چین میں ملک گیر مظاہرے صدر شی جن پنگ کے لیے چیلنج کیوں بن گئے ہیں؟


چین
چین کی صفر کووڈ پالیسی سے تنگ آکر ملک میں حالیہ دنوں میں مظاہروں کا ایک غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا ہے۔

چین کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں نے صدر شی جن پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مظاہروں اور بے اطمینانی کی یہ لہر ایک ایسے ملک میں بہت ہی غیر معمولی ہے جہاں سینسر شپ اور پولیس کے جبر سے اختلاف کی علامتیں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔

احتجاج کیسے شروع ہوا؟

بہت سے چینی شہریوں کا حکومتی پالیسی پر غصہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اگرچہ یہ حالیہ ہفتوں میں ہوا ہے جب ملک کے کئی اہم شہروں میں عوام میں حکومت مخالف بے چینی بڑھنا شروع ہوئی۔

گذشتہ ہفتے ژینگ زو شہر میں دنیا کی سب سے بڑی آئی فون فیکٹری میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوشل نیٹ میڈیا پر براہ راست نشر ہونے والی تصاویر میں دکھایا گیا کہ کس طرح حفاظتی لباس میں ملبوس پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے دبایا تھا۔

فیکٹری کو اکتوبر میں کووڈ کیسز میں اضافے کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کچھ ملازمین وہاں سے نکل گئے تھے۔ پھر فوکسکون کمپنی نے بہتر سہولیات کے وعدے پر چند نئے ملازمین رکھ لیے تھے۔

 لیکن بعدازاں ان ملازمین نے اس بات کی مذمت کی کہ طے شدہ شرائط کے مطابق وعدے پورے نہیں کیے گئے اور اس پر ملک بھر میں کووڈ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کئے گئے سخت اقدامات نے اس غصے کو مزید ہوا دی۔

ایسے میں گذشتہ ہفتے 24 نومبر کو چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں ایک عمارت کے اپارٹمنٹ میں آگ لگنے سے دس افراد کی موت کے واقعے نے چین کے شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا۔

 

چین

سنکیانگ میں اگست سے کووڈ  کی روک تھام کے لیے سخت پابندیاں نافذ ہیں، اگرچہ حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جلی ہوئی عمارت کے مکین اپنے گھر چھوڑنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کووڈ کے خلاف عائد کی گئی سخت پابندیوں نے اس سانحے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

آگ کے اس واقعے نے ان مظاہروں کے لیے ایک محرک کا کام کیا ہے جو اس ہفتے کے آخر میں بیجنگ یا شنگھائی جیسے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔

گذشتہ کئی ماہ کے دوران بہت سے واقعات میں گھروں تک محدود رہنے کی پابندیوں کے باعث ہونے والی اموات کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہو رہا تھا جو کہ چینی حکام کی جانب سے سخت سنسرشپ کے باوجود ملک کے سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور ویڈیوز کی صورت میں سامنے آ رہا تھا۔

اس ماہ کے شروع میں ژینگزو کے ایک خاندان نے دعویٰ کیا کہ ان کے بچے کی موت اس لیے ہوئی تھی کیونکہ ایمبولینس جو اسے ہسپتال لے جانے والی تھی، کووِڈ پابندیوں کی وجہ سے تاخیر سے پہنچی تھی۔ ایک اور 14 سالہ لڑکی جس کو قرنطینہ کیا گیا تھا اکتوبر میں انتقال کر گئی کیونکہ وہ علاج کے لیے اپنے گھر سے باہر نہیں جا سکی تھی۔

ستمبر میں، جب چینگڈو کے علاقے میں 6.6 شدت کا زلزلہ آیا تو وہاں کے رہائشیوں کو گھروں سے نکلنے سے منع کر دیا گیا۔ اس واقعے میں 65 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سمتبر میں ہی چینی شہر گائژو میں شہریوں کو قرنطینہ سینٹر لے جانے والی ایک بس حادثے کا شکار ہو گئی، جس میں 27 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ان سب واقعات کے ساتھ ساتھ شہریوں کے غم و غصے کی وجہ یہ بھی ہے کہ چین آج بھی کووڈ پابندیوں کے حوالے سے سنہ 2020 میں پھنسا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کووڈ وبا کے دوران لگائی گئی پابندیاں اب اٹھا لی گئی ہیں۔

اور یہ فٹبال ورلڈ کپ کے میچوں کی نشریات کے ساتھ مزید واضح ہو گیا ہے، جس میں قطر کے سٹیڈیم اور سٹینڈز میں بڑے ہجوم کو بغیر ماسک یا کووڈ کی حفاظتی اقدامات کے دیکھا جا سکتا ہے۔

چین میں فی الحال بڑے پیمانے پر کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے اور چند سخت پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے۔ پھر بھی مرکزی حکومت نے مقامی حکام سے کہا ہے کہ وہ ان جگہوں پر سخت لاک ڈاؤن نافذ کریں جہاں کووڈ کیسز سامنے آئے ہیں، چاہے صرف چند کیسز ہی پائے گئے ہوں۔

اس کیسز کے سامنے آنے پر پوری آبادی کے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کیے گئے۔ جن لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آیا انھیں گھر میں بند یا ریاست کی قرنطینہ سہولیات میں رکھا گیا۔ کھانے پینے کی دکانوں کے علاوہ تمام سکول اور کاروبار بند رکھے گئے۔

ان پابندیوں کے باوجود وبا کے آغاز کے بعد سے اب تک ملک میں کووڈ کی سب سے بڑی لہر کو نہیں روکا جا سکا ہے۔

چین

اس وقت کیا ہو رہا ہے؟

اگرچہ گذشتہ برسوں کے دوران مختلف وجوہات کی بنا پر چین میں کبھی کبھار مظاہرے ہوتے رہے ہیں، زمینی تنازعات سے لے کر پولیس کے ساتھ بدسلوکی کے مخصوص واقعات تک، چین میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے، جہاں کچھ مظاہرین نے چینی قیادت صدر شی جن پنگ پر کھل کر تنقید کرنے کی جرات کی ہے یہ بے مثال ہے۔

چین کی عوام کی مشکلات کووڈ کے پھیلاؤ کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے بڑھی ہیں اور جن کے بارے میں فی الحال کوئی واضح وقت نہیں دیا گیا ہے کہ وہ کب ختم ہوں گی۔  کووڈ کے خلاف سخت پابندیاں ایک ایسا تجربہ بن گیا ہے جس نے بہت سے شہریوں کو متحد کیا ہے اور ملک کے چاروں کونوں تک مظاہروں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بی بی سی ایشیا کی نامہ نگار ٹیسا وونگ کہتی ہیں کہ یہ مظاہرے چینی صدر شی جن پنگ کے لیے ایک ’بے مثال چیلنج‘ ہیں، اور وہ ان مظاہروں کا کیسے جواب دیں گے اس متعلق بڑی توقعات کی جا رہی ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں صدر یا کمیونسٹ پارٹی پر تنقید کی قیمت جیل ہو سکتی ہے، شنگھائی کی سڑکوں پر صدر شی جن پنگ یا اس ملک پر سنہ 1949 سے حکومت کرنے والی پارٹی کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہزاروں افراد ارمچی آتشزدگی کے متاثرین کو یاد کرنے اور کووڈ کی پابندیوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے شنگھائی کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

اتوار کو یہ مظاہرے ختم ہونے کی بجائے دارالحکومت بیجنگ میں بھی شروع ہوئے جہاں سینکڑوں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے قومی ترانہ گایا اور حکومت مخالف تقریریں کی تھی۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی کچھ تصاویر اور ویڈیوز کے مطابق اس سے قبل سنگھوا یونیورسٹی میں درجنوں افراد نے پرامن مارچ کیا اور قومی ترانہ بھی گایا۔

چین کے جنوبی مغربی شہروں چینگڈو، ژیان اور ووہان میں بھی احتجاج کیا گیا تھا۔ جہاں تقریباً تین سال قبل کووِڈ کی وبا شروع ہوئی تھی۔

 جہاں بہت سے مظاہرین نے محض ایک خالی صفحہ دکھا کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں وہ علامتی طور پر سب کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن حکام نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔

 ایسا لگتا ہے کہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے اس احتجاج کو حکومت نے پیر کو دبا دیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر عوام کا حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان اب بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین میں زیرو کووڈ: گوانگژو میں پرتشدد جھڑپیں، کورونا وائرس کے کنٹرول کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات متاثر

چین کی کمیونسٹ پارٹی کانگریس: صدر شی جن پنگ اپنے تیسرے پانچ سالہ دور میں کیسے داخل ہو رہے ہیں؟

کیا چین کی معیشت واقعی مشکلات کا شکار ہے؟

چینی حکومت کا ردعمل کیا ہے؟

چین

فی الوقت چینی حکومت سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کی لہر کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی، لیکن حکومت کی جانب سے مظاہروں پر ردعمل جابرانہ ہے۔

شنگھائی میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے میگالوپولس کے ایک اہم راستے پر نیلے رنگ کی بڑی رکاوٹیں بھی کھڑی کر دی ہیں، جہاں مظاہرین ہفتے کے آخر میں جمع ہوئے تھے۔

شنگھائی میں پولیس کی مداخلت کے دوران مظاہروں کی ریکارڈنگ کرنے والے متعدد غیر ملکی صحافیوں کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی گھنٹوں تک زیر حراست رکھا، جن میں بی بی سی کے رپورٹر ایڈ لارنس بھی شامل تھے۔

حکومتی سختیوں کے باوجود پولیس کا احتجاج کرنے والوں کے خلاف ردعمل اب تک نسبتاً روکا گیا ہے۔

تاہم، بعض تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ جن لوگوں نے صدر شی جن پنگ کی پالیسیوں پر عوامی سطح پر تنقید کرنے کی جرات کی ہے، انھیں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

چائنا ڈائیلاگ نامی تنظیم کی بانی ازابیل ہلٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ نہ بھولیں کہ (چینی کمیونسٹ) پارٹی کے پاس سب سے بڑا ڈیجیٹل ہتھیار ہے۔ یہ فون ایپس کے ذریعے آپ کی ہر حرکت کو دیکھتی ہے۔ اس لیے وہ لوگوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، ایک خاص وقت یا رات میں وہ کیا کہہ رہے ہیں، وہ کس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، وہ کہاں ہیں۔‘

چین، جہاں کوئی آزاد پریس نہیں ہے، ملک میں انٹرنیٹ کو بھی سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے، جہاں حکام پر تنقید پر پابندی ہے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

تاہم سنسر شپ کے باوجود، مظاہروں کی خبریں اور تصاویر ملک کے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں، جس سے احتجاج کو مزید ہوا ملی۔

 یہ سنسر شپ حتیٰ کہ فٹبال ورلڈ کپ کی تصاویر تک بھی بڑھ گئی ہے۔

بظاہر چین یہ دکھانے سے گریز کرتا ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں میں کووڈ کے خلاف پابندیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ اس لیے ان مقابلوں کو نشر کرنے والا چین کا سرکاری چینل سی سی ٹی وی ایسی تصاویر کو ہٹا دیتا ہے جن میں عوام کو قریب سے دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی جگہ ٹیموں کے بینچ یا کھلاڑیوں کی تصاویر نشر کرتا ہے۔

اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟

چین

ایسا لگتا ہے کہ چینی حکومت نے حالیہ مہینوں میں صفر کووڈ پالیسی کے حوالے سے بڑھتی ہوئی سماجی بے اطمینانی کا کافی حد تک کم اندازہ لگایا ہے۔

بی بی سی کے چین کے نامہ نگار اسٹیفن میکڈونل نے کہا کہ ’ایک سیاسی تنظیم کے لیے جس کے پاس اقتدار میں رہنے کے علاوہ بہت سی ترجیحات نہیں ہیں، یہ ایک حقیقی چیلنج ہے۔‘

بیجنگ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور فی الحال اس بات کا کوئی حتمی وقت نہیں دیا جا سکتا کہ پابندیوں میں نرمی کب کی جا سکتی ہے۔

باقی دنیا نے کووڈ ویکیسن کی تیاری کے وقت کے دوران لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے اقدامات کا استعمال کیا اور بعدازاں ممالک میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم چلائی گئی، جبکہ چین کا کووڈ کے پھیلاؤ کو قابو میں رکھنے کے لیے پابندیوں پر انحصار جاری ہے۔

اگرچہ ملک نے اپنی ویکسین خود تیار کی ہیں، لیکن یہ فائرز یا موڈرنا ویکیسن کی طرح موثر نہیں ہیں، جو ایم آر این اے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہں ، اور جسے چین نے درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جہاں فائزر یا موڈرنا ویکسین کی دو خوراکیں بیماری سے 90 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہیں وہیں چین کی تیار کردہ سائینویک ویکسین صرف 70 فیصد تحفظ دیتی ہے۔

وبا کے خلاف کم تحفظ میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ چین میں ویکسینیشن کی مہم دوسرے ممالک کی طرح وسیع نہیں ہے، اور بہت سے معمر افراد کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے گئے ہیں۔

طویل لاک ڈاؤن کا مطلب یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں میں وائرس کے خلاف قدرتی قوت مدافعت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کورونا وائرس کی نئی قسمیں وبا کے آغاز کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔

اور یہاں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ چین میں کووڈ سے ہونے والی اموات کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ وائرس کے نتیجے میں ملک میں سرکاری طور پر صرف 5,200 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

بی بی سی کے صحت اور سائنس کے نامہ نگار جیمز گیلاگھر کہتے ہیں کہ ’اگر چین کسی علاقے میں وائرس کے ابتدائی کیسز سامنے آتے ہی لاک ڈاؤن نہیں کرتا ہے، تو اسے وبا کے ابتدائی دنوں جیسی ہولناک صورتحال کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘

گذشتہ مارچ میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق، چین میں صفر کووڈ پالیسی کا خاتمہ ملک کے ہسپتالوں کو مریضوں سے بھر سکتا ہے اور 15 لاکھ سے زیادہ اموات ہو سکتی ہیں۔  

چین کی صفر کووڈ پالیسی کا معاشی اثر خود چین اور عالمی منڈیوں پر بھی پڑتا ہے، جس کا نقصان اس وقت ہوتا ہے جب دنیا کی فیکٹری لاک ڈاؤن کی وجہ سے رک جاتی ہے۔

بی بی سی کی ایشیا میں اقتصادی نامہ نگار سوریانا تیواری کے مطابق چین کو پہلے ہی بے روزگاری کے بحران کا سامنا تھا، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ لاک ڈاؤن کے خوف نے بہت سے خاندانوں اور کاروباروں کو مزید خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments