عارضی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے والے انسان


ایک اتوار کی شام سپین میں ایک زیویر میلو XAVIER MELOTنامی نوجوان اپنے دفتر سے گھر جا رہا تھا کہ اس کی کار کا حادثہ ہوا جس میں اس کے سر کو بہت سی چوٹیں لگیں اور وہ بیہوش ہو گیا۔

چند گھنٹوں کے بعد جب اسے ہسپتال میں ہوش آیا تو اس نے نرسوں اور ڈاکٹروں کو بتایا
’میں نے خدا کو پا لیا ہے‘

بیہوشی کے دوران زیویر میلو کو ایک ایسا روحانی تجربہ ہوا جس میں اس نے روشنی دیکھی اور اسے یقین ہو گیا کہ اس کی خدا سے ملاقات ہو گئی ہے۔

ساری دنیا میں نجانے کتنے مرد اور عورتیں ایسے ہیں جنہیں جب
ہارٹ اٹیک ہوتا ہے
یا
کار کا حادثہ پیش آتا ہے
تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ موت کو ہاتھ لگا کر واپس لوٹے ہیں
یا
وہ چند منٹوں کے لیے مر گئے ہوں اور پھر دوبارہ زندہ ہو گئے ہوں۔

ان چند منٹوں کی عارضی موت کے درمیان بعض لوگوں کو یوں بھی محسوس ہوا جیسے وہ پرسکون اور پر مسرت جنت میں چلے گئے ہوں یا ان کی خدا یا فرشتوں سے ملاقات ہو گئی ہو۔ ایسے تجربات کے بعد ان کا خدا ’فرشتوں اور جنت پر ایمان اور بھی پختہ ہو گیا۔

میں نے اپنی ایک دوست حامدہ نور سے کہا کہ وہ اپنا غیر معمولی تجربہ مجھے لکھ کر بھیجیں تو انہوں نے مندرجہ ذیل تحریر بھیجی۔

۔ ۔ ۔
حامدہ نور کا غیر معمولی تجربہ
۔ ۔ ۔

وہ فروری کی سرد رات تھی۔ کبھی نہ بھولنے والی انوکھی رات۔ میں ڈنر کے بعد حسب معمول برآمدے میں چہل قدمی کر رہی تھی۔ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ مجھے اپنی ٹانگوں پر کوئی سیال مادہ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ میرے قدم یکلخت رک گئے۔ پہلے میں نے اسے اپنا وہم جان کے نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن سیال مادے کی مسلسل روانی نے میرے اندر خوف کی لہر دوڑا دی۔ کہیں یہ خون ہی نہ ہو میں نے سہم کے سوچا۔ یہ میری پہلی پریگنینسی PREGNANCYتھی اور نویں ماہ کا آغاز۔

میں نے چاند کی مدھم روشنی میں حقیقت حال جاننے کی کوشش کی۔ یہ میرا وہم نہ تھا بلکہ حقیقت میں خون بہہ رہا تھا۔ میں نے فوراً والدہ کا رخ کیا اور ان سے پوچھا یہ خون کیوں بہہ رہا ہے۔ میری والدہ نے جواب دینے کی بجائے عجب سراسیمہ نظروں سے مجھے دیکھا اور میرے بھائی کو آواز دے کے حکم دیا کا مجھے فوراً ہسپتال پہنچا دیا جائے۔ میں نے ’جو لا ابالی طبیعت کی مالک تھی اور خطروں سے کھیلنا پسند کرتی تھی‘ سوچا چلو آج اس ایڈونچر کو انجوائے کرتے ہیں۔

مجھے فوراً ہسپتال میں داخل کر لیا گیا اور میری ڈاکٹر کو اطلاع کر دی گئی کہ آپ کی مریض خطرناک حالت میں ہے۔ کئی قسم کے ٹیسٹوں کے بعد نرس نے مجھے بیڈ پر لیٹ جانے کی ہدایت کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں اکیلے کمرے کی بوریت سے تنگ آ کے آس پاس کا جائزہ لینے کمرے سے باہر نکل گئی ابھی چند ہی قدم چلی ہوں گی کہ دو نرسوں کو قریبا ”بھاگتے ہوئے اپنی جانب آتے پایا۔

” آپ کیا کر رہی ہیں؟ بیڈ سے کیوں اتری ہیں؟ فوراً چلیں واپس اپ نے بیڈ پر لیٹے رہنا ہے“ نرس نے قدرے خفگی سے کہا۔

اس وقت تک مجھے اپنا آپ بھلا چنگا محسوس ہو رہا تھا۔ کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ تھی۔ میں نے حیرت سے نرس کو دیکھا کہ یہ کیوں پریشان ہے۔ خیر بادل نخواستہ میں بستر پر دراز ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد میری ڈاکٹر تشریف لے آئیں۔ اچھی طرح چیک کرنے کے بعد انھوں نے کہا ابھی ڈیلیوری میں کافی وقت ہے۔ اب مجھے وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی درد کی لہریں آتی اور جاتی محسوس ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ یہ درد قابل برداشت تھا۔ جوں جوں رات گزرنے لگی درد کی شدت بھی بڑھنے لگی اور دردوں کے درمیان وقفہ بھی سکڑنے لگا۔

اسی دوران میں نے اچانک محسوس کیا کہ میں پانی میں بھیگ گئی ہوں۔ میرا سارا بیڈ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے شدید حیرت کے عالم میں نرس کو آواز دی کہ یہ اتنا بہت سا پانی کہاں سے آ گیا ہے؟ ”اپ کا واٹر بیگ وقت سے پہلے پھٹ گیا ہے“ نرس نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر بھی آ گئی۔ درد کی شدت اب عروج پر تھی اور ساتھ ہی نقاہت بھی۔ میری ہرہر رگ۔ ہرہر پور اور ہر ہر مسان میں ناقابل برداشت درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

میں وفور درد سے تڑپ رہی تھی۔ درد کی لہر اٹھتے ہی اک نحیف سی چیخ نکل جاتی۔ میں مدد کے لئے، پناہ کے لئے بے بسی سے ادھرادھر دیکھتی لیکن سب بے سود ثابت ہوتا۔ میرا دل چاہا دوڑ لگا دوں، کہیں بھاگ جاؤں۔ پھر اک نظر پیٹ کو دیکھا کہ درد کا منبع یہ بھی ساتھ ہی تو جائے گا۔ نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے بے بسی کی اس انتہا پر بالآخر اپنی نحیف آواز میں اپنی ماں کو پکارنا شروع کر دیا۔ مجھے نہیں یاد ڈاکٹر اور نرسیں میرے درد سے چور چور بدن کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ یاد ہے تو بس اتنا میرا سارا بدن تیز آندھیوں میں گھرے اک پتے کی مانند بے تحاشا کانپ رہا تھا۔ ڈاکٹر بار بار تنبیہ کر رہی تھی کہ لرزش پر قابو پاؤ پر میرا لرزتا بدن کسی طور ساکت نہیں ہو پا رہا تھا میرے میں تو کوشش کی بھی سکت نہیں تھی۔ میں بدستور کانپ رہی تھی تیز ہوا میں اڑتے پتے کی مانند۔

یکایک مجھے لگا جیسے کسی جھٹکے نے مجھے اس منظر سے نکال کے کسی اور جگہ پہنچا دیا ہو۔ یہ اک تاریک بہت لمبی سرنگ جیسی جگہ تھی جس میں میں چل نہیں رہی تھی نہ ہی اڑ رہی تھی بلکہ بہہ رہی تھی اپنی مرضی اور ارادے سے نہیں بلکہ خود بخود۔ وہاں کا ماحول بے انتہا پرسکون تھا، محبت اور امن میں رچا بسا۔ میرا سفر نہایت مسرت انگیز تھا۔ ہر سو راحت ہی راحت تھی۔ ایسی راحت ایسی مسرت جس کا ادراک اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

محبت اور مسرت کے یہ اجنبی، انوکھے اور انجان محسوسات میرے رگ و پے میں سما گئے تھے۔ میں خوشی سے سرشار آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اس سرنگ کی میں تنہا مسافر تھی۔ سفر طویل تھا اور منزل نا معلوم۔ نجانے کب سے میں بہہ رہی تھی لیکن تھکن کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں تو خوشی سے نہال تھی، ایسی محبت ایسی مسرت سے سرشار تھی جس کا عشر و عشیر بھی اس دنیا میں نہیں بلکہ نا پید ہے۔ میں چھوٹے بچوں کی طرح کھلکھلا کے ہنسے جا رہی تھی اور سفر کا کوئی انت نہ تھا۔ میرا ہلکا پھلکا وجود ہنستا مسکراتا خوشی و مستی کے عالم میں سکون سے بہے جا رہا تھا۔ دود بہت ہی دور اک تارہ جیسی دودھیا روشنی نظر آ رہی تھی لیکن اس تک پہنچنے کا فاصلہ طے ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔

کئی گھنٹوں کی بے ہوشی کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنی ڈاکٹر کو اپنے قریب کھڑے پایا۔ اس نے میرا بازو تھام لیا اور روہانسی آواز میں گویا ہوئی ”تو تو اللہ کے پاس چلی گئی تھی۔ مر گئی تھی تو۔ بڑی ہی مشکل سات آٹھ منٹ کے بعد تجھے واپس لائی ہوں۔ تیرے واپس آنے کے بعد میں نے شکرانے کے نفل بھی ادا کیے ’

میں نے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ لیا اور خفگی سے شکایت کی

” آپ مجھے واپس کیوں لائی ہیں۔ کیوں لائی ہیں واپس۔ مجھے وہیں جانا ہے وہیں رہنا ہے۔ واپس بھیجو مجھے وہاں۔ ’

ڈاکٹر حیران حیران نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ وہ کچھ ثانیے بت بنی کھڑی رہی شاید اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں جہاں سے آئی تھی ظاہر ہے وہ سب اس کی سمجھ سے ماورا تھا۔

مجھے بات کرتا دیکھ کے میری ماں میرے نو زائیدہ بیٹے کو گود میں لئے بے قرار سی خوشی کے ساتھ آگے بڑھی
” دیکھو دیکھو اللہ نے تمھیں بیٹے سے نوازا ہے“

میں نے اجنبی نظروں سے ماں کو دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔ میرے اندر کوئی احساس نہ جاگا نہ ہی شناسائی کی کوئی رمق پیدا ہوئی۔ میرے سارے ناتے ٹوٹ چکے تھے۔ میں نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔ میں واپس وہیں جانا چاہتی تھی۔ میں اس دنیا اس منظر اور ان محسوسات سے بندھ چکی تھی۔ ماں باپ اور بیٹے کے رشتے سے کٹ چکی تھی۔ یہ دنیا اجنبی لگ رہی تھی۔ میں لاتعلقی اور بے گانگی محسوس کر رہی تھی۔ مجھے اس دنیا سے کوئی لگاؤ نہ رہا۔ واپس جانے کی شدید خواہش کے زیر اثر میں بار بار زور سے آنکھیں بند کر لیتی۔ اس دنیا سے تعلق توڑنے کی بے سود سعی کرتی۔ بہت دنوں تک میں گم سم رہی۔ میں زیادہ تر اپنی آنکھیں بند رکھتی۔ بالآخر آہستہ آہستہ میں نارمل زندگی کی طرف آنے لگی لیکن اب میں وہ نہ رہی جو تھی۔ میری شخصیت بالکل بدل چکی تھی۔ ’

۔ ۔ ۔
سائنسدان سٹیون ہاکنگ اپنی کتابوں میں
MODEL DEPENDENT REALITY

کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو ہم جس کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور جس عینک سے دیکھتے ہیں ہمیں ویسے ہی نتائج ملتے ہیں

جو لوگ مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ان کا ایمان اپنے روحانی تجربات سے اور بھی پختہ ہو جاتا ہے
اور جو لوگ سائنس سے محبت کرتے ہیں وہ اپنے تحقیق سے قوانین فطرت اور زندگی کے راز جانتے ہیں۔

جب سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے ان مریضوں پر تحقیق کی جنہیں موت کو قریب سے دیکھنے اور چھونے کے تجربات ہوئے جنہیں ماہرین

NDE…NEAR DEATH EXPERIENCE
کا نام دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ

ان تجربات میں چاہے وہ دل کے دورے کے دوران ہوں یا کار کے حادثے کے دوران انسانی دماغ میں خون اور اوکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک خاص مادہ پیدا ہوتا ہے جو کیٹامین KETAMINEکہلاتا ہے۔ اس مادے سے انسان کو خاص طرح کے تجربات ہوتے ہیں۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے

وہ اوپر کی طرف ہوا میں اڑ رہا ہو
یا نیچے کی طرف گر رہا ہو
یا تاریکی سے روشنی کی طرف جا رہا ہو
یہ تمام مشاہدات اور تجربات ایک جسمانی و ذہنی بحران کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
اگر وہ انسان مذہبی عقائد رکھتا ہے تو وہ ان تجربات کا رشتہ خدا ’مذہب اور جنت سے جوڑتا ہے۔

اگر وہ انسان غیر مذہبی ہے تو وہ جانتا ہے کہ ان تجربات کا تعلق انسانی دماغ میں خون اور اوکسیجن کی عارضی کمی سے ہے۔

۔ ۔ ۔

مغربی دنیا میں جب ایک امریکی ڈاکٹر ریمنڈ موڈی کا ایک سو پچاس کوما سے واپس لوٹ آنے والے مریضوں کے انٹرویو پر مبنی مقالہ

LIFE AFTER LIFE
اور ایک نیورو سرجن ویبن الیگزینڈر کی کتاب
PROOF OF HEAVEN

چھپی تو مذہبی لوگ بہت خوش ہوئے۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کے مذہبی اعتقادات کو سائنسی بنیادیں مل گئی ہوں۔

ان کتابوں کے بعد سائنسدانوں اور محققین نے ان مریضوں کے تجربات پر تحقیق کرنی شروع کی جو موت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے تھے یا چند منٹوں کی موت کے بعد زندہ ہو گئے تھے۔ وہ محققین یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا انسانی شعور جسم اور دماغ کے بغیر بھی باقی رہ سکتا ہے۔

تحقیق نے یہ بتایا ہے کہ انسانی جسم اور دماغ کے بغیر انسانی شعور کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ ایسے تجربات اور مشاہدات کو جو معانی دیے جاتے ہیں وہ سائنس سے زیادہ انسانی عقائد کی عکاسی کرتے ہیں۔

دو ہزار انیس میں بہت سے ماہرین اور محققین ’جن میں سائیکاٹرسٹ اینستھیولوجسٹ اور نیورولوجسٹ سبھی شامل تھے جمع ہوئے اور اس موضوع پر مکالمہ کیا اور اپنی تحقیق کے نتائج ایک دوسرے سے شیر کیے۔ انہوں نے ان تجربات کو نیا نام دیا

RED…RECALLED EXPERIENCES OF DEATH
اور ایک تحقیقی مقالہ لکھا جو
ANNALS OF THE NEWYORK ACADEMY OF SCIENCES
میں 2022 میں چھپا۔

ان محققین نے یہ ثابت کیا کہ مریضوں کے یہ تجربات اور مشاہدات اس وقت وقوع پذیر ہوتے ہیں جب انسانی دماغ میں خون اور اوکسیجن کی کمی ہوتی ہے۔

ان تجربات میں مریض یہ محسوس کرتا ہے کہ
وہ اپنے جسم سے جدا ہو گیا ہے
وہ ایک سرنگ میں داخل ہو رہا ہے
وہ پرسکون محسوس کرتا ہے
وہ روشنی دیکھتا ہے
اور پھر واپس جسم سے جڑ جاتا ہے
ان تجربات کا تعلق انسان کے دائیں دماغ کے ٹمپورل اور پیرائیٹل لوب کے مقام اتصال سے ہے جو
TJP…TEMPORAL-PARIETAL JUNCTION

کہلاتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ جب فعال ہوتا ہے تو انسان یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ اپنے جسم سے جدا ہو کر اپنے جسم کو اوپر سے دیکھ رہا ہو۔

انگلستان کے ایک اور سائنسدان کارل جینسن نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک خاص مادہ جس کا نام KETAMINE ہے ایسا ہے جو انسانی درد کو کم بھی کرتا ہے اور اس سے انسان کو خاص چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دل کے دورے یا کار کے حادثے کے دوران جب انسانی دماغ میں خون اور اوکسیجن میں کمی پیدا ہوتی ہے تو دماغ اپنی حفاظت کے لیے کیٹامین پیدا کرتا ہے اور موت کے قریب کے بہت سے تجربات اور مشاہدات اسی کیمیائی مادے کی کرامات ہیں جسے مذہبی لوگ اپنے اعتقادات کی حمایت میں پیش کرتے ہیں۔

ماہرین نے عام انسانوں کے دماغوں میں جب لیبارٹری میں کیٹامین کا کیمیائی مادہ داخل کیا تو انہیں بھی ویسے ہی تجربات ہوئے جو موت کو چھو کے آنے والے مریضوں کے تجربات سے مشابہ تھے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے

KETAMINE CAN PRODUCE ALL ASPECTS OF THE NEAR DEATH EXPERIENCE

موت کو چھو کر آنے والے مریضوں کی تحقیق سے بہت پہلے ماہر نفسیات JULIAN JAYNES نے ہمیں بتایا تھا کہ انسان کے فنی ’تخلیقی اور روحانی تجربات کا تعلق دائیں دماغ کے ٹمپورل لوب سے ہے اور جب یہ تجربات دائیں دماغ سے بائیں دماغ میں جاتے ہیں تو بائیں دماغ کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کہیں باہر سے یا عالم بالا سے آ رہے ہیں۔

غالب نے بھی فرمایا تھا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

جولین جینز کا موقف تھا کہ مذہبی لوگ ان تجربات کا تعلق خدا اور فرشتوں سے جوڑتے ہیں جبکہ لا مذہبی لوگ جانتے ہیں کہ ان تجربات اور مشاہدات کا تعلق ہمارے لاشعور سے ہے۔

فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

نوٹ۔ اس کالم کی تیاری میں NAUTILUS میگزین کی مدیر KRISTEN FRENCH کے مقالے NEAR DEATH EXPERIENCE سے استفادہ کیا گیا ہے۔

میں اپنی دوست حامدہ نور (فرضی نام) کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میرے کالم کے لیے میری درخواست پر اپنا غیر معمولی تجربہ رقم کیا)

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments