قدیم کھوپڑی میں ایسے چوکور سوراخ کی دریافت جس نے ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا


سنہ 1864 میں امریکی شخص افرائیم جارج سکوئیر کا سامنا ایسی چیز سے ہوا جس کی شاید ہی اُنھوں نے کبھی توقع کی تھی۔ 

وہ اپنے ہاتھوں میں ایسی چیز کا ناقابلِ تردید ثبوت تھامے ہوئے تھے جسے سائنسدان ایک طویل عرصے سے ناممکن قرار دے کر جھٹلاتے رہے ہیں، یعنی قدیم دماغی سرجری اور ایک طرح سے وہ اس چیز تک پرندوں کے فضلے کی وجہ سے پہنچے۔ 

جب سنہ 1861 میں امریکہ میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی تو خوراک اگانے کے لیے کھاد کا حصول صدر ابراہیم لنکن کے لیے سٹریٹجک ضرورت بن گیا۔ 

اور دنیا کی سب سے بہتر کھاد برِاعظم جنوبی امریکہ کے ان جزائر سے مل سکتی تھی جہاں صدیوں سے جمع ہوتے فضلے کے پہاڑوں کے پہاڑ قائم تھے۔ 

اسی لیے سنہ 1864 میں لنکن نے ایک وفد کو اتنی اہم چیز کے حصول کے لیے پیرو بھیجا اور سکوئیر بھی اس کا حصہ تھے۔ 

آثارِ قدیمہ سے دلچسپی

ایک مرتبہ جب یہ کام پورا ہو گیا تو سکوئیر نے اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اکیلی نیویارک لوٹ جائیں کیونکہ وہ اپنے پرانے شوق آرکیالوجی یعنی آثارِ قدیمہ پر کام کرتے ہوئے کچھ ماہ گزارنا چاہتے تھے۔ 

اس طرح وہ ایک سال تک ساحلوں سے جنگلات تک اور اینڈیز پہاڑی سلسلے کے سفر کے بعد کوزکو پہنچ گئے جو ’پہاڑی سلسلے میں قائم ایک پرشکوہ مگر الگ تھلگ شہر پہنچ گئے۔‘ 

اُنھوں نے اپنی کتاب ’پیرو: ایکسپلوریشن اینڈ ٹریول انسیڈینٹس ان دی لینڈ آف دی اِنکاز‘ میں لکھا کہ یہاں تک پہنچنے میں پیرو کے دارالحکومت لیما سے نیویارک تک کے سفر سے زیادہ وقت صرف ہوتا ہے اور تقریباً چار گنا زیادہ ’تکلیف اور تھکاوٹ‘ سہنی پڑتی ہے۔ 

اس علاقے میں ملنی والی شاندار قدیم سائٹس، شہر، اس کی تاریخ، آبادی اور موجودہ حالت تفصیلاً بیان کرنے کے بعد وہ ایک جگہ رک جاتے ہیں: 

’میں بالخصوص سینیورا زینٹینو کی رہائش گاہ کا تذکرہ کروں گا۔ یہ پلازا ڈی سین فرانسسکو میں رہتی تھیں جن کی غیر ملکیوں کے لیے توجہ مثالی تھی۔ اُنھوں نے پیرو میں آثارِ قدیمہ کے سب سے گرانقدر میوزیم کی بانی کے طور پر نام کمایا تھا۔‘ 

’یہ گھر (اٹلی کے شہر) وینس میں بھی ایک ’محل‘ کہلاتا، اگر اپنے طرزِ تعمیر کے لیے نہیں تو کم از کم اپنی وسعت کے لیے ضرور۔ اس کے کمروں کی گنجائش اور اس کی رنگارنگ آرائش اور یہاں موجود مختلف اشیا کی وجہ سے اس کا گرینڈ کینال (وینس) پر قائم کچھ سب سے خوبصورت گھروں میں سے ایک کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔‘ 

افرائیم

افرائیم جارج سکوئیر (1821 تا 1888)۔ صحافی، سفارتکار، اور شوقیہ ماہرِ آثارِ قدیمہ

عجائبات ہی عجائبات 

سینیورا زینٹینو کا اصل نام ماریہ اینا سینٹینو ڈی رومین وِل تھا اور یہ 1816 یا 1817 سے لے کر 1874 تک حیات رہیں۔ زبردست مطالعے کی وجہ سے ان کی شخصیت میں ایک نکھار تھا اور پیرو کی مایہ ناز تعلیم دان ایلویرا گارسیا ای گارسیا نے اپنی ایک کتاب ’دی پیروویئن ویمن تھرو دی سینچریز‘ میں لکھا ہے کہ اُنھوں نے کم عمری میں ہی چیزیں جمع کرنی شروع کر دی تھیں اور اس کے لیے ان کا جوش ’جنون‘ کے قریب تھا۔ 

اسی جذبے سے مغلوب ہو کر وہ مختلف جگہوں سے چیزیں جمع کرتی رہتیں اور بالآخر ان کا گھر ایک ’تاریخی و آرکیالوجیکل میوزیم‘ ہی بن گیا جس کے ذریعے پیرو کی مکمل تاریخ کے مختلف ادوار کا خود تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

ایلویرا گارسیا ای گارسیا نے لکھا: ’قبل از کولمبیئن دور کے پتھر، سیرامک اور نادر دھاتوں سے بنے نوادرات کے علاوہ یہاں پر رومن موزائیکس اور جاپانی چیزوں سے لے کر بھس بھرے ہوئے پرندے اور کئی پراسرار چیزیں بھی رکھی گئی تھیں کیونکہ اس کا مقصد آرکیالوجیکل میوزیم بنانا نہیں بلکہ عجیب چیزوں کا میوزیم بنانا تھا۔‘ 

 سینیورا زینٹینو کا یہ ’محل‘ یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کے ہالز جیسا تھا۔ کوزکو کی اشرافیہ اور مایہ ناز غیر ملکی مہمان سائنس، آرٹ اور ادب پر گفتگو کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ 

ان میں سے ایک سکوئیر تھے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں پہلی مرتبہ ان کے ہاتھ ایسی غیر معمولی قیمتی چیز آئی جو سرجری کی تاریخ بدل دینے والی تھی۔ 

اُنھوں نے لکھا کہ ’کچھ طرح سے مسز زینٹینو کی کلیکشن کی سب سے ایہم چیز ایک کھوپڑی کی سامنے والی ہڈی ہے جو وادی یوکے میں قائم ایک اِنکا قبرستان سے حاصل کی گئی تھی۔‘ 

ان کی توجہ جس چیز نے حاصل کی وہ ایک 15 ملی میٹر ضرب 17 ملی میٹر کا ایک چوکور سوراخ تھا جس کا اُنھوں نے بغور جائزہ لیا۔ 

اُنھوں نے سوچا کہ یہ قدرتی نہیں ہو سکتا کیونکہ قدرت عموماً 90 ڈگری کے زاویوں پر کام نہیں کرتی۔ 

اس کے علاوہ اُنھیں لگا کہ یہاں نئی ہڈی بننے کے نشانات بھی ہیں جس کا مطلب ہے کہ مذکورہ شخص نہ صرف اس کٹنگ کے وقت زندہ تھا بلکہ اس کے بعد بھی زندہ رہا۔ 

پھر اُنھیں ایک حیرت انگیز خیال آیا: کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دانستہ طور پر کیا گیا ہو اور کسی سرجری کا نتیجہ ہو؟

وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بلاشبہ ان کے سامنے ’موت سے قبل ٹریپینیشن (قدیم سرجری جس میں کھوپڑی سے ہڈی کا ٹکڑا نکال لیا جاتا) کا ثبوت تھا۔‘

سکوئیر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’ان خاتون نے مجھے یہ تحقیق کے لیے دے دیا اور اور اس پر امریکہ و یورپ کے بہترین سرجنز نے تنقید کی ہے اور اسے تقریباً سبھی لوگوں نے اب تک اس برِاعظم سے دریافت ہونے والے سرجری کے قدیم علم کا سب سے بہترین ثبوت قرار دیا ہے کیونکہ ٹریپینیشن مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے۔‘ 

مگر یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ 

ناممکن؟ اتنی بھی نہیں

سکوئیر نے 1877 میں پیرو میں اپنے ایڈوینچرز کی کہانی شائع کی مگر کسی وجہ سے اُنھوں نے جب امریکہ واپس لوٹنے کے بعد نیویارک اکیڈمی آف میڈیسن کے سامنے جب یہ کھوپڑی پیش کی تو لوگوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا کہ کیسے پیرو کے کسی مقامی شخص کی ٹریپینیشن سے کوئی شخص بچ کر نکال سکتا ہے۔ 

یہ تصور ہی لوگوں کو بہت مضحکہ خیز لگا کہ قدیم اِنکا افراد سُن یا بے ہوش کر دینے والی ادویات اور دھاتی اوزاروں کے بغیر اس قدر نازک آپریشن کر سکتے تھے۔ 

اس وقت دنیا کے بہترین ہسپتالوں کے ماہر ترین سرجنز کی کی گئی ٹریپینیشن میں بھی بچنے کا امکان صرف 10 فیصد ہوتا تھا۔ 

مگر ان لوگوں نے یہ بات نظرانداز کر دی تھی کہ ایسا دوسرے آپریشنز میں بھی ہوتا تھا۔ اگلے چند برسوں میں ہی جراثیم کے نظریے سے یہ بات سامنے آئی کہ ہسپتالوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ گندگی سے ہونے والے انفیکشنز تھے۔ 

مگر سکوئیر نے ہار نہیں مانی۔ 

اُنھوں نے یہ کھوپڑی اٹھائی اور اسے انسانی کھوپڑی پر صفِ اوّل کے یورپی ماہر پال بروکا کے پاس لے گئے جو یونیورسٹی آف پیرس میں کلینیکل سرجری اور ایکسٹرنل پیتھالوجی کے پروفیسر تھے۔ وہ پہلی اینتھروپولیجیکل سوسائٹی کے بانی بھی تھے۔ 

بروکا سنہ 1861 میں انسانی دماغ میں بولیوں کے لیے ذمہ دار جگہ تلاش کرنے کے بعد دنیا بھر میں مشہور ہو گئے تھے۔

کھوپڑیوں سے متعلق ان کے ہنر اور اینتھروپولوجیکل علوم پر ان کی مہارت کو بھی سراہا جاتا رہا تھا۔ اس چوکور سوراخ کے مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کی یہ ساخت دانستہ طور پر کاٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اُنھوں نے اسے خردبینی کے ذریعے دیکھا اور اس کے اردگرد ہڈی کے بڑھنے کے آثار پائے۔ چنانچہ اُنھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ مریض اس آپریشن سے زندہ بچ گیا تھا۔ 

یوں سکوئیر کے خیالات کی واضح انداز میں تصدیق ہو گئی۔ 

بروکا کی اعلیٰ ساکھ کے باوجود جب اُنھوں نے پیرس اینتھروپولوجیکل سوسائٹی کے سامنے یہ نتائج رکھے تو حاضرین ہچکچانے لگے۔ 

مگر کچھ برس بعد وسطی فرانس میں گول سوراخوں کی حامل کئی ہڈیاں اور انھی سائز کی ہڈیوں کی ڈسکس ملیں جنھیں شاید تعویذ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ 

ان دریافتوں سے بروکا کے اس نظریے کی تصدیق ہوئی کہ جدید حجری دور کے لوگ کامیابی سے ٹریپینیشن کر سکتے تھے۔ 

سائنسدانوں کے پاس اب یہ مان لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اب تک اس شعبے میں قدیم معاشروں کو کمتر سمجھتے رہے ہیں۔ 

اِنکا کھوپڑی نے ہمیں وہ معلومات فراہم کیں جو ہم نہیں جانتے تھے۔ 

چھری

پیرو کی اکیڈمی آف سرجری کا لوگو جس میں قدیم چھری نمایاں ہے

تصور سے زیادہ قدیم سرجریز

اب ماہرینِ بشریات نے دوبارہ اپنے مجموعوں میں سے کھوپڑیاں نکال کر ان طرح طرح کی ساختوں کے سوراخوں کا جائزہ لینا شروع کیا جنھیں پہلے جنگ میں لگنے والے زخم، حادثات یا جانوروں کے حملے کے باعث ہونے والا زخم سمجھا جاتا رہا تھا۔ 

اُنھوں نے قدیم سرجری سے گزری ایسی کئی مزید کھوپڑیاں دیکھیں جو 8000 قبلِ مسیح تک پرانی تھیں۔ 

اب ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک عام معمول تھا اور دنیا بھر کے مختلف معاشروں میں لوگ کھوپڑی کاٹنے کے لیے کئی طرح کے اوزاروں کا استعمال کرتے تھے جن میں نوکیلے پتھر، جانوروں کی ہڈیاں، گرم سلاخیں اور یہاں تک کے شارکس کے دانت تک شامل ہیں۔ 

پیرو کی اکیڈمی آف سرجری نے اپنے لوگو میں بھی لوہے کی مڑی ہوئی قدیم چھری کو شامل کیا ہے جو اس طرح کے آپریشنز میں استعمال ہوتی تھی۔

سرجری

اس دریافت نے تاریخ از سرِ نو تحریر کرنے پر مجبور کیا

اور تحقیق سے مزید حقائق سامنے آئے کہ دماغی سرجری کے قدیم ماہرین وہ کرنا جانتے تھے جو یورپی اور امریکی اب بھی نہیں جانتے تھے۔ 

ایسے ہی ایک مطالعے میں معلوم ہوا کہ قدیم ڈاکٹر انفیکشنز روک سکتے تھے: ٹریپین کی گئی 66 قدیم کھوپڑیوں میں سے صرف تین میں انفیکشن کے آثار ملے۔ 

لندن میں 1870 کی دہائی کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں 75 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد ہلاک ہو رہے تھے جبکہ نیو گنی میں جہاں روایتی اوزاروں سے سرجن کھوپڑیوں میں سوراخ کیا کرتے وہاں اموات کی شرح 30 فیصد تھی۔ 

مگر کیوں؟ 

جو بات ہمیں نہیں معلوم وہ یہ کہ قدیم معاشرے کھوپڑیوں میں سوراخ کیوں کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے کچھ بھی تحریر نہیں کیا گیا۔ 

بروکا نے ہمیشہ یہ دلیل پیش کی کہ وہ لوگ دماغ میں پھنسی ہوئی بدروحوں کو نکالنے کے لیے سوراخ کیا کرتے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مرگی کے دوروں، چیزیں نظر آنے، یا بدروحوں سے منسلک بیماریوں کے علاج کے لیے کیا جاتا تھا۔ 

یقینی طور پر یورپ میں اس مقصد کے لیے کھوپڑیوں میں سوراخ کیے جاتے تھے مگر اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں کہ انتہائی قدیم ماضی میں بھی اس کی وجہ یہی تھی۔ 

سکوئیر اور دیگر ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ہمیشہ بدروحوں کے نظریے پر شک کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قدیم نیوروسرجنز وہی کر رہے تھے جو نظر آ رہا ہے، یعنی سر کے زخموں کا علاج کرنا جو عموماً معرکے یا بلندی سے گرنے کی وجہ سے لگتے تھے۔ 

سرجری

ولندیزی پینٹر ایل بوسکو کی 1475 سے 1480 کے درمیان بنائی گئی پینٹنگ جس میں سرجری کو پاگل پن کا علاج قرار دیا گیا ہے

اور جدید تحقیق بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے، بالخصوص اِنکا لوگوں کے معاملے میں۔ 

مردوں میں خواتین کے مقابلے میں ایسے سوراخ زیادہ پائے گئے ہیں جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ قدیم دور میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ مرد جنگیں لڑنے جایا کرتے تھے۔ 

یہ سوراخ عموماً کھوپڑی کی بائیں جانب ہوتے ہیں جہاں داہنے ہاتھ سے تلوار بازی کرتا شخص حملے کرتا۔ 

ٹریپینیشن عموماً زخموں کو صاف کرنے اور خون کو وہیں جم کر رک جانے سے روکنے کے لیے کی جاتی۔ 

توہم پرستی نے ٹریپینیشن کی شروعات کرنے میں کردار ادا کیا ہو گا مگر یہ بھی امکان ہے کہ قدیم نیوروسرجنز اس کا استعمال لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے کرتے تھے جیسا کہ آج جدید سرجنز کیا کرتے ہیں۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments