اکڑ چکے ہیں مگر اکڑ قائم ہے


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کرنا غلطی تھی۔ مخلوط حکومت قبول کرنا غلطی تھی، اسٹیبلشمنٹ پر مکمل بھروسہ کرنا غلطی تھی، باجوہ کو ایکسٹینشن دینا بہت بڑی غلطی تھی، بڑھتے ہوئے افراطِ زر کی روک تھام کو ترجیح نہ دینا غلطی تھی، ریئل اسٹیٹ سب سے بڑی مافیا ہے۔ اس سمیت دیگر صنعتوں کو غیر مشروط مالی ترغیبات و چھوٹ دینا غلطی تھی وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

غلطیاں سب سے ہوتی ہیں مگر خان صاحب دیگر سیاست دانوں کے برعکس صاحبِ ظرف شخصیت ہیں۔ وہ فراغ دلی سے غلطیاں کر کے انھیں کھلے دل سے تسلیم کر لیتے ہیں۔ ایسی شخصیت کی دل جوئی تو بنتی ہے۔

نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے ( استاد انور دہلوی)

ایک درد مند اور مخلص سیاستداں کو ایسا ہی ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں خدا کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ ایسے شفاف لوگ سیاست میں ہی ہیں۔ طبی سرجری یا ہوا بازی کے شعبے میں ہوں تو بہت مسئلہ ہو سکتا ہے مگر شاید میں غلط کہہ رہا ہوں۔ اس بدقسمت ملک کو ساڑھے سات عشروں میں بیشتر قیادت ایسی ہی ملی ہے جس نے پاکستان کے جسدِ خاکی پر آن جاب ٹریننگ لی ہے۔

اس جسم پر کاسمیٹک سرجری سمیت ہر طرح کی جراحی آزمائی جا چکی ہے اور جاری ہے۔ اس کے سینے پر ہر نیا نشتر ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس کے حلق سے ہر نیا عرق، معجون اور کیسپول اتارا جاتا ہے۔ ہر بار اس کے معدے کا ایک اور علاج شروع کر کے نامکمل چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حکمت، ایلوپیتھی، ہومیو پیتھی، آکو پنکچر اور جھاڑ پھونک کو باری باری نہیں ایک ساتھ آزمایا جاتا ہے اور وہ بھی دیوانہ وار درجنوں بار۔

چنانچہ حالت یہ ہو چلی ہے کہ اس جسدِ خاکی پر اب تھرڈ فورتھ چھوڑ ففتھ جنریشن دوا بھی اثر نہیں کر پا رہی۔ چونکہ ہر شاخ پر عطائیت بیٹھی ہے۔ اس لیے کون کس کو پکڑے یا کس جواز پر ہاتھ ڈال۔ سب کو سب کا شجرہ، اوقات، اہلیت اور طاقتِ پرواز معلوم ہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ’وچوں وچ کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ۔‘

اگر اب تک اس مریضِ خداداد کی سانس چل رہی ہے تو یہ کسی بھی دوا سے زیادہ دعا کی کرامت ہے۔ بخدا آپ یا آپ میں سے کسی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ غلطی بہت پہلے ہم جذباتیوں سے ہوئی تھی، ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ( ساغر صدیقی )

جب حالاتِ حاضرہ لامتناہی ہو جائیں، تب ہی ان کی کوکھ سے یہ جملہ جنم لے کر قومی نفسیات میں پیوست ہوتا ہے کہ ’جو ہوا سو ہوا، مٹی پاؤ، آگے کا سوچو۔‘

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ’جو ہوا سو ہوا‘ بھی تو مسلسل ہوئے چلا جا رہا ہے۔ آخر کنی مٹی پائیے اور کتنا آگے کا سوچیے۔آگے بھی تو ہر موڑ پر ’تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ کام جاری ہے‘ کا بورڈ لگا ہے۔

ہم نے تو آج تک کسی شاعر کو اپنے کسی ہم عصر کو دل سے تسلیم کرتے نہیں دیکھا۔ کسی طبیب کو دوسرے طبیب کا نسخہ تسلی بخش نہیں لگتا۔ ہر ریستوران دعویدار ہے ’لذیذ کھانے کا واحد مرکز۔‘ کوئی بھی باورچی کسی اور خانسامے کی بریانی کی تعریف کرنے نہ کرے نقص نکالنا نہیں بھولتا۔ ملتان کینٹ کے ریلوے سٹیشن پر سوہن حلوے کے ہر ’اصلی برانڈ‘ کے ڈبے پر یہی لکھا پایا ’نقالوں سے ہوشیار۔‘

یہاں ہر سیاسی جماعت باقیوں سے زیادہ اہل اور دردمند ہے۔ ہر ریٹائرڈ جرنیل کم ازکم جولئیس سیزر اور ہر حاضر سروس حضرت خالد بن ولید کا وارث۔

تو پھر اتنے نابغہِ روزگاروں اور غیر معمولی مثالیوں کے ہوتے ہم اس معمولی حالت تک آخر کیسے پہنچ گئے۔ ایب نارمل کی سطح سے بلند ہوتے ہوتےعیب نارمل کی منزل پر کیسے چڑھ گئے۔

ہاں کوئی شے اگر نہیں کھوئی تو وہ ہے اکڑ۔ اوپر سے نیچے تک، عام سے خاص تلک سب میں مشترک ہے اکڑ۔ ہم سے اچھا کوئی نہیں اور تم سے برا کوئی نہیں۔ پورے کے پورے اکڑ چکے ہیں مگر اکڑ پھر بھی نہیں جاتی۔ قومی ورثہ جو ہوئی۔

ہر کھیل کے اختتام پر پردہ گرتا ہے۔ پر اس کھیل کے آخر میں پردہ نہیں گرے گا، اس پر کپڑا ڈالا جائے گا۔
(میرے منہ میں خاک۔۔۔ شاد باد منزلِ مراد )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments