جب دوسری عالمی جنگ میں امریکی فوجیوں نے ہماری آؤ بھگت کی


” پتہ ہے اس دن ہم نے بہت کچھ پہلی بار دیکھا۔ جاپانی جنگی ہوائی جہازوں سے بم گرتے دیکھے۔ امریکہ کا نام پہلی مرتبہ سنا۔ امریکن فوجیوں کو پہلی مرتبہ دیکھا، ملاقات ہوئی، فوجی ہمارے ساتھ گیند سے کھیلے، ان کی دعوت کا لطف اٹھایا، لذیذ کیک سے تواضع ہوئی۔ پہلی مرتبہ بند کین سے نکلے اورنج جوس کو پینے کا مزا لیا، چیز اور چپس چکھے“ بڑے بھائی کو شکاگو میں اپنے گھر جنگ عظیم دوم پر کوئی فلم دیکھتے یا کلکتہ کا ذکر آتے ہی بچپن کا ایک یادگار دن ذہن پہ چھا چکا تھا اور وہ فوراً ویڈیو لنک پہ مجھے بتا رہے تھے۔

انیس سو چوالیس کا اواخر اور دوسری جنگ عظیم کا جوبن تھا۔ جاپان کی بمباری کی دھاک ہر سو تھی۔ ہم والد صاحب کے پاس کلکتہ گئے ہوئے تھے جہاں وہ تیار چمڑے اور کھالوں کا بزنس کرتے تھے۔ چھٹی کے روز والد صاحب ہم تینوں بھائیوں کو ساتھ لے دریائے ہوڑہ کے کنارے تاریخی کمپنی باغ کی سیر کروانے لے جا رہے تھے۔ ٹرام ہوڑہ دریا کے کشتی گھاٹ کی طرف جا رہی تھی۔ اچانک خطرے کے سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ ٹرام فور روک دی گئی اور تمام مسافروں کو ہدایت ہوئی کہ فوراً سڑک کے درمیان الٹے، منہ زمین کی طرف کر کے فاصلہ رکھتے کانوں میں انگلیاں دے کر لیٹ جائیں تا کہ گرتی عمارتوں کے ملبہ سے محفوظ رہیں۔ اچانک بمبار طیاروں کی گھن گرج آنا شروع ہوئی۔ ہم سر اٹھا دیکھ رہے تھے۔ نیچی پرواز کرتے جہازوں سے بموں کی قطار گر رہی تھی اور زور دار دھماکوں کے بعد عمارات لرزتی اور اور دھواں نکلتا دکھائی دے رہا تھا۔ چند منٹ بعد آوازیں بند ہوئیں۔ خطرہ ٹل جانے کا سائرن ہونے تک لیٹنا پڑا۔

کشتی گھاٹ سے فیری پر سوار ہو ہم کمپنی باغ پہنچ چکے تھے۔ اصل نام تو کچھ اور تھا مگر ہمارے گھرانوں میں کمپنی باغ ہی پکارا جاتا (آج کل اس بہت وسیع باغ کا نام، اچاریہ جگدیش چندرا بوس بوٹانیکل گارڈن ہے اور دنیا کے سب سے زیادہ پھیلاؤ والے اور قدیم ترین میں سے ایک بڑ یعنی برگد کے درخت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ اکیلا درخت اس وقت ساڑھے تین ایکڑ سے زائد رقبہ پہ محیط ہے کہ درخت سے لٹکتی مخصوص ٹہنی نما جڑیں زمین میں دھنستے نیا درخت بن اگ آتی ہیں۔ اڑھائی تین سو سے لے ہزار سال تک کی عمر بیان کی جاتی ہے)

والد صاحب ہمیں لے ایک چھوٹی سی خوبصورت جھیل کے اوپر بنے پل پہ کھڑے تھے۔ نزدیکی سٹال سے خریدی گئی مچھلیوں کے لئے مخصوص خوراک کے دانے ہم نیچے پھینکتے اور رنگ برنگی انتہائی خوبصورت مچھلیاں اونچا اچھلتے رستے میں ہی اچک لیتیں اور شاید ہی کوئی دانہ پانی تک پہنچ پاتا۔ اچانک دور سے فوجی لباس میں دو گورے لمبے شخص ہمیں دیکھ مڑ کر ہماری طرف بڑھتے نظر آئے۔ پاس آ کر دلچسپی سے ہم بچوں کو مچھلیوں سے کھیلتے دیکھنے لگے۔ والد صاحب سے مصافحہ کرتے انگریزی میں بتایا کہ وہ امریکی فوج کے سپاہی ہیں اور باغ کے بالکل ساتھ ان کا کیمپ ہے۔ ہم تو سوائے اردو پنجابی نہ انگریزی سمجھتے اور نہ بول سکتے تھے۔ مگر والد صاحب اسلامیہ سکول چنیوٹ کے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کے مڈل پاس اور اب کلکتہ رہتے خاصی گفتگو کر لیتے۔ ہم نے اس دن امریکہ کا نام بھی پہلی مرتبہ سنا۔ وہ ہم سے بھی والد صاحب کی وساطت سے گپیں مار رہے تھے۔ ایک نے اپنے ہاتھ میں پکڑے بڑا سا گیند دکھاتے درخواست کی کہ وہ بچوں کے ساتھ گیند سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ سو اگلے دو گھنٹے ہم سب بچوں کے ساتھ مختلف قسم کے کھیل کھیلے۔ ہمارے ساتھ دوڑتے بھاگتے ان کی خوشی دیدنی تھی۔ ہم تھک گئے تو والد صاحب سے اصرار کر سب کو اپنے کیمپ لے گئے۔ امریکن فوجیوں کے جنگی کیمپ کی عمارت سے لے کر ہاتھ دھونے کے لئے غسل خانہ جاتے نظر آتی ہر چیز ہمارے لئے نئی اور دلچسپی کا باعث تھی اور وہ دونوں جوان انتہائی شفقت سے ہماری رہنمائی ہاتھ کے اشاروں سے کر رہے تھی۔ لذیذ کیک سے تواضع کے ساتھ بند ڈبہ کاٹ کر اندر سے نکلتا اورنج جوس بھی پہلی مرتبہ پیا تھا اور چیز اور چپس سے بھی تعارف پہلی مرتبہ تھا۔ اور جب ڈھلتے سورج کے وقت ہم ان کے کیمپ سے نکلنے کے وقت ان سے بغل گیر ہو رہے تھے تو ہم تو اس نئے منفرد تجربہ اور حیران کن موقع ملنے پہ ایکسائیٹڈ تھے ہی، ان کے چہرے مسرت سے چمک رہے تھے اور آنکھیں نم تھیں۔ شاید اپنے گھروں سے نہ جانے کب کے نکلے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور آ بیٹھے ہوئے ان فوجیوں نے ان اجنبی علاقوں کے زبان تک نہ سمجھنے والے بچوں سے مل ان کی تنہائی کا احساس جاتا رہا تھا۔

یہ کہانی سناتے ساٹھ سال سے امریکہ ہی میں آ بسے میرے بڑے بھائی کے چہرے پر وہ چمک تھی جیسے وہ اپنی جائے پیدائش کلکتہ پھر پہنچ کر ان ہی فوجی جوانوں کے ساتھ گیند اچھالتے کھیل رہے ہوں۔ ان کے ہاتھ سے بند ٹین والے ڈبہ کے ڈھکنے کو کٹتا اور اس میں سے لذیذ اورنج جوس نکلتا حیرانی سے دیکھ رہے ہوں اور وقت وداع ان سے بغل گیر ہوتے ان کی خوشی میں ڈوبے ہوں۔ کہ کئی دہائیاں وہ بھی وطن سے دور اپنے عزیزوں سے دور شکاگو میں گزار چکے۔

میری عمر اس وقت صرف چار سال کے لگ بھگ تھی، شفیق بھائی اپنی سات سال کی عمر کی یادداشت سنا رہے تھے، سب سے بڑے رفیق مرحوم دس برس کے ہوں گے۔ اس لئے مجھے تو کچھ یاد نہیں مگر کلکتہ کے آخری چکر میں والدہ کے ساتھ ہم سب بہن بھائیوں کا وہاں دن گزارنا یاد ہے ہوڑہ دریا کی بپھرتی طوفانی لہروں کو چیرتی کمپنی باغ کو جاتی فیری اور اسی بڑ کے درخت کے قریب چادر پھیلا پڑاؤ اور اچانک موسلادھار دھار بارش شروع ہوتے اسی قدیم اور مقدس خیال کیے جانے والے بڑ کے عظیم درخت کے نیچے پناہ لینا اکثر یادوں کے دریچے کھول سامنے آ جاتا ہے۔ پچھلی صدی کے وسط میں کسی وبا سے اس بوڑھی یاد گار کے اصل تنے کو کیڑا لگ گیا تو اسے کاٹنا پڑ گیا۔ اس کا قطر اس وقت صرف اکاون فٹ تھا۔ تاہم دور سے بالکل جنگل محسوس ہوتے اس اکیلے درخت نے اپنا اصل تنا کھو دینے کے باوجود اپنا وجود قائم رکھا ہے۔

ہم نے بعد میں سیالکوٹ کے کانگلے پارک کو بھی کمپنی باغ ہی کہا، فیصل آباد میں بھی کمپنی باغ ہی کہہ بچوں کو ( اب شاید جناح پارک ) کی سیر کراتے رہے، ملتان کے تزئین سے قبل کے قلعۂ کہنہ کہلاتے علاقہ کے سر سبز پلاٹوں پر بھی کمپنی باغ کہتے پک نک منائی ہے، کہ اب قاسم باغ ہو چکا۔ ہاں لاہور کے لارنس گارڈن کو اسی نام سے پکارا اور نیا نام زبان پر عادی نہ ہو سکا۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں فیصل آباد پیپلز کالونی میں سلیمی چوک کے قریب کھڑے اپنے سر کے اوپر ڈاگ فائٹ کرتے لڑاکا طیاروں سے گولیاں نکلتے دو انڈین جہازوں سے دھواں نکلتے دور جاتے نیچے گرنے کا نظارہ کیا۔ مگر اپنے انتہائی بچپن کے زمانے کے کلکتہ کے کمپنی باغ جاتے جاپانی طیاروں کی بمباری کے مناظر۔ امریکن فوجیوں کی وطن سے دور اداسی دور کرتے ہمیں وداع کرتے اندرونی خوشی سے نمناک آنکھوں کا تصور اب شاید زیادہ دلچسپ ہو چکا کہ وہ ایک ہمارے لئے نئی نئی چیزیں دیکھنے اور اداس اجنبی دوستوں کی شفقت والا دن یادگار ہو چکا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments