی لڑکیاں رہائش پذیر ہیں۔

ناشدہ کریم سے جب میں حسین آباد میں ملا تو انھوں نے 2017 کی ایک قیامت خیز رات کا واقعہ سُنایا جب اگلے دن صبح کے وقت اُن کے گاؤں میں سیلاب آیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سیلاب سے مالی نقصان تو ہوا لیکن انھیں یہ اندازہ بھی ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ بارشیں بھی زیادہ ہونے لگی ہیں اور پہاڑوں سے بھی غیر متوقع طور پر بہت ساری جگہوں سے پانی گاؤں میں داخل ہوتا تھا جس نے گاؤں والوں کو اور پریشان کر دیا تھا۔

کریم

ناشدہ کریم نے جب 2017 کا واقعہ دہرایا تو اُن کے چہرے پر خوف واضح تھا

ناشدہ کریم نے جب سنہ 2017 کا واقعہ دہرایا تو اُن کے چہرے پر خوف واضح تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے اوپر بہت بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ میں کسی طرح اپنے ہاسٹل میں موجود لڑکیوں کو محفوظ رکھوں۔ لیکں اب وہ وقت ایک بھیانک خواب کی طرح گزر گیا ہے۔‘

ناشدہ کی مشکلات اب قدرے کم ہو گئی ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اب گاؤں میں سیلابی پانی کے لیے گزر گاہیں بن گئی ہے جس کی وجہ سے اب گاؤں والوں کا خوف بھی کم ہو گیا ہے۔

اور یہ صرف ان کے گاؤں میں ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ کے کچھ علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ’آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹاٹ‘ کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

یہ طریقہ بہت ہی منفرد ہے کیونکہ ان ہی اقدامات کی وجہ سے اس ادارے کو سنہ 2020 میں ورلڈ ہیبیٹاٹ ادارے کی طرف سے پوری دنیا میں اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے گولڈ ایوارڈ بھی ملا ہے۔

وحید انور نے، جو ایک جیالوجسٹ ہیں اور آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹاٹ کے ساتھ کافی عرصے سے منسلک ہیں، اس ایوارڈ کے بارے میں بتایا کہ ’ہمیں گولڈ پرائز اس لیے ملا کیونکہ جس طرح کا منفرد کام ہم کر رہے ہیں وہ ترقی پذیر ممالک میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔‘

پہاڑوں میں گھرا شیر قلعہ گاؤں

پہاڑوں میں گھری وادی شیر قلعہ

اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کام کو بین الاقوامی طور پر پذیرائی ملی کیونکہ اس طریقے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ علاقائی مدد اور معلومات کے ذریعے قدرتی آفات سے نمٹنے کا حل ڈھونڈا جاتا ہے، جس میں ڈرون ٹیکنالوجی سے لے کر کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے تھری ڈی نقشے تک بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس علاقے کے ہر اک ذرے سے انھیں آگاہی ملتی ہے اور ایسے علاقے اور بلند و بالا پہاڑ جہاں پر عام لوگوں کا جانا ممکن نہ ہو تو وہاں ڈرون کی مدد سے اس کی فلمنگ اور تصاویر لے کر اور بعد میں تھری ڈی امیج بنا کر اور اس علاقے کے اس حساب سے اس کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔

وحید گلگت بلتستان کے ہر علاقے میں اس مقصد کے لیے گھوم چکے ہیں اور ان کا کام یہ ہے کہ وہ ہر علاقے میں جا کر وہاں کی ڈرون ویڈیوز اور تصاویر بنائیں اور علاقے والوں کی مدد سے مختلف علاقوں کی نشاندہی کریں۔

انھوں نے اس کام کی انفرادیت کے بارے میں مزید بتایا کہ ’ہم نے ہر علاقے میں لوگوں کی تربیت کی ہے کہ جس طرح ان کے آباؤ اجداد انھیں بتاتے تھے کہ کہاں کہاں سیلاب یا لینڈ سلائیڈ ہوتی تھی یا کون کون سے موسم میں بارشیں ہوتی تھیں، یا پہاڑ کے کن علاقوں سے سیلابی ریلا آتا تھا، ہم ان سے وہی معلومات لے کر اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کام کی پیشن گوئی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔‘

شیر قلعہ میں تباہ شدہ ایک گھر

شیر قلعہ میں سیلاب سے تباہ ہونے والا ایک گھر

اس طرح وحید کو معلومات ملتی ہے کہ کن کن علاقوں کو کہاں سے خطرات ہیں۔ اور اس کام کو اور آسان کرنے کے لیے ڈرون کی مدد سے ان علاقوں کی تصاویر اور ویڈیوز سے ان کے ادارے کو ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک کارگر لائحہ عمل بنانے میں آسانی ہوتی ہیں۔

اس کام کے لیے آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹاٹ نے ہر گاؤں میں لوگوں کی تربیت بھی کی ہیں تا کہ علاقے والے خود مختار ہو جائے۔

وحید نے اپنے کام کو مزید آسان طریقے سے سمجھانے کے لیے بتایا کہ ’ہم نے مختلف علاقوں میں موسم کا حال جاننے کے لیے ایک طریقہ بنایا ہے جس کی مدد سے گاؤں والے خود ہی مختلف اوقات میں موسم کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور گلگت میں موجود دفتر والوں کے ساتھ یہ تمام ڈیٹا شیئر کرتے ہیں۔‘

وحید انور

وحید انور شیر قلعہ گاؤں میں اپنا ڈرون اڑانے کی تیاری کر رہے ہیں

محمد نواز کی ٹریننگ بھی کچھ عرصے پہلے ہوئی تھی اور اب وہ اپنے گاؤں میں ہی موسم کی تبدیلی کا جائزہ لیتے ہیں اور وہ تمام ڈیٹا گلگت بھیجتے ہیں جس پر مزید کام ہوتا ہے۔ ان کی چھت پر بارش اور برف کی مقدار کو ناپنے کے لیے ایک نظام بنا ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ بھی ٹریننگ دی گئی ہے کہ کس طرح ہوا کی رفتار اور سمت کا جائزہ لیا جائے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں یہ تمام معلومات گلگت بھیجتا ہوں جس کے بعد وہ لوگ جائزہ لے کر الرٹ جاری کرتے ہیں۔‘

محمد نواز کے ساتھ ان کے گاؤں میں سفر کرنے کے دوران انھوں نے بتایا کہ ’اس سال بھی زیادہ سیلاب آیا لیکن کیونکہ ان علاقوں کی نشاندہی پہلے ہی کی گئی تھی اور ان سے بچنے کے لیے سیلابی ریلے کے بہاؤ کے لیے دیواریں بھی بنائی گئی تھی تو تقریباً 70 گھر اس بار محفوظ رہے۔‘

وحید انور جنھوں نے خود اس علاقے میں اس حوالے سے منصوبہ بندی کی تھی بتاتے ہیں ’کہ جب ہم سیٹلائٹ امیج کی مدد سے کسی علاقے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں تین میٹر تک کی بنی ہوئی چیزیں نظر آتی ہے  اور اس سے چھوٹی چیزیں نظر نہیں آتیں جبکہ ڈرون کی مدد سے ہمیں سینٹی میٹر سائز کی چیزیں تک نظر آتی ہیں جس سے ہمیں ہر علاقے کو سمجھنے اور اسی حساب سے منصوبہ بندی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔‘

ویدر مانیٹرنگ پوسٹ

موسم کی پیش گوئی کرنے والا نظام

گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں نہ صرف تکنیکی بنیادوں پر لوگوں کی تربیت ہوتی ہے بلکہ ہر گاؤں میں ٹیمیں بھی بنائی گئی ہے جن کی تربیت کی گئی ہے کہ وہ مختلف مواقع پر فرسٹ ایڈ کیسے دیں، یا پھر قدرتی آفات آنے سے پہلے کس طرح لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے اور اس دوران اور اس کے بعد بھی کس طرح باہر سے مدد آنے سے پہلے اپنی مدد آپ کے تحت ہی جتنا ممکن ہو سکے نقصان کو کم سے کم کیا جائے۔

شیر قلعہ میں ہی موجود جمال خان نے، جو کہ ایک رضا کار ہیں، بتایا کہ اس بار بھی انھیں پہلے سے وارننگ مل چکی تھی تو انھوں نے پورے گاؤں والوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا۔

جمال خان ایک ایسی جگہ پر کھڑے تھے جو سڑک سے اندازاً 12 فٹ اونچی تھی اور انھوں نے زمین کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ’ہم اس وقت ان گھروں کے اوپر موجود ہیں جن کا نام و نشان اس سیلاب کے بعد مٹ گیا۔ جتنا سیلابی پانی اس سال ہمارے گاؤں میں داخل ہوا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

لیکن انھوں نے بتایا کہ باوجود اس کے پھر بھی زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ سارے گاؤں والوں کو پہلے خبر مل گئی تھی لیکن پھر بھی سات لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

تھری ڈی

وحید انور جو ان تمام علاقوں میں سروے کرنے کی غرض سے آتے رہتے ہیں بتاتے ہیں کہ ’اب ہمارے لیے بھی خطرات کم ہو گئے ہیں کیونکہ ڈرون کی مدد سے ہمیں ان علاقوں یا پہاڑ کی اونچائیوں تک رسائی ہوتی ہیں جہاں ہم عام طور پر جا نہیں سکتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اب تک ہم 750 سے زیادہ علاقوں میں یہ طریقہ اپنا چکے ہیں اور پاکستان میں جس طرح کے آج کل کے حالات ہیں اس طریقے کی مدد سے پاکستان بھر میں یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے اور میدانی علاقوں میں وہاں کے حساب سے قدرتی آفات سے نمٹنے کا حل ڈھونڈا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک بہت بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments