تبلیغی جماعت کا منہج تبلیغ اور تعلیمات نبویﷺ


ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں تبلیغی جماعت کا لفظ اب ناآشنا نہیں رہا، اور اس لفظ کے سنتے ہی ذہن کی توجہ اس خاص جماعت کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے جو ایک مخصوص وضع قطع اختیار کیے، ہمارے گلی محلوں میں گشت کی صورت میں اسلام کی دعوت دیتی نظر آتی ہے۔ اس جماعت کی بنیاد تقسیم ہندوستان سے قبل دہلی میں رکھی گئی اور مولانا محمد الیاس کاندھلوی اس کے بانی اور روح رواں تھے۔ اس جماعت کا حقیقی مقصد کیا تھا اور کس نیت سے قائم کی گئی تھی، اس کی طرف رہنمائی مولانا الیاس کاندھلوی کے خطوط سے ملتی ہے، جس میں ایک خط کے اندر انہوں نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ جماعت کے ذریعے وہ افراد تیار کیے جائیں گے، جو جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے اس ملک کی آزادی کے لئے انگریز کے خلاف جدوجہد کریں گے۔ تاہم جماعت اس نظریے کے ساتھ وابستہ نہ رہ سکی اور تدریجا سیاسی میدان سے ہٹ کر محض عبادات تک اپنے آپ کو محدود کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو گئی جو آج تک قائم ہے۔

اس جماعت سے وابستہ افراد اور محبین اس بات کے اندر رطب باللسان رہتے ہیں کہ ہماری جماعت تمام طبقات کے لئے قابل قبول اور صلح کل کی جس پالیسی پہ گامزن ہے، اس کی وجہ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں میں انقلاب آیا اور آج وہ غفلت اور لہو و لعب ترک کر کے، تقویٰ اور خشیت الی اللہ والی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر کیا محض اتنی سی تبدیلی سے معاشرے کے مسائل حل ہوئے ہیں، اور ایک عام شخص کی زندگی کا معیار کیا بہتر ہوا ہے؟

کیا جماعت کا سیاست سے علانیہ لاتعلق، ، تعلیمات نبویﷺ سے مطابقت رکھتا ہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جس کی طرف جماعت کی توجہ اگر دلائی جائے، تو اس کے اراکین ناراض ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت کے اراکین یہ بات بھی بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ جماعت آج تک کسی حکمران کی قصیدہ گوئی کی مرتکب نہیں ہوئی، لہذا ہمارے اوپر درباری ملا کا لیبل چسپاں کرنا درست نہیں ہے۔

ہم اس کے لئے ایک مثال سمجھتے ہیں کہ فرض کیجیے کہ کسی گاؤں کا وڈیرہ، ایک شخص پر بلاوجہ ظلم کر رہا ہو، اور اس گاؤں کا امام مسجد اس کے پاس سے چپکے سے گزر جائے اور بعد میں یہ کہتا پھرے کہ میں نے آج تک وڈیرے کے در پر جبیں نہیں جھکائی تو کیا وہ سچ بول رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ مظلوم کا ساتھ نہ دینا اور ظالم کے ظلم پر آواز نہ اٹھانا، قصیدہ گوئی اگر نہیں ہے تو پھر قصیدہ گوئی کس چیز کا نام ہے؟ اس ملک میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، جو تعلیم یافتہ ہیں وہ میرٹ نہ ہونے کے باعث بے روزگار ہیں، مظلوم کو عدالت سے انصاف نہیں مل پا رہا، ملک کی اسٹیبلشمنٹ اس ملک کے آئین کے ساتھ جب چاہتی ہے کھلواڑ کر کے اس کو معطل کر دیتی ہے، اس ملک کی معیشت جب بھی ترقی کرنے کی جناب چلتی ہے، اس نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ یہاں حقدار کو حق نہیں ملتا اور دولت مند طبقہ ملک کے وسائل دھڑا دھڑ لوٹ کر جیبیں گرم کر رہا ہے، لیکن کبھی جماعت کے پلیٹ فارم سے اس چیز کے اوپر آواز نہیں اٹھائی گئی۔ تو ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جماعت مظلوم کے حق میں آواز نہیں اٹھا رہی، تو کیا یہ حکمرانوں کی مدح سرائی نہیں ہے؟

جماعت التبلیغ نے جو صلح کل پالیسی اپنا کے، ہر فرد کے لیے داخلہ کھول رکھا ہے، کیا جماعت کے اندر ان افراد کے کوائف بھی اکٹھے کرنے کا کوئی انتظام موجود ہے؟ کیا محض جماعت میں آ جانے اور وقت لگا لینے سے، اس شخص نے جو اس ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا، اس کی معیشت کو برباد کیا، اس ملک کے عوام کے وسائل پر ڈاکا مار کر اپنی جیبیں بھریں، اپنی سات نسلوں کا مستقبل سنوارت سنوارتے، اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا، کیا یہ سب افعال سیاہ دھل جاتے ہیں؟ کیا جماعت کبھی ان افراد سے اس بابت باز پرس کرے گی؟ اگر نہیں تو پھر قصیدہ گوئی اور کسے کہتے ہیں؟

حضرت اسامہ بن زید سے حضورﷺ کو جو محبت تھی وہ سب کو معلوم ہے، مگر ایک جنگ میں جب ان سے ایک شخص قتل ہو گیا جو کلمہ پڑھ چکا تھا، تو نبیﷺ سے حضرت اسامہ کے اس فعل سے صاف صاف برات کا اظہار کیا کہ اللہ! میں اسامہ کے اس فعل سے بری ہوں۔ یہی بات حضرت خالد بن ولید کے بارے میں بھی کی جب ان سے یمن میں اسی طرح کا فعل سرزد ہو گیا تھا۔ گویا اسلام کا منہج نبویﷺ تو یہ ہے کہ مظلوم چاہے کوئی بھی ہو، اس کی علی الاعلان حمایت کی جائے اور ظالم کی سرعام مذمت، مگر اس کے برعکس جماعت کے ہاں صلح کل کی پالیسی نہ جانے تعلیمات نبوی ﷺ کے کس دور سے تعلق رکھتی ہیں، یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔

جماعت التبلیغ جس انداز میں دعوت کا کام کر رہی ہے، ہمیں اس دعوت سے اختلاف نہیں ہے، مگر اپنے نظریات کے اندر سیاست، معیشت، سماجیات اور دیگر معاشرتی عوامل کو بالکلیہ ترک کر کے، محض عبادات کی تلقین سے افراد کو ہم عبادت گزار تو بنا لیں گے، مگر معاشرے میں مظلوم پھر بھی مظلوم ہی رہے گا، اس کی دادرسی نہیں ہو پائے گی۔ نظام معیشت چند سرمایہ داروں کی ابرو اشارہ کا محتاج رہے گا، نظام انصاف امراء کے گھر کی لونڈی رہے گی، تعلیم پہ دولت مند افراد کا حق ہی رہے گا، سیاست کے میدان میں صرف پیسے والا ہی آ سکے گا اور غریب صرف حسرت بھری نگاہ سے آسمان کی جانب تکتا تکتا یونہی نامراد مر جائے گا۔

لہذا جماعت کے سرکردہ افراد سے ملتمس ہوں کہ خدارا! اس روش کو ترک کر کے، اس ملک کے مسائل کے اوپر آواز اٹھائیے، ظالم کا ہاتھ اگر روک نہیں سکتے تو آواز تو اٹھائیے۔ اپنی جماعت میں موجود آمر، آئین شکن اور ملک کے غداروں کو نکالیے۔ اس ڈر سے کہ پھر ہمارے اوپر پابندیاں لگیں گی، اور معاشرہ نفرت کرے گا، لہذا صلح کل پالیسی اپنائی جائے یہ نظریہ رہبانیت کا نظریہ ہے اور رہبانیت اسلام میں حرام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments