کیا ایسے ویسے اسکینڈلز صرف سیاستدانوں ہی کے ہوتے ہیں؟


سقوط ڈھاکہ کے ایک بڑے ذمے دار کا نام جنرل یحیی ہے۔ اس کی رنگین مزاجی اور شراب نوشی کے قصے جنرل (ر) مشرف سے کسی طور بھی کم نہ تھے۔ اپنے دور کی ہر بدنام ترین عورت سے اس کے مراسم کی کہانیاں عام طور ہر کہی جاتی ہیں، بلکہ اس ضمن میں ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہوا کہ ممتاز اداکارہ ترانہ ان سے ملنے گئیں تو صدر کے گارڈز نے گیٹ ہر روک لیا

ترانہ نے کہا

”اندر صدر صاحب کو بتاؤ کہ ترانہ آئی ہے“ ۔

گارڈز نے اندر اطلاع کی تو فوراً بلا لیا گیا اور کافی وقت گزار کر ترانہ باہر نکلی تو انہیں گارڈز نے اسے سیلیوٹ دے مارا۔ ترانہ نے حیرت سے اس کایا پلٹ کی وجہ دریافت کی تو ایک گارڈ نے کہا

”پہلے آپ ترانہ تھیں لیکن اب آپ قومی ترانہ“ بن چکی ہیں، اس لیے آپ کا احترام ہم ہر واجب ہو گیا ہے ”

صدر جنرل ایوب جب ایک غیر ملکی دورے پر گئے تو وہاں سب عالمی رہنماؤں کو ایک سوئمنگ پول میں تیراکی کی دعوت دی گئی۔ صدر ایوب بھی تیراکی کا لباس پہن کر پول میں اتر گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد پول میں موجود ایک خوبصورت حسینہ کرسٹائن کیلر نے شور مچا دیا کہ ”اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان نے نیچے پانی میں جاکر میری ٹانگ پکڑی ہے“

کہتے ہیں کہ صدر ایوب کی اس ”حرکت“ کی وجہ سے ”روزنامہ نوائے وقت“ نے اپنے اداریہ میں ”صدر عیوب“ لکھ دیا تھا اور صدر ایوب نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اس اخبار کی سرکاری دفاتر میں خرید پر پابندی لگادی تھی۔

جنرل ضیا الحق کو عام طور پر مرد مومن مرد حق کے تناظر میں ایک پرہیزگار، متقی اور سادھو سنت کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے لیکن ان کے بارے مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ موصوف کو ولایت کی نیلی پیلی فلموں کا کریز تھا اور ایسی فلمیں جہاں بھی پکڑی جاتیں تو موصوف کا حکم تھا کہ ان تک بغیر کسی وقفے کے پہنچا دی جائیں۔ وہ اپنی نجی محفلوں میں اکثر خالص اور ٹھیٹھ جالندھری پنجابی میں کہا کرتے تھے کہ

”رناں تے بس ولایت دیاں ای ہوندیاں نیں“

جنرل مشرف کی رنگین مزاجی سب کو معلوم ہے۔ موصوف شراب کا گلاس سر پر رکھ کر ڈانس کیا کرتے تھے اور ڈاکٹر قدیر ان کے بارے خاصا دلچسپ واقعہ بھی سناتے دیکھے گئے کہ ”طالب علمی کے دور میں موصوف کا ایک “سکھیرا“ نام کا کوئی دوست انہیں فلم دکھانے کے بہانے رات رات بھر ساتھ لے جایا کرتا تھا ”

ان کے دور حکومت میں ملک کی ایک مشہور مغنیہ کی خوبصورت بیٹی ان سے اکثر ملا جلا اور گھلا ملا کرتی تھی۔

موصوفہ کی والدہ کی جنرل یحیی سے ”خاص محافل“ میں ملاقاتوں کی کہانیاں بھی زبان زدعام رہ چکیں۔ ایک تصویر میں مذکورہ مغنیہ یحیی خان کے ساتھ شراب کا گلاس لیے بیٹھی ہیں، (یہ تصویر خاکسار کے پاس موجود ہے-)

کہا جاتا ہے کہ جب ممتاز مغنیہ کا انتقال ہوا تو خوبصورت بیٹی، جو کہ خود بھی کمال کی گائیکہ تھیں نے مشرف سے کہا کہ ”ماں کی قومی خدمات کے کارن انہیں قومی پرچم میں لپیٹ کر اور قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا جائے“

کہتے ہیں کہ مشرف راضی بھی ہو گئے تھے لیکن ایم ایم اے کی ناراضی اور دیگر چند عوامل کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا تھا۔ مشرف سے اس مغنیہ کی بیٹی کے علاوہ کراچی کی چند نامور اداکارائیں بھی اکثر و بیشتر ملاقاتیں کرتی دیکھی جاتی رہیں۔ کالم نگار جاوید چودھری کے مطابق مشرف ”نیک دل اور سخی داتا“ ٹائپ انسان تھے۔ ایک بار ایک خوبصورت خاتون سیاستدان ان کے پاس آ کر اپنے دکھڑے سناتے ہوئے رو پڑیں۔ مشرف نے اس کے معصوم چہرے پر آنسوؤں کی برسات دیکھی تو ترس کھا کر نوٹوں سے بھرا ایک بڑا سا لفافہ منگوا کر انہیں پکڑا دیا اور وہ دکھیاری وہاں سے بغیر گنے لفافہ لے کر اٹھ گئیں۔ واقفان حال و ماضی کے مطابق اس میں لاکھوں روپے تھے۔ رانی مکرجی کے فین سابق آمر کو ڈانس کا بے حد شوق تھا تو ڈھولکی اور ہارمونیم سے بھی کمال رغبت تھی لیکن خود کو ”سید“ کہلوانے پر مصر رہتے تھے (اس پر عطا الحق قاسمی کا ایک لطیفہ یاد آ جاتا ہے کہ ”مجھے کسی اور کے اصلی سید ہونے کا تو پتا نہیں لیکن اپنے ایک دوست سید نذر حسین شاہ کے اصلی سید ہونے کا پورا یقین ہے، کیونکہ وہ میرے سامنے“ سید ”ہوا تھا) ۔ سابق آمر کے دور میں اداکارہ شلپا سیٹھی اور نیہا دھوپیا بھی بہت پاکستان آیا کرتی تھیں۔ اس دور میں اسلام آباد میں ایک بڑے اعلی عہدیدار نے ہم جنس پرستی کا کلب بھی خفیہ طور پر بنایا تھا اور وفاقی دارالحکومت کی ایک لیڈی ڈاکٹر نے اپنے گھر میں لیزبین یعنی عورتوں میں ہم جنس پرستی کے لئے بڑے منظم طریقوں سے کام شروع کیا ہوا تھا اور اس کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔

اسی آمر کے دور میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے زیراہتمام پاکستان میں موجود ہم جنس پرستوں کے حوالے سے ایک اہم ترین کانفرنس سی بھی ہوئی تھی۔ جس میں کچھ نامی گرامی شخصیات کی شرکت بھی سامنے آئی تھی۔

سابق آمر کے دور میں ہم جنس پرستی پر نہ صرف ڈاکیومنٹریز بنیں اور ان میں نامور ٹی وی فی میل سٹار نے کام کیا اور اس کی ہدایت کاری بھی ایک ممتاز ٹیکنوکریٹ نما سیاستدان کی فلم و ڈرامہ ڈائریکٹر بیوی نے کی تھی۔ ذرائع کے مطابق بظاہر یہ فلم غیر ملکی سفارت خانوں تک ہی پہنچائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ بعد میں اس ڈاکیومنٹری کی ہیروئن ممتاز اداکارہ نے ٹی وی کے ایک پروگرام ”سنڈے برنچ“ میں تسلیم کیا کہ ”میں نے کچھ ایسے پراجیکٹس پر کام کیا ہوا ہے جو یہاں بتانا مناسب نہ ہے“

اس آمر کے دور میں جب مشہور “گوہر صفت” اداکارہ کو ایک ائر پورٹ پر روکا گیا تو اس نے بڑے دبنگ انداز میں کہا

”میں جنرل _____ کی دوست ہوں“

یاد رہے کہ وہ جنرل سابق آمر کے سب سے قریب ہوا کرتے تھے اور ان کی پارٹی کا بھی اہم حصہ بنے تھے۔

اسی آمر کے دور میں لاہور کے ایک کمانڈر اداکارہ سلمی آغا اور شاہدہ منی کی ”صلح“ کرانے کی وجہ سے بھی شہرت عام و خاص پاتے دیکھے گئے تھے۔

بس یہی گزارش کہ یہ سنتھیائی حمام ہے پیارے اور اس میں بوالہوس تڑپتے رہے ہیں۔ تڑپتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments