55 سالہ پیپلز پارٹی کی بزرگی؟


سیاست پر بھلے ہی بہار اور خزاں کے موسم آتے جاتے رہیں تاہم پارٹیوں کو نظریہ ضرورت سے اجتناب اور اور پارٹی نظریہ سے جڑے رہنا چاہیے۔ نظریہ کبھی شب بھر میں نہیں بنتا، یہ فراست، ریاضت اور مزاحمت کی چکی میں پس کر، ریاست کی نزاکتوں اور انسانی حقوق کی صداقتوں کو مدنظر رکھ کر جہاں قوم کی فلاح اور وفا کا بیڑا اٹھایا جاتا ہے وہاں سے نظریہ کی ابتدا جنم لیتی ہے!

اگر کسی ریاست کے نصیب میں ایک سے زیادہ حقیقی نظریوں کا بسیرا ہو تو وہاں بحث و تمحیص کے دریچوں سے خوشبو اور ہوا کی آمد کا تسلسل رہتا ہے۔ گر نظریہ کے نام پر کہیں ”جتھا بندی“ اور پریشر گروپ سر اٹھانے کے نشہ میں رہتے ہوں تو یہ بگاڑ کشید اور مسائل شدید کرنے والے جنونی لوگ ہوں گے، جو نظریہ والوں کو بخشنے کے موڈ میں کبھی نہیں ملتے! ملکی یا قومی سیاست وہ کتاب ہے جس کا ہر باب خیر سے شروع ہوتا، بناؤ پر بحث کرتا ہے، ارتقاء کے سنگ چلتا ہوا حقوق انسانی کی بات معیار اور اقدار کی بنیاد پر کرتا ہے۔ جتھا بندی ریاستی بزم سے کنی کترا کر چند لوگوں کی منشا اور مفادات کے حصول کی حفاظت اور لڑائی کے سوا کچھ بھی نہیں!

پیپلز پارٹی کی آج کی بزرگی کو اپنے رگ و پے میں اپنی ابتدا کا وہ خمیر تلاش کرنا ہو گا جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام اور اسلامی سوشلزم کی روح پھونکی گئی تھی۔ جس کے ریشوں کی دھڑکن میں اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہماری معیشت کا سبق موجود تھا۔ چلئے معمولی رد و بدل، عالمی اثرات اور ارتقائی مراحل نے انیس بیس کا فرق ڈال بھی دیا تو کیا ارادوں، وعدوں، معاہدوں اور چاہتوں کی عوامی تمناؤں اور لیڈر شپ کے درمیان رشتے کا وقار اور معیار اب بھی ہے؟ جو یہ کہتے ہیں کہ کتابی باتیں پریکٹس میں نہیں آتیں انہیں دو باتیں بتانے کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے : پہلی بات یہ کہ تھیوری پریکٹس ہی میں آ کر پیرا ڈائم شفٹ دیتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ باتیں معاشرے ہی سے سن اور چن کر کتابوں میں قلم بند ہوتی ہیں۔

یہاں تک تو یہ بات درست ہے پیپلز پارٹی آج کے موسموں کی شدت میں بھی آئینی پرچار، سیاسی وقار اور جمہوری افتخار کی علامت ہونے کے سبب اکیڈمک پولیٹیکل سائنس ہے۔ گو موسموں کے تغیر میں سیاسی کلائمیٹ چینج ایک بڑا چیلنج ہیں مگر باوجود اس کے جمہوریت کو کسی نئی نصاب سازی کی نہیں امتحانی سامنے کی ضرورت ہے جو پیپلز پارٹی کر سکتی ہے، 30 نومبر 1967 سے پیپلز پارٹی نشیب و فراز سے گزرتی اور قربانیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے وراثت سے میراث تک کا سفر طے کر کی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو ن سب زیادہ ”عوام“ کا لفظ استعمال کیا، اور جمع میں کیا ”میرے عوام۔ پاکستان کے عوام“ ، 73 کا آئین، محمود و ایاز کو ووٹ کا حق، استحکام پاکستان کی بنیاد جوہری توانائی کی بنیاد پیپلز پارٹی اور بھٹو کے برین چائلڈ تھے، مزارعے اور مزدور کا خیال، کاشتکار کی سہولت کا خیال پیپلز پارٹی کی اولین کا حصہ تھا، اور ہونا بھی چاہیے، یونیورسٹیوں کے قیام اور اس میں بھی یورپ سے پہلی دفعہ ایشیا میں اوپن یونیورسٹی کا متعارف کرانا، اسٹیل ملز کا کامیاب تجربہ بھٹو کی سوچ کے مظہر ہیں۔

آگے جاکر میثاق جمہوریت، میزائل سازی، بینظیر انکم اسپورٹ سے بین الاقوامی مستند پروگراموں کا آغاز، پھر 18 ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، سی پیک کی ابتدائی آبیاری، گوادر فہمی جیسے پیراڈائم شفٹ پیپلز پارٹی کی سیاسی بصیرت کا ثبوت ہیں۔ پیپلز پارٹی کو جزوی یا مکمل پارلیمانی و حکومتی زمام جب بھی ملی یہ اصلاحات و ترقیات کی شاہراہ پر گامزن ضرور رہے عنان اقتدار تھام کر اچھے برے تجربات کرتے رہے محض مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے اور دشنام طرازی ہی پر سارا وقت ضائع کیا۔

اس کے مقابلہ کے لوگ تخت پر بیٹھ کر لوگوں کے لئے تختہ ہی تیار کرتے رہے جو اقوام کو ترقی کے ہموار راستے کبھی نہیں دیتا، عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ تحریک انصاف کی عاقبت نا اندیشی جیسی مثالیں، کہ صدارتی نظام کے شوشے چھوڑیں جائیں یا مخالفین کی بیخ کنی میں حد سے گزر جائیں جیسے معاملات کو ہوا دینے کے رویوں نے معیشت اور معاشرت کو بہت گزند پہنچائی جو ملک و ملت کے لئے ایک امتحان بن چکا۔ آج ساری سیاست ”شخصیت زدہ“ ہے۔

کہہ بھی لیجیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت بھی تو کرشماتی جلوہ رکھتی، مگر، ٹیم میں ڈاکٹر مبشر حسن، اے رحیم، شیخ رشید، معراج محمد خان، ہیر طالب المولیٰ حفیظ پیرزادہ، یحییٰ بختیار، ممتاز راٹھور، امین فہیم جیسے متعدد صائب الرائے کل بھی تھے اور رضا ربانی، فرحت اللہ بابر، فاروق نائیک، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر قمر زمان کائرہ، سعید غنی وغیرہ سے آج بھی ہیں۔ بھٹو کے بعد محترمہ اور پھر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو ہر دور نے ایک مکرم اور فہیم ٹیم دی۔

راؤ رشید، سردار ابراہیم، مولانا کوثر نیازی، آفتاب شیرپاؤ، اکبر لاسی، شیر افگن نیازی وغیرہ جو اختلافات، مترادفات اور اتفاقات کی ملی جلی تاریخ پیپلز پارٹی سے رکھتے مگر فراست اور ریاضت کی علامت تھے، چھچھورا پن نہ تھا۔ الیکٹیبل اور سلیکٹ ایبل سے ایک بڑی چیز جسے ہم فراموش کرتے جار رہے ہیں وہ قیادت میں سیاسی مکتب ہے جس کا قحط اب قحط الرجال کی صورت گری سامنے لا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے ماضی اور حال کا موازنہ بطور خاص اس یوم تاسیس پر کرنا ہو گا۔

ضروری ہے بلاول بھٹو اسٹیٹس مین کے موجودہ قد کاٹھ کو مزید بہتر کریں، زرداری سے پاکستان کھپے کی مزید مثالیں عملی جامہ میں چاہئیں جو وقت کی ضرورت ہے۔ وہ دن تاریخ میں کندہ ہیں جب زرداری نواز شریف کو 2008 میں بائیکاٹ ترک کر کے پارلیمانی اہمیت کی جانب لائے، یہاں سیاسی مخالفت نہیں جمہوری فکر کو تقویت بخشی، ایسی مثالیں آب زر سے لکھنے والی ہیں، کہ پھر شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب اور بعد ازاں 2013 میں تیسری بار وزیراعظم بنے۔

سیاست نام ہی فراست، ریاضت اور عجز کا ہے اور یہ تینوں اجزا جمہوریت کو بند گلی سے نکال لاتے ہیں، یہ تین اجزا جمہوریت کے دریچے بند نہیں ہونے دیتے، موازنہ کریں تو یہی تین اجزاء پیپلز پارٹی کے حواس سیاست ہیں جو پیپلز پارٹی کو آج کے گرتے اور بگڑتے معیار میں بھی ممتاز رکھتے ہیں۔ جدید ”مقتدرکش“ مکالمے سے بھاگتے ہیں جو جمہوری گلشن سے بھاگ کر آمریت کے در پر جانے کے مترادف ہے۔ اس یوم تاسیس پر بلاول بھٹو زرداری کو پھر سے سبق یاد کرنا اور یاد رکھنا ہو گا کہ، جمہوریت کے خیال سے غافل حکمران تو بن سکتا ہے مگر لیڈر نہیں! بلاشبہ جمہوریت ازخود ایک معجزہ ہیں جس سے انسانی حقوق کی آبیاری کے چھوٹے بڑے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں!

پیپلز پارٹی ہی کو آج میثاق معیشت کا فارمولا سیاسی ایکو سسٹم میں لانا ہو گا کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ تجدید وفا اور تجدید عہد کا تقاضا ہے 55 سالہ پیپلز پارٹی سیاسی بڑھاپے سے پاؤں کھینچ کر سیاسی بزرگی میں قدم رکھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments