بد عنوانی طبقاتی تقسیم کا باعث بنتی ہے


اس حقیقت کا ہم سب کو بہ خوبی علم ہے کہ وطن عزیز روز اول سے کئی مہلک مسائل سے دوچار ہے، جن میں سے ایک اہم مسئلہ بد عنوانی ہے جو روز بہ روز سیاسی بے چینی، معاشی عدم استحکام، سماجی بد نظمی اور سب سے بڑھ کر طبقاتی تقسیم کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ طبقاتی تقسیم کسی بھی ملک کے زوال اور تباہی میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔

بدعنوانی دراصل ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر فرد کو ریاست کی طرف سے تفویض شدہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اختیارات بدعنوان بناتا ہے اور لامحدود اختیارات لامحدود بدعنوان بناتا ہے۔ بدعنوانی سے مراد صرف مالی غبن، رشوت خوری اور زر فسادی نہیں، بل کہ اخلاقی بگاڑ، سیاسی دغا بازی، سماجی انانیت، عدالتی بد انصافی اور معیاری نظام تعلیم کی فقدانیت بھی بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہیں۔ بدعنوانی وہ واحد بیماری ہے جو ملی وحدت کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ بدعنوانی وہ تلوار ہے جو انسان اور انسان کے درمیان حد فاصل کھینچتی ہے اور بدعنوانی وہ پھٹکار ہے جس نے معاشرے کو امیر و غریب کے منحوس تصور سے آلودہ کر دیا ہے۔

ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد برابری، انصاف اور اتفاق پر ہوتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں تمام انسان برابر ہوتے ہیں اور ایک اسلامی معاشرے میں بدعنوانی اور طبقاتی تقسیم کا تصور تک وجود نہیں رکھتا، البتہ اس طرح کے تقسیم رخی تصورات ہمارے معاشرے کے اپنے پیدا کردہ اور پروردہ ہیں۔ جس کا ذمے دار معاشرے کا با حیثیت اور باثروت طبقہ ہوتا ہے۔ حالاں کہ اسلام میں رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔

مادیت پرستی میں مخمور سرمایہ دار طبقے نے بے پناہ دولت، شہرت اور اختیارات کے حصول کے لیے اسلامی تعلیمات اور ملکی قوانین کو پس پشت ڈال کر غریب کا استحصال کیا، ملک کی بدنامی کی اور ریاست کے وجود کو داؤ پر لگایا۔ بدعنوان لوگ عموماً اپنی بدعنوانی کو محفوظ کرنے کے لیے اور قانون سے بچنے کے لیے سیاست میں پناہ لیتے ہیں یا اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے ساز باز کر کے اپنے مذموم عزائم کو دوام دیتے ہیں۔ اپنے اس مکروہ مقصد کے حصول کے لیے وہ سیاست کے مقدس پیشے کا غلط استعمال کر کے عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکا ڈال دیتے ہیں اور بغاوت کے نتیجے میں عوام کو سنگین نتائج سے دھمکایا جاتا ہے۔

سیاسی بدعنوانی میں عوام سے مذہب، علاقائیت، رنگ و نسل اور زبان و برداری کی نام پر ورغلانا بھی شامل ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 باب نمبر 10 اور شق نمبر 167 کے تحت اس طرح کے اقدامات کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح خواتین کو قبائلی علاقوں میں حق رائے دہی سے محروم کرنا بھی سیاسی بدعنوانی کی ایک قسم ہے جو مرد رخی ثقافت کو دوام دیتا ہے اور طبقاتی تقسیم کو پروان چڑھاتا ہے۔ حقیقت میں پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ اور پاکستان میں زن بے زاری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

اس وقت وطن عزیز میں 29 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، 57 فی صد آبادی بے روزگار ہے، 42 فی صد آبادی ناخواندہ ہے، 85 فی صد لوگ جدید انٹرنیٹ کو رسائی نہیں رکھتے، 64 فی صد لوگ صاف پانی پینے سے محروم ہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی میں پاکستان 180 میں سے 120 ویں نمبر پر ہے۔ میرٹ کی پامالی، اقربا پروری، رشوت خوری، کمیشن وصولی اور زر نوازی روز کا معمول بن گئی ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بدعنوانی سے غریبوں، لاچاروں، معذوروں اور خواتین کا سیاسی، معاشی، سماجی اور مذہبی استحصال ہوتا ہے۔

اور جب استحصال حد سے بڑھ جائے تو پامال طبقے میں غاصب طبقے کے خلاف غصے اور نفرت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ بدعنوانی کی ایک اہم مذموم پیداوار معاشی ناہمواری ہے جو معاشرے کو امیر اور غریب کی درجہ بندی میں تقسیم کرتی ہے۔ معاشی بدعنوانی افراط زر اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے جو غریب اور محروم طبقے میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف اشتعال پیدا کرتی ہے۔ اس طرح کی طبقاتی تقسیم سے ملک دشمن عناصر مستفید ہوتے رہتے ہیں اور حالیہ ملکی انتشار کا ذمے دار یہی بدعنوانی ہے جو ملک کے عوام اور حکمران، امیر اور غریب، شہری آبادی اور دیہی آبادی، خواندہ اور ناخواندہ اور مرد اور عورت کے درمیان امتیازات پیدا کر کے ملک کی خوش حالی اور ترقی کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ درحقیقت امیر لوگ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جلد انصاف تک رسائی رکھتے ہیں، صاف پانی اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولتوں سے آراستہ ہیں، جب کہ غریب عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور یہی محرومیت ملک میں انتہاپسندی، دہشت گردی، جرائم، لاقانونیت اور ملکی تقسیم کو دوام دیتی ہے۔

اگرچہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مختلف ادارے بنائے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے یہ ادارے سیاست زدہ اور مادہ پرست ہو گئے ہیں۔ بدعنوانی کی وجہ سے قانون مکڑی کا جال بنا ہوا ہے۔ جس کے باعث امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل در آمد ہو، ادارے غیر سیاسی ہوں، عورتوں کی تعلیم تک رسائی ہو، صنفی امتیازات ختم ہوں، بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مثالی قوانین اور عبرت ناک سزائیں ہوں، تاکہ طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو اور ملکی وحدت برقرار رہے۔

بدعنوانی اگرچہ ایک مہلک بیماری ہے مگر میڈیا، عدلیہ، پارلیمنٹ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ادیب و دانش ور بدعنوانی کے خاتمے اور طبقاتی وحدت کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک موثر سیاسی جمہوری نظام کا ہونا ضروری ہے مگر پاکستان موروثی سیاسی نظام کے بھنور میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔

ریاست اگرچہ افراد کو اختیارات دیتی ہے لیکن ان اختیارات کے استعمال کی حدود متعین ہیں۔ قانون کے مطابق اختیارات کا استعمال خدمت خلق ہے اور اس کے برعکس بدعنوانی ہے، جرم ہے اور استحصال خلق ہے، جو دیگر کئی جرائم اور مسائل کے ساتھ ساتھ طبقاتی تقسیم بھی جنم دیتی ہے جو کسی بھی ملک کی تباہی کے لیے آخری حربہ ہوتی ہے۔ طبقاتی تقسیم معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سماجی اور اخلاقی بحران بھی پیدا کرتی ہے جو عالمی سطح پر ملک کو تنہا کر سکتا ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کے راڈار پر رہنا، آئی ایم ایف سے بھاری بھر کم قرضے لینا، سیاسی عدم استحکام وغیرہ بدعنوانی اور طبقاتی تقسیم کی اہم مثالیں ہیں۔

پاکستان اس وقت دیوالیہ ہونے کو قریب ہے۔ روپیہ کی قدر میں بتدریج کمی اور ڈالر کی قدر میں بے محابا اضافہ ملک کی معیشت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ ملک کے تمام سیاست دان، امرا، کاروباری حضرات، سرمایہ کار اور سمندر پار پاکستانی مل کر ملک کو سخت مشکل حالات اور بدعنوانی سے بچائیں۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کو بدعنوانی سے پاک کیا جائے اور ملکی وحدت کو برقرار رکھا جائے۔ بدعنوانی کے خاتمے میں پاکستان کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments