”آواز دوست“ کے گم شدہ چراغ


مختار مسعود نے ”آواز دوست“ کے دوسرے مضمون ”قحط الرجال“ کا آغاز ولندیزی بچے کی کہانی سے کیا۔ جس نے ایک شام سمندری پشتے پر جاتے ہوئے ایک چھوٹے سے سوراخ کو دیکھا تو گاؤں جا کر اس کی خبر کرنے کی بجائے خود اس سوراخ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ رات ہوئی وہ سو گیا اور سردی کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ لیکن اس نے اپنے حصے کا کام کر دیا تھا۔

اس حکایت کے بعد مختار مسعود سکندر اعظم کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ ایرانی سپاہ کے خلاف بڑی بے جگری کے ساتھ لڑا اور ایرانی خواتین کے ساتھ بڑی دلداری سے پیش آیا۔ دنیا کے بڑے حصے کو فتح کیا۔ دارا کو شکست دی اور جب سائرس کی قبر پر پہنچا تو دل گرفتہ ہوا اور سوچنے لگا کہ اس جنگ سے وہ دنیا پر سلطنت تو کر سکتا ہے لیکن اس کا انجام تاریکی ہو گا۔ مختار مسعود نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس قوم نے سکندر سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ سکندر کی سوانح کا ایک استعمال جولیس سیزر نے کیا اور دوسرا استعمال ہمارے فقیروں نے کیا۔ جو خیرات مانگتے ہوئے صرف اتنا یاد دلاتے ہیں :

سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

مختار مسعود کہتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے سکندر نے دنیا بھر سے خراج وصول کیا ان کے حوالے سے یہ لوگ خیرات مانگتے ہیں، کیونکہ افراد اور اقوام واقعات سے ہمیشہ اپنے مزاج کے مطابق ہی سبق حاصل کرتے ہیں۔ پھر بہادر یار جنگ کی صفات کا تذکرہ ہے کہ انھیں نظام دکن کی طرف سے بہادر یار جنگ کا خطاب ملا۔ لیکن کچھ عرصے بعد انھوں نے یہ خطاب واپس کر دیا۔ ان کی پوری زندگی عشق رسول کے محور کے گرد گھومتی رہی۔ زبان اور بیان کی قدرت انھیں حاصل تھی۔ سیاسی بصیرت بھی خوب رکھتے تھے۔

ملا واحدی کے تین امتیازات کا ذکر ہے : یعنی عبادت، ادارت اور رفاقت۔ سچ کو انھوں نے قریب سے دیکھا اور تاعمر اس کے ساتھ منسلک رہے۔ ان کے ہاں اختصار کا یہ عالم ہے کہ پوری داستان ایک سطر میں بیان کر سکتے ہیں۔ جب ان کا جسم مفلوج ہو گیا تب بھی وہ ایک صحت مند ذہن کے مالک رہے۔ واحدی صاحب کی زندگی میں کوئی بناوٹ نہیں تھی انھوں نے جو سوچا اسے لکھ دیا۔

حسرت موہانی کو چار بار جیل ہوئی۔ سیاست اور عوامی تحریکوں میں بہت متحرک رہے۔ جیل میں ایک سال تک ایک من آٹا ہر روز پیستے رہے۔ شاعری اس لگن سے کی گویا پیدا ہی اسی کے لیے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شوق اور جرات کی بے باکی ملتی ہے۔ مولانا ظفر علی خاں بھی ان کے ساتھ جیل میں رہے۔ اور انھوں نے بھی وہ تمام مشکلات برداشت کیں جو حسرت موہانی کے حصے میں آئیں۔ سیاست میں بھی سرگرم رہے۔

عطا اللہ شاہ بخاری کو مختار مسعود نے ایک پوری انجمن کہا ہے۔ سروجنی نائیڈو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کے پاس بیان کا جادو تھا۔ پچاس برس کے بعد بھی ان کی سحر بیانی بدستور قائم رہی۔ سروجنی کے ہاتھ میں جو ساز تھا وہ اس پر ساری عمر مسلمانوں کا ترانہ بجاتی رہیں۔ محمد علی جناح کی جن خوبیوں کا اعتراف مختار مسعود نے کیا ہے وہ یہ ہیں کہ وہ کم آمیز تھے۔ خاموشی میں باوقار اور گفتگو میں بارعب تھے۔ استادگی میں اتنے سیدھے کہ اپنی بلند قامت سے بلند تر اور اپنی پختہ عمر سے کم تر لگتے تھے۔ کوئی بھی ان کی مقناطیسی شخصیت سے بچ نہ سکا۔

مختار مسعود نے چند منتخب شخصیات کا تذکرہ کیا۔ یہ وہ تمام شخصیات ہیں جن سے مختار مسعود نے کبھی دستخط لیے تھے۔ اور اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ اب ایسے لوگ پیدا نہیں ہو رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments