بوسنیا کی چشم دید کیانی۔ 22


سٹولک اسٹیشن میں زندگی اپنے معمول کے مطابق رواں تھی۔ ایک دوپہر تقریباً تمام مانیٹر اسٹیشن پر موجود اپنے اپنے دفتری کاموں میں مشغول تھے کہ اسٹیشن کی عمارت کے باہر ایک لینڈ کروزر آ کر رکی اور اس میں سے سیاہ وردی میں ملبوس ایک درمیانے قد اور گٹھے ہوئے جسم کا ایک گنجا پولیس افسر برآمد ہوا۔ وہ دانتوں میں سگریٹ دبائے ٹہلتا ہوا دفتر میں داخل ہوا اور بلند آواز میں ہم سے مخاطب ہوا۔

Hello guys, I am Frank Sarwar, your new District Commander.

کرس اور ہم پاکستانی و نیپالی مانیٹروں کے سوا باقی سب نے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے اسے جواباً ہیلو کہا۔ ہم نے آگے بڑھ کر اسے خوش آمدید کہا اور ہاتھ ملایا۔ کرس نے باری باری تمام مانیٹروں کا اس سے تعارف کروایا لیکن اس پر بھی گورے مانیٹروں میں سے کسی نے اپنی جگہ سے جنبش کی زحمت گوارا نہ کی۔ فرینک سرور نے بھی اس سرد مہری پر کسی ناگواری کا مظاہرہ نہ کیا۔ میرے لیے یہ مشاہدہ بالکل انوکھا تھا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فرینک سرور کے استقبال کا ہمارا انداز اخلاقی تقاضے کا مظہر تھا یا غلامانہ ذہنیت کا غماز۔ فرینک سرور ہمارے اسٹیشن پر کوئی پندرہ منٹ کے لیے رکا۔ کرس کی پیش کش پر اس نے کالا کڑوا پانی جسے فرنچ کافی کہا جاتا تھا، نوش کیا، اوپر تلے تین چار سگریٹ پھونکے اور پھر رخصت ہو گیا۔

ڈسٹرکٹ کمانڈر کی حیثیت سے فرینک سرور کی آمد کے چند دن بعد ہمارے اسٹیشن کے سٹاف میں بھی ایک امریکی مانیٹر کا اضافہ ہوا۔ اس کا نام ولیم کولن تھا جب کہ عرف عام میں اسے بل کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ہمارے اسٹیشن پر تعیناتی سے قبل وہ شعبہ تربیت سے منسلک تھا۔ چند ہفتہ قبل ٹرے بینیا میں جو انسانی حقوق کے حوالے سے پانچ روزہ تربیتی کورس منعقد ہوا تھا، اس میں ہماری شمولیت پر اس سے تعارف ہوا تھا۔ وہ بھی دوسرے بہت سے امریکی افسران کی طرح ایک ریٹائرڈ پولیس افسر تھا۔

قد چھ فٹ ضرور ہو گا۔ صحت بھی اچھی تھی۔ رویے میں بے تکلفی کا پہلو کم کم تھا۔ امریکی ضلع افسر کی آمد کے چند دنوں کے اندر اندر پہلے امریکی مانیٹر کے طور پر بل کی سٹولک میں تعیناتی سب کو اپنی اپنی جگہ کھٹکتی تھی۔ اس بارے میں ابھی مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ جی جی کی جگہ بل کا ڈپٹی اسٹیشن کمانڈر کے طور پر تعیناتی کا حکم نامہ موصول ہوا۔ تمام سٹاف کے لیے یہ ایک ناقابل یقین خبر تھی۔ جی جی اگرچہ ڈپٹی اسٹیشن کمانڈر  کے طور پر نہایت غیر موزوں انتخاب تھا لیکن عام خیال یہی تھا کہ وہ فرانسیسی ہونے کے ناتے یہ عہدہ بہ ہر حال سنبھالے رکھے گا۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی فرانسیسیوں کی عددی برتری اور ریجنل کمانڈر سے ان کی ”کلی وال“ کی وجہ سے دبنے والے مانیٹروں کے حوصلے بھی لوٹ آئے۔ ان کے نزدیک فرانسیسیوں کی اب وہ امتیازی حیثیت نہ رہی جو اب تک تھی۔ یہ تبدیلی کرس کے لیے خصوصی طور پر خوش آئند تھی کیوں کہ جی جی کے ڈپٹی اسٹیشن کمانڈر بننے کے بعد سے وہ نام نہاد اسٹیشن کمانڈر تھا اور اسٹیشن کے تمام امور کا انتظام عملی طور پر فرانسیسیوں کے ہاتھ ہی میں تھا۔

ادھر فرینک سرور نے ضلع افسر کے طور پر کام کا آغاز کچھ اس انداز سے کیا کہ شیوا جو مشن کو ابھی تک پھوکٹ کھاتہ کہا کرتا تھا، اسے اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ وہ گشت جو ابھی تک حقیقی معنوں میں سیر سپاٹا ہوا کرتی تھی اب ویسی نہ رہی۔ فرینک سرور ضلع افسر کی حیثیت سے تین تھانوں کا سربراہ تھا۔ ٹرے بینیا، سٹولک اور نوے سینیا۔ اس کا دفتر ٹرے بینیا میں واقع تھا۔ وہاں سے سٹولک کا فاصلہ تقریباً 80 کلو میٹر تھا۔

جب کہ سٹولک سے نوے سینیا کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی تھا۔ نوے سینیا موسطار کے مشرق میں واقع ایک سرب اکثریتی پہاڑی قصبہ تھا۔ یہ آب و ہوا کے لحاظ سے شدید سرد تھا اور پہاڑی مقام ہونے کے ناتے اس تک رسائی بھی قدرے دشوار تھی۔ لیکن یہ ساری مشکلات عام آدمی کے لیے تھیں جب کہ فرینک سرور کا معاملہ اور تھا۔ وہ بلا ناغہ ان تینوں اسٹیشنوں کی حدود میں گشت چیک کرنے کی غرض سے زیادہ تر دن اور حیران کن طور پر کبھی کبھی رات کے کسی نہ کسی حصے میں بھی پہنچ جاتا۔

سٹولک کے قصبے سے جنوب کو جاتی ہوئی دونوں سڑکوں پر چونکہ نسلی سرحد واقع تھی، یہاں مقامی کروایٹ پولیس کے دو دو سپاہی ہر وقت موجود رہتے تھے لہٰذا یہ غیر قانونی ناکہ بندی فرینک سرور کی توجہ کا خصوصی مرکز تھی۔ اس کے خاتمے میں مسلسل ناکامی پر سٹولک کا سٹاف اس کی تنقید کا اکثر نشانہ بنتا تھا۔ اس حوالے سے معاہدۂ امن کے تحت قانونی پوزیشن یہ تھی کہ اس مقام پر ناکہ بندی قطعی طور پر غیر قانونی تھی لیکن کروایٹ پولیس اس حوالے سے تعاون کرنے پر ہر گز آمادہ نہ تھی۔

اس بارے میں مزید قانونی تفصیل کچھ یوں تھی کہ ایسی صورت میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ اس مقام پر موجود پولیس کو زبانی انتباہ کرنا تھا۔ اگر وہ وہاں سے ہٹنے پر آمادہ نہ ہو تو اسے زبردستی ہٹانے کے لیے IFOR (فوج) کی مدد طلب کی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ ایک ایسا قدم تھا جس کو عملی طور پر اٹھانے سے گریز ہی کیا جاتا تھا تا کہ مقامی پولیس کے ساتھ تعلقات کشیدگی اختیار نہ کریں۔

ادھر فرینک سرور کی چڑچڑاہٹ میں ان ناکہ بندیوں کی وجہ سے روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا۔ اس صورت حال کا حل اقبال نے یہ نکالا کہ جوں ہی وائر لیس کے ذریعے فرینک سرور کی سٹولک کی جانب آمد کی بھنک پڑتی تو فوراً نسلی سرحد پر پہنچ کر کروایٹ سپاہیوں سے درخواست کی جاتی کہ وہ برائے مہربانی کوئی آدھ گھنٹہ کے لیے یہ جگہ چھوڑ دیں کیوں کہ معاملہ عزت، بے عزتی کا ہے۔ شروع شروع میں تو کروایٹ پولیس کو اس درخواست کا مفہوم سمجھانے میں ذرا محنت کرنا پڑی لیکن بعد میں جب وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے تو پھر زبانی درخواست کے بجائے دور سے اشارہ ہی کافی ہوتا تھا اور کروایٹ پولیس کے سپاہی جذبۂ خیر سگالی کے اظہار میں ذرا تاخیر نہ کرتے تھے۔

فرنچ مافیا کی آمد کے کچھ ہی عرصہ بعد ہمارے سٹاف میں دو جرمن مانیٹروں کا اضافہ ہوا۔ یہ مائیکل اور ڈورنگ تھے۔ مائیکل غیر شادی شدہ تھا اور نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ غصیلا بھی واقع ہوا تھا۔ ڈورنگ بے ڈھب اور موٹا سا تھا۔ وہ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے کا پولیس افسر تھا۔ عمر کوئی تیس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ شادی شدہ تھا اور ایک بچی کا باپ تھا۔ ڈیوٹی کے حوالے سے مائیکل کا حال فرانسیسیوں والا ہی تھا جب کہ ڈورنگ کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔

وہ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ ڈیوٹی سر انجام دیتا تھا۔ رات کی ڈیوٹی کے دوران تمام افسر بشمول ڈیوٹی افسر پچھلے پہر سو جایا کرتے تھے جبکہ ڈورنگ رات بھر کمپیوٹر کے سامنے اکڑوں بیٹھا کوئی نہ کوئی کھیل کھیلتا رہتا اور صبح تک جاگتا رہتا۔ اقبال کہا کرتا تھا کہ ڈورنگ جیسے دو چار مانیٹر اگر سٹولک اسٹیشن میں آ گئے تو پھر اسٹیشن کا ماحول خراب ہونے کا قوی امکان ہے۔

دوسری طرف سٹولک میں نوکری اب ویسی آسان بھی نہ رہی تھی۔ مسلمانوں کا تقریباً 40 افراد پر مشتمل قافلہ جو روزانہ مشرقی موسطار سے UNHCR کے نمائندوں کی معیت میں سٹولک کے قدیم محلہ ازونووچی میں دوبارہ آبادکاری کی غرض سے اپنے گھروں کی تعمیر نو کے لیے آیا کرتا تھا، وہ اب فرینک سرور کی کوششوں سے زیادہ باقاعدگی کے ساتھ آنے لگا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہماری ذمہ داری یہ تھی کہ سٹولک اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے ہی ان کی بس اور سامان سے لدے ہوئے ٹرک کو اسکارٹ کر کے قصبے تک لانا اور پھر دن بھر محلہ ازونووچی میں موجود رہنا۔

یہ موجودگی اس خطرے کی پیش بندی کے طور پر لازمی تھی جو مسلمان مقامی کروایٹ آبادی سے محسوس کرتے تھے۔ اس ڈیوٹی میں اگر کوتاہی کی کوئی گنجائش تھی تو بس اتنی کہ محلہ ازونووچی سے کچھ فاصلے پر واقع قصبے کے مرکزی چوراہے تک جا کر کافی یا جوس پی لیا جائے۔ یوں اس کافرہ کا دیدار بھی کر لیا جائے کہ جس کی اسی چوراہے میں پھولوں کی دکان تھی اور جسے دیکھ کر ہر بار بس یہ شعر یاد آتا تھا۔

ٹوٹے ہوئے مکاں ہیں مگر چاند سے مکیں
اس شہر آرزو میں اک ایسی گلی بھی ہے

کافی اور جوس کے بہانے اس سراپا چمن کی خاطر ایسی کوتاہی، فرینک سرور کی اچانک نموداری کا خوف ہوتے ہوئے بھی، دو چار مرتبہ ہر حال میں کی جاتی تھی۔ مقامی آبادی جس میں کروایٹ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی مسلمانوں کی آبادکاری کے پروگرام کو قصبے کے امن کے لیے نیٹو کی ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیتی تھی۔

سٹولک کے مرکزی چوراہے سے کچھ فاصلے پر خواتین حجاموں کی دو جڑواں دکانیں تھیں۔ ان میں سے ایک دکان ایک بوڑھی خاتون کی تھی جس کا IPTF کا پہلا گاہک شیوا تھا۔ اور اس نے ہمیں بھی اس خاتون سے متعارف کروایا تھا۔ شیوا جب بھی ہمارے کسی نئے ساتھی کو اس دکان پر لے جاتا تو خاتون نئے گاہک سے جو پہلی بات کرتی وہ یہ ہوتی تھی کہ سٹولک میں شیوا پہلا غیر ملکی تھا جس کے میں نے بال کاٹے اور یہی پہلا غیر ملکی تھا جو مسلمانوں کے قافلے کو اس قصبے میں سب سے پہلے اسکارٹ کر کے لایا۔

یہ خاتون عجیب و غریب مزاج کی مالک تھی۔ شیوا کی سفارش پر جب میں پہلی مرتبہ اس کے پاس بال کٹوانے کی غرض سے گیا تو اپنی ترجمان لیپا کو بھی احتیاطاً اپنے ساتھ لے گیا۔ لیپا کی معرفت خاتون کو کوئی دس منٹ تک ہدایات دیں کہ میں کس انداز کی بال تراشی کا خواہش مند ہوں۔ خاتون نہایت توجہ اور انہماک سے یہ ہدایات سنتی رہی۔ اس کے بعد جب اس نے بال تراشنے شروع کیے تو اس کی کارکردگی اس بات کا کھلا ثبوت تھی کہ موصوفہ نے میری تقریر اور لیپا کی ترجمانی کا مدعا پانے کی کوئی خاص تو کیا عام زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی۔

سو اس تجربے کے بعد ہمارا انتخاب اس کے ہم سائے والی دکان ٹھہری۔ بالوں کی تراش کا معیار اگرچہ یہاں بھی کچھ ایسا مختلف نہ تھا لیکن بوڑھی خاتون کی نسبت اس نوجوان حجام کی بے نیازی کچھ زیادہ نہ کھٹکتی تھی۔ اول الذکر بوڑھی حجام خاتون کے کچھ اور قصے بھی خلقت شہر کے ہاں مشہور تھے۔ وہ ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا پیشہ کسی دور میں بھی ذریعہ عزت نہیں سمجھا گیا تھا۔ اس نے یہ کسب اپنی خواہش پر اپنایا تھا۔ لیکن میؔر کی طرح کوئی ایسی خلش پھر بھی نہ تھی۔

ع۔ پچھتائے میر ہم بہت اس کام کو کر کے

وہ ایک بڑے گھر کی مالکن تھی جس کا ایک حصہ کرائے پر اٹھانے کے لیے خالی رہتا تھا۔ سٹولک میں رہائش کی سہولیات کافی محدود تھیں۔ یہ ذمہ داری مقامی ترجمان لوینیا کی تھی کہ وہ خالی گھروں کی خبر رکھے اور بوقت ضرورت انھیں نئے مانیٹروں کے لیے کرائے پر حاصل کرے۔ سٹولک کے تمام مالکان مکانات میں سے یہ خاتون واحد مالک مکان تھیں کہ وہ سوائے کسی جرمن مانیٹر کے اور کسی ملک سے تعلق رکھنے والے مانیٹر کو اپنا گھر کرائے پر دینے کو کسی طور رضا مند نہ ہوتی تھیں۔

شاید اس انتہا پسندی کا محرک جرمنوں کے لیے اظہار تشکر تھا کہ جنہوں نے کروایشیا کی آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا یا پھر ذاتی زندگی کا کوئی ایسا خوش گوار تجربہ کہ جس نے جرمنوں کو اس قدر محبوب بنا دیا تھا۔ ہمارے اندازوں کے بر خلاف اس خاتون کا یہ خبط اس وقت بھی متزلزل نہ ہوا جب مائیکل اور ڈورنگ کے جانے کے بعد ان کے متبادل جرمن مانیٹر تین ماہ بعد آئے یوں اس دوران خاتون کا مکان خالی پڑا رہا۔ اس رویے کو خبط کہے بغیر بات اس لیے نہ بنتی تھی کہ خاتون کے مکان کا کرایہ چار سو ڈالر ماہانہ تھا اور یہ اتنی معقول رقم تھی کہ اس میں پانچ افراد پر مشتمل خاندان اپنا ماہانہ بجٹ کھلے ڈلے انداز میں مرتب کر سکتا تھا۔

ع۔ تعجب سے وہ بولے، یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments