معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کی وجوہات


اوائل عمری میں کسی خیرخواہ نے پین کی حفاظت کا یہ گر سکھایا کہ اگر کوئی پین مانگے تو اس کو پین کا کیپ نکال کر پین دے دو، وہ چار و ناچار پین لوٹا کر ہی جائے گا۔ مگر ہمارا یہ فارمولا اس وقت ناکام ہو گیا جب بینک میں ایک انجان شخص نے ہم سے ہمارا نہایت پسندیدہ پین مانگا، ہم نے بھی بڑے اعتماد کے ساتھ پین کا کیپ نکال کر پین ان صاحب کے حوالے کر دیا، کچھ دیر ان پر نظر بھی رکھی پھر بینکر سے باتوں میں مشغول ہو گئے، کچھ دیر بعد اندازہ ہوا کہ جن صاحب نے پین مانگا تھا وہ اب برانچ میں موجود نہیں ہیں، بہت ادھر ادھر نگاہ دوڑائی نہ پین ملا نہ ہی بندہ، یہ واقعہ یاد آنے کی وجہ گزشتہ دنوں بینک میں کسی کام سے جانا ہوا تو پین لے جانا بھول گیا وہاں ٹیبل پر ایک پین ہولڈر لگا تھا جس میں ایک اسپائرل چین لگی ہوتی تھی جس سے ایک پین بندھا ہوا تھا۔

یہ دیکھ کر ہمیں وہ بیچارے بابجولاں گلاس یاد آ گئے جنہیں ان کی مرضی کے بنا کسی شوہر کی طرح کولر کے ساتھ باندھا گیا ہوتا ہے، ساتھ ساتھ ان پابند سلاسل گلاسوں پر کہا گیا وہ تاریخی جملہ بھی یاد آ گیا کہ جس ملک میں گلاس کو زنجیر کے ذریعے کولر کے ساتھ باندھا گیا ہو وہاں کے عوام کے اخلاقی معیار کا کیا حال ہو گا۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ طعنہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس زنجیر زدہ گلاس سے پانی پیتے ہیں تو یہ بالکل غلط مفروضہ ہے، بلکہ یہ طعنہ تو ان مہنگی گاڑیوں والوں اور خوش فکروں کے لئے بھی ہے جو اس زنجیر زدہ گلاس کے قریب سے گزرتے ہیں، جس طرح دیوار کی ہر اینٹ یہ سمجھتی ہے کہ دیوار اس کی وجہ سے قائم ہے مگر جب دیوار گرتی ہے تو وہ اینٹ جو خود کو بہت اہم سمجھ رہی تھی باقی اینٹوں کے ساتھ بکھر جاتی ہے، بالکل اسی طرح کا معاملہ ملت کا بھی، جیسے علامہ اقبال نے کہا کہ۔ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں، بالکل اسی طرح اخلاقی قدروں کو نظر انداز کرنے والا ہر شخص کبھی نہ کبھی ان حالات سے خود بھی دوچار ہو ہی جاتا ہے جن کی وجہ سے یہ گلاس کولر کے ساتھ زنجیر کیا گیا ہوتا ہے۔

یہ محض دیگ میں سے ایک چاول دیکھنے کے مترادف ہے، ہمارا پورا معاشرہ ایسی اخلاقی بیماریوں کا شکار ہے کہ جن پر ذرا غور کریں تو شرم سے نگاہیں اٹھانا دوبھر ہو جائے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کے سامنے یہ زنجیر زدہ گلاس بڑا اکڑ اکڑ کر اپنی چھب دکھلاتا ہے اور میزبان کو خوب شرمندہ کراتا ہے، کیوں کہ مہمان یہ ضرور جاننا چاہتا ہے کہ اس مظلوم گلاس کا جرم کیا ہے جو اسے کولر کے ساتھ زبردستی نتھی کیا گیا ہے، کیا یہ اس کا شوہر ہے مگر یہ تو اتنا چھوٹا سا ہے اور کولر حجم میں اس سے کئی گنا بڑا، تو میزبان بیچارہ بس منمنا کر اتنا ہی کہہ پاتا ہے کہ،

کہتے ہیں کہ کچھ پاکستانی بیرون ملک نماز کے لئے جب ایک مسجد میں جانے لگے تو اپنے جوتے اٹھا کر مسجد کے اندر لے جانے لگے، ان کے میزبان نے حیرت سے معلوم کیا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں، جوتے مسجد میں کیوں اٹھا کر لے جا رہے ہیں، پاکستانیوں نے بتایا کہ اس طرح ہم جوتے چوری ہونے سے بچا رہے ہیں، اگر ہم یہ نہ کریں تو جوتوں سے محروم کر دیے جاتے ہیں، میزبان حیرت سے بے ہوش ہونے والا تھا۔

ایسے اور بہت سارے سچے واقعات ہیں جو وقتاً فوقتاً ہماری سبکی اور شرمندگی کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے عمومی رویوں میں کوئی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ کرونا کی وبا کے دوران دنیا بھر میں لوگ کسی مناسب جگہ پر روزانہ ضرورت کی اشیاء رکھ کر کے چلے جاتے تھے اور ضرورت مند خاموشی سے صرف اتنا ہی اٹھاتے تھے جتنے کی ضرورت ہوتی تھی، جبکہ ہمارے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہمارے ہاں موجودہ سیلاب زدگان کی مدد کو جانے والے امدادی سامان کے ٹرک کے ٹرک لوٹ لئے، جو مدد کرنے آئے انہیں بھی لوٹ لیا، ساتھ ساتھ کرونا کے دنوں میں یہ بھی بارہا مشاہدے میں آیا کہ لوگ امدادی سامان جمع کر کے دکانوں پر بیچتے نظر آئے، یہ اخلاقی رویوں کا بہت بڑا تضاد ہے جو لوگوں کی کثیر تعداد نے مشاہدہ کیا، شادیوں میں کھانا کھلنے کا منظر یا سیاسی، سماجی اجتماعات میں کھانا کھلنے کا منظر کون فراموش کر سکتا ہے، مجھے یقین ہے اگر پرانے زمانے کے جنگجو سپاہی یہ منظر دیکھ لیں تو انگشت بدنداں رہ جائیں کہ اس طرح تو وہ مال غنیمت پر بھی نہیں ٹوٹتے تھے اور اس طرح تو وہ دشمن کی املاک کو نہیں لوٹتے تھے جس طرح لوگ رشتہ داروں، دوستوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے کھانے کے انتظام پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اس وقت ہنسی ٹھٹہ ہو جاتا ہے مگر کبھی اکیلے میں بیٹھ کر سوچیں تو بڑی شرم بلکہ کراہت آتی ہے، ان تمام رویوں پر دل بہت ملول و افسردہ ہوتا ہے۔

یہ سب کچھ کیا ہے اور کیوں ہو رہا ہے، یہ نفسیاتی نا آسودگی، اپنے ساتھ گزرے کسی حادثے کا بدلہ لینے کی دل میں خواہش تو نہیں، معاشرتی نا انصافی، سماجی و اخلاقی ابتری، بنیادی اخلاقی رویوں اور ذمہ داریوں سے ناواقفیت، خود پر لازم سماجی ذمہ داریوں سے آگاہی نہ ہونا، تمدنی شعور سے نا واقفیت کا بھی بڑا کردار ہے یہ تمام مندرجہ بالا عوامل بنیادی سماجی تربیت کا حصہ ہیں آپ نے ضرور محسوس کیا ہو گا کہ یہاں تعلیم کا تذکرہ نہیں کیا، دیکھا یہ گیا ہے کہ اوپر بیان کیے گئے رویے ہمارے ہاں بلا تفریق ہر طبقہ میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بداخلاقی بھی ذرا نفاست سے کرتے ہیں مگر چل سب ایک ہی ڈگر پر رہے ہیں

ہمیں اپنی ذات سے اور اپنے گھر سے اخلاقی تربیت کا کام شروع کرنا ہو گا، ہر ایک کو اخلاقی تربیت خود پر لازم کرنا ہوگی۔ اسے ایک مشن کے طور پر اپنی لازمی معاشرتی ذمہ داری سمجھ کر کرنا ہو گا، اور بہت صبر و تحمل کے ساتھ مستقل مزاجی سے کرنا ہو گا، کیوں کہ پرانی بیماریاں منٹوں میں ٹھیک نہیں ہو جاتیں۔ چیزوں کے درست ہونے میں ہمیشہ وقت لگتا ہے۔ مگر صبر سے کام لیا جائے تو تکمیل خوش آئند ہوتی ہے، یہ کام کوئی بھی اکیلے نہیں کر سکے گا سب کو مل کر کرنا ہو گا، قومی مشن سمجھ کر کرنا ہو گا تو نتائج بہت اچھے آنا شروع ہو جائیں گے، جس کا فائدہ ہم نہ صحیح ہماری آنے والی نسلیں ضرور اٹھا سکیں گی، بالکل اسی طرح جس طرح پھل دار درخت کے میوہ کا مزہ اگانے والا شاید ہی لے پاتا ہو مگر آنے والی نسلیں اس کا میوہ بھی کھاتی ہیں اور اس کی چھاؤں سے بھی تسکین حاصل کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments