میاں صاحب واپس آئیں اور جیل جائیں


پاکستان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس اعلان کے بعد سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو انتخابات پر مجبور کریں گے۔ اس کے علاوہ فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد اب کھل کر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے سیاسی کردار کے بارے میں گفتگو کی جا رہی ہے۔ کالم نگاروں کے علاوہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ نے بھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے جنرل باجوہ کے کہنے پر ہی پی ڈی ایم کی بجائے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کی پالیسی غیر واضح اور گومگو کا شکار ہے۔

ہفتہ عشرہ تک صوبائی اسمبلیوں میں تحریک عدم اعتماد لانے، گورنر راج نافذ کرنے یا کسی دوسرے طریقے سے عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے سے باز رکھنے کے امکانات کا جائزہ لینے کے بعد اب بتایا گیا ہے کہ لندن سے میاں نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ پنجاب میں پارٹی کی قیادت مل بیٹھے اور انتخابات میں ممکنہ امیدواروں کی فہرستیں تیار کی جائیں۔ وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف جنوری میں پاکستان واپس آرہے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف وطن واپس آ کر الیکشن لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیں گے۔

ملکی سیاست میں ابھی تک عمران خان جارحانہ حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں اور حکمران جماعتیں اسی راستے پر چلنے کی تیاری کرتی ہیں جس طرف عمران خان اشارہ کرتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کروانے کا اعلان بھی تحریک انصاف کے چیئرمین نے 26 کو راولپنڈی میں ’حقیقی آزادی مارچ‘ کے خاتمہ پر کیا تھا۔ تحریک انصاف چونکہ ان دنوں صوبوں میں حکمران ہے لہذا وہ کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو نئے انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں۔

عمران خان کے لئے نئے انتخابات کا نعرہ دو وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو انہیں لگتا ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ کی مہم جوئی کے بعد انہوں نے عوام تک اتنی رسائی حاصل کرلی ہے کہ انتخابات میں انہیں واضح اکثریت مل جائے گی۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان آرمی چیف کی تقرری پر اثرانداز ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی لانگ مارچ کی صورت میں کوئی متاثر کن عوامی طاقت کا مظاہرہ کرسکے ۔ ان حالات میں اب ان کے پاس نئے انتخابات کے علاوہ سیاسی طور سے محفوظ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر وہ اس نعرے سے بھی دست بردار ہوجائیں تو انہیں سیاسی حکمت عملی میں حکومت کا زیر نگین ہونا پڑے گا اور وہ انتخابات کے لئے حکومت کی مقرر کردہ ٹائم لائن پر عمل کرنے کے پابند ہوں۔

یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس دوران سیاسی نعرے بازی کے ذریعے وہ عوام کو مسلسل اپنے حلقہ اثر میں رکھ سکتے ہیں اور ملک میں مہنگائی اور بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کی طرف نشان دہی کر کے موجودہ حکومت کی نااہلی اور ناکامی کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ کہنا جتنا آسان ہے، عملی طور سے اس پر عمل اتنا سہل نہیں ہوگا۔ اوّل تو فوجی کمان میں تبدیلی اور نئی فوجی قیادت کی نئی پالیسی کی وجہ سے اب عمران خان کے لئے براہ راست فوج کو فریق بنا کر نعرے بازی کرنا اور عوام کو متاثر کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

دوسرے غیرملکی سازش یا موجودہ حکومت کو فوج کی درپردہ امداد کے نعرے بھی اب ناکارہ ہو چکے ہیں جنہیں جنرل باجوہ کی رخصتی کے بعد استعمال کرنا سود مند نہیں رہا۔ تحریک انصاف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی سیاسی چال بازیوں کو سیاسی طور سے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ہتھکنڈا زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ مونس الہیٰ اور پرویز الہیٰ ’حلیف‘ ہونے کے باوجود بنفس نفیس جنرل باجوہ کی حمایت میں میدان میں کود پڑے ہیں۔

عمران خان پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود صوبے میں اپنی سیاسی صورت گری کے لئے پرویز الہیٰ کے دست نگر ہیں۔ انہیں یہ تعاون اسمبلیاں توڑنے کے لئے بھی درکار ہے اور اگر اسمبلیاں نہ توڑنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو حلقوں میں اپنے امیدواروں کی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے بھی انہیں وزیر اعلیٰ کی امداد چاہئے ہوگی۔ پرویز الہیٰ تو پہلے ہی عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئندہ انتخاب جیتنے کے لئے تحریک انصاف کو اگلے سال کا بجٹ پیش کرنے تک پنجاب حکومت پر قابض رہنا چاہئے۔

جنرل باجوہ کے حوالے سے پرویز الہیٰ کے دو ٹوک اور عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کے برعکس مؤقف کے باوجود انہی مجبوریوں کی وجہ سے عمران خان، ان کے خلاف کوئی مؤثر قدم اٹھانے سے معذور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز الہیٰ نے آج عمران خان کو بتائے بغیر صوبائی کابینہ میں توسیع بھی کرلی اور تحریک انصاف کے لیڈر نئے وزیر سے ناراضی کا اظہار کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔

نئی سیاسی صورت حال میں تحریک انصاف پر ملکی معیشت کے حوالے سے بھی دباؤ ہے۔ یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ سیاسی بے یقینی جاری رہنے کی صورت میں ملکی معیشت کے بارے میں نہ تو کوئی اہم فیصلے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی سرمایہ کاروں کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ مالی معاملات اس حد تک دگرگوں ہیں کہ ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کی خواہاں کوئی بھی پارٹی حالات کی تمام ذمہ داری حکومت کے کاندھوں پر ڈال کر خود انہیں خراب کرنے میں مصروف نہیں رہ سکتی۔

اب جلد ہی یا تو اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور یا عمران خان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اس فیصلے کو بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ اس دوران حکومت کے ساتھ تحریک انصاف کے بالواسطہ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے لیکن ان میں کوئی ایسی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی جس سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دونوں مطمئن ہو سکیں۔ حکومت جلد انتخابات پر راضی نہیں ہے اور اس سے کم پر کوئی سیاسی مفاہمت کرلینا سیاسی طور سے عمران خان کے لئے مشکل ہوگا۔

ان پیچیدہ سیاسی حالات میں کوئی نیا راستہ نکالنے اور سیاسی تعطل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف اگرچہ اب تک بے یقینی پیدا کر کے اس سے سیاسی فائدہ اٹھاتی رہی ہے لیکن اب یہ حکمت عملی جاری رکھنا مشکل ہوتا جائے گا۔ البتہ حکمران مسلم لیگ (ن) ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہے۔ ایک تو شہباز شریف قومی معیشت کو تعطل سے نکالنے کا نعرہ لگاتے ہوئے وزیر اعظم بنے تھے لیکن آٹھ نو ماہ گزرنے کے باوجود وہ اس حوالے سے کوئی متاثر کن پیش رفت سامنے نہیں لا سکے۔

تین ماہ پہلے مفتاح اسماعیل کی بجائے اسحاق دار کو لندن سے بلا کر وزیر خزانہ بنایا گیا تھا اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ان کی قیادت میں آئی ایم ایف سے موافقانہ معاہدہ ہو جائے گا اور اپنے تجربہ کی بنا پر وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ کر سکیں گے۔ معروضی معاشی حالات میں اسحاق ڈار ان دونوں معاملات میں ناکام رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کے ہوتے کم از کم یہ تو دکھائی دے رہا تھا کہ حکومت کس معاشی لائحہ عمل پر کام کر رہی ہے۔

اسحاق ڈار کے دور میں تو یہی معلوم نہیں کہ قرضوں کی ادائیگی، قومی مالی خسارہ پر کنٹرول، پیداواری صلاحیت میں اضافے اور دیگر مالی پہلوؤں سے نمٹنے کے لئے کون سی مختصر المدت اور طویل المدت پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ ان کی زبان پر تو بس یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ ’سب ٹھیک ہو جائے گا ، ہم آئی ایم ایف کے سامنے نہیں جھکیں گے اور مجھے اپنے لوگوں کا فائدہ دیکھنا ہے‘۔ مگر ان کے پاس اس سوال کو کوئی جواب نہیں ہے معدوم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور قرضوں کی مخدوش صورت حال میں کب تک ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

ملکی سیاسی بحران کو معاشی مسائل کی کنجی سمجھتے ہوئے ہی شاید اسحاق ڈار آج کل ایوان صدر کے زیادہ پھیرے لگا رہے ہیں اور صدر مملکت بھی ان کی مفاہمانہ صلاحیتوں کے معترف دکھائی دینے لگے ہیں۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان کی یہ کوششیں کیسے معاشی معاملات پر مثبت طور سے اثر انداز ہوں گی۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے حقیقی قائد نواز شریف کو اگر پاکستان میں سیاست کرنا ہے تو اب لندن سے بھیجے جانے والے پیغامات اور ایلچی کام نہیں آسکتے ۔ ملکی سیاست میں توازن پیدا کرنے کے لئے انہیں خود پاکستان آنا چاہئے تاکہ وہ متعدد مقدمات میں اپنا نام کلئیر کروانے کے علاوہ پارٹی کی قیادت بھی کرسکیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مقامی لیڈر اور کارکن اپنے قائد کے ’جلا وطن‘ ہونے کی وجہ سے شدید مایوسی اور پریشانی کا شکار ہیں۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ نواز شریف ہی ایک ایسے لیڈر ہیں جو عمران خان کو سیاسی طور سے چیلنج کر سکتے ہیں۔ البتہ اس کے لئے انہیں بہر حال پاکستان میں ہونا چاہئے۔ وہ اگر عدالت سے ریلیف لئے بغیر پاکستان واپس آتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ انہیں دوبارہ جیل جانا پڑے لیکن پاکستانی سیاست کے نباض ہونے کے طور پر انہیں اندازہ ہوگا کہ اب حالات مختلف ہیں۔ مرکز میں ان کے بھائی کی حکومت ہے اور تبدیل شدہ صورت حال میں عدالتیں بھی جھوٹے شواہد کی بنیاد پر انہیں غیر معینہ مدت کے لئے جیل میں بند نہیں رکھ سکتیں۔ اس کے باوجود اگر عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک انہیں چند ہفتے جیل میں گزارنے بھی پڑتے ہیں تو اس سے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوگا ۔ اپنے اس فیصلے کو وہ ملکی قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کے رویہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

نواز شریف تین سال قبل جب ایک خاص انتظام کے تحت لندن روانہ ہوئے تھے تو ملکی حالات کی نوعیت مختلف تھی۔ ’عمران پراجیکٹ‘ کو کامیاب کروانے کے لئے باجوہ اینڈ کمپنی ہر جائز و ناجائز حربہ آزمانے پر ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ عمران خان کی حکومت نواز شریف کو اذیت پہنچانے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔ ملکی نظام میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی روشنی میں نواز شریف کے لئے اپنی جان بچانے کا حیلہ کرنا جائز سیاسی طرز عمل تھا۔ تاہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور فوجی قیادت میں تبدیلی کے بعد حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں محض جیل جانے کے خوف سے پاکستان آنے سے گریز نواز شریف کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث ہوگا۔

نواز شریف کو اگر قومی سیاست میں بدستور ایک قابل احترام لیڈر کا کردار ادا کرنا ہے تو انہیں واپس آنا چاہئے خواہ اس کی قیمت جیل جاکر ہی چکانا پڑے۔ یا پھر وہ سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کریں اور زندگی کے باقی ماندہ دن آرام و سکون سے لندن یا جہاں چاہیں گزاریں۔ اس صورت میں وہ بلا کم و کاست اپنی آپ بیتی بھی قلم بند کر سکتے ہیں۔ اس سے ملک کی نوجوان نسل کی رہنمائی تو شاید نہ ہو لیکن پس پردہ کرداروں کی من مانیوں کا پردہ ضرور فاش ہوگا۔ نئی نئی غیر سیاسی ہونے والی فوجی قیادت کو بھی یہ احساس ہو سکے گا کہ اگر سیاسی بساط پر مہرے چلنے کی پرانی روش تبدیل نہ کی گئی تو کوئی نہ کوئی لیڈر، وردی کی طاقت پر سیاست کرنے والوں کا اصل چہرہ ضرور عوام کے سامنے لائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments