نور مقدم قتل کیس پر سماعت: ’قتل کے لیے پہلے پلان ہونا ضروری نہیں ہوتا‘


سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مجرمان کو دی جانے والی سزاؤں  کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ قتل کے لیے پہلے پلان ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

عدالت نے یہ ریمارکس اس مقدمے کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے وکیل کی طرف سے دلائل کے جواب میں دیے، جس میں مجرم ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کا نور مقدم کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ یا محرک نہیں تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے رواں برس فروری میں نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو دس، دس سال قید کی سزا سُنائی تھی جبکہ ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی سمیت مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔

سنہ 2021 میں عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تہوار کی تیاریاں عروج پر تھیں تو اچانک ٹی وی چینلز پر شہر کے بیچوں بیچ ایک 27 برس کی لڑکی کے قتل کی خبر نشر ہونا شروع ہوئی۔

وقت کے ساتھ اس قتل کی افسوسناک تفصیلات سامنے آنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس خبر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

جب پولیس اس شب ایف سیون میں موجود مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر پہنچی تو ملزم موقع پر موجود تھا جبکہ نور مقدم کی موت واقع ہو چکی تھی۔

نور مقدم کے والد سابق سفارت کار شوکت مقدم کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق ‘گھر کے اندر جا کر دیکھا تو میری بیٹی کو بے دردی سے تیز دھار آلے سے قتل کر کے اس کا سر جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا تھا۔’

سر تن سے جدا کر کے قتل کرنے کی مخصوص تفصیل دل دہلا دینے والی تھی لیکن جوں جوں کیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں، نور مقدم کی موت کے حوالے سے مزید کربناک تفصیلات سامنے آتی رہیں۔

NOOR MUKADAM

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی منصوبہ بندی کے بغیر کوئی قتل نہیں کیا جا سکتا؟ جس پر مجرم کے وکیل عثمان کھوسہ کا کہنا تھا کہ مقتولہ نے اسلام آباد کے علاقے نیول اینکریج سے ایف سیون پہنچنے تک ان کے مؤکل ظاہرجعفرکوچھ کالز کیں جو اس نے اٹینڈ نہیں کیں۔

انھوں نے کہا کہ پہلی کال نیول اینکریج، باقی کالز راستے سے اور آخری کال ظاہر جعفر کے گھر کے باہر سے کی گئی۔ مجرم کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی آر پڑھنا چاہتے ہیں، جس میں ان کے بقول پراسیکیوشن کے بیانات میں تضاد ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ مدعی مقدمہ اور ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا ؟ جس پر شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاو نے عدالت کو بتایا کہ مدعی کا نہیں لیکن ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا۔

مجرم کے وکیل نے کہا کہ جرح میں شوکت مقدم نے کہا پہلی دفعہ انھوں نے بتایا کہ انھیں واٹس ایپ کال آئی تھی جس پر بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ اگر مان بھی لیا جائے مدعی نے کہیں غلط بیانی کی تو پھر بھی اس کا اثر کیا ہو گا، وہ بتائیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس کی بنیاد جو تھی وہ یہی تھی جو مجرم اور مدعی کے درمیان کال کا رابطہ بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظاہرجعفرنے شوکت مقدم کو کال کی، شوکت مقدم نے کال نہیں کی۔ عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ سی ڈی آر میں نور مقدم کی کالز ان کی والدہ کے ساتھ ہیں والد کے ساتھ ہیں۔

عدالت نے مدعی مقدمہ کے وکیل کو ہدایت کی کہ 19 جولائی کو نور مقدم کی اپنے والد کے ساتھ کال ہے یا نہیں یہ بتانا ہے، جس پر شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ 18 جولائی نہیں بلکہ مدعی شوکت مقدم 19 جولائی کا بتا رہے ہیں کہ نور مقدم لاپتہ تھیں۔

مجرم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے کہا کہ سی ڈی آر کے مطابق مقتولہ لاہور نہیں اسلام آباد تھیں، چیف جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے کہ مقتولہ نے باپ کو غلط بتایا ہو۔

Zahir Jaffar

مجرم کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ دونوں جوان تھے، رات کو اکٹھے ائیرپورٹ جارہے تھے اور واپس آرہے تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جس ٹیکسی میں دونوں واپس گھر آئے تھے کیا وہ ٹیکسی والا اس کیس میں آیا ہے؟ جس پر مجرم کے وکیل نے کہا کہ انھیں یہ عجیب لگا ہے کہ انھوں نے سی سی ٹی وی کے مخصوص حصے ہمیں دیے۔

ٹیکسی اور ڈرائیور بھی سی سی ٹی وی میں نظر آرہے ہیں۔

مدعی مقدمہ کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں مکمل سی سی ٹی وی موجود تھی انھوں نے خود اس ویڈیو سے مخصوص چیزیں دیکھی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت، والدین بری

نور مقدم کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر بحث

نور مقدم قتل کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

Noor

عثمان کھوسہ نے کہا کہ پراسیکیوشن کے گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے، جس کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں ہماری پولیس کب سیکھے گی، ہر کیس میں یہی مسائل سامنے آرہے ہیں۔

اس مقدمے کے پراسیکیوٹر نثار اصغرنے کہا کہ تھیراپی ورکس کا ملزم پمز میں داخل ہوا اور وہاں انھوں نے غلط بیانی کی کہ پوسٹ مارٹم کرنے والوں کے تین نام دیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ  ہر کوئی ایک دوسرے پر ڈال رہا ہے بلکہ ایک ڈاکٹر نے جرح میں کہہ دیا کہ پوسٹ مارٹم نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معلوم نہیں کہ پولیس بنیادی چیزوں کو کیوں اور کیسے نظرانداز کر سکتی ہے؟

انھوں نے کہا کہ اسی لیے ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ یہ نااہلی کی انتہا ہے، مجھے نہیں سمجھ آیا کہ اس کیس میں 14 افراد کو ملزم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

انھوں نے کہا کہ تھیراپی ورکس کے افراد کو ملزمان بنانے کی کیا منطق تھی؟ مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے وکیل کے  کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے ان اپیلوں کی  سماعت چھ دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32467 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments