نئی عالمی وبا اور ہماری لاعلمی


وقت گزرتا جا رہا ہے۔ فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لاہور شہر جو کبھی باغات اور پارکوں کا خوب صورت شہر ہوتا تھا اب وہاں اداسی نے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ یہاں کی سوندھی فضا خراب ہو چکی ہے۔ پھول اپنی خوشبو کھو چکے ہیں اور تاباں اور روشن چاند رات کو روشنی کے ساتھ اداسی کا پیغام بھی پھیلاتا ہے۔

میرا شہر ایسا کبھی نہیں تھا۔ کبھی یہاں جگنو چمکتے تھے۔ گوالمنڈی کی پیڑہ لسی کا وہ سواد کہیں کھو سا گیا ہے یا قلعے کے باہر جگمگاتی روشنیاں جن کے سنگ کتنے وجود خود کو ماضی کے اوراق میں دبے وہ بادشاہ تصور کرتے تھے جن کی سواری اور شور سے محل کانپ جاتا تھا، اب وہ روشنیاں بھی تاریکی کا لبادہ اوڑھ رہی ہیں۔ نہ شہر کی مٹھائیوں میں وہ سواد نہیں رہا اور نہ ہی ہریسے میں وہ لطف آتا ہے۔ چاندنی رات میں اب جان جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پارک کے کنارے واقع روشنی کے اونچے لیمپ جہاں بیٹھ کر کبھی ہم جہاں بھر کی باتیں کرتے تھے اور چائے اور کافی کے سنگ خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتے تھے، اب وہاں بھی وہ چاشنی ختم ہو گئی ہے۔

شہر لاہور اب اداسیوں کی زد میں ہے۔ یہاں سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ایسی آفت جس کی کثافت اور گندگی میں تن آلودہ ہو گئے اور سانسیں مہنگی ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے دل میں سوراخ کیا جا چکا ہے۔ کبھی دسمبر کی بھیگی رت میں گیس کے ہیٹر کو تھپڑ رسید کرتے ڈی وی ڈی پر پرانی فلمیں دیکھتے اور ڈرائی فروٹ کھاتے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم دنیا کی سب سے بہترین تفریح گاہ میں ہیں اور سردیوں کی عید میں سرکس میں ناچتے ان بندروں کو دیکھ کر دل خوشی سے دوچار ہوتا تھا اب وہ رونقیں وہ میلے سب کہیں کھو گئے ہیں۔

اعلان ہوا میرا شہر آلودگی میں پہلے نمبر پر آ گیا مگر شہر کو سزا سنانے سے پہلے قصور نہیں بتایا گیا۔ کہا گیا کہ لوگ سانسوں کو غنیمت جانیں اور ماسک کے بغیر نہ نکلیں۔ بچوں کا کہا گیا وہ گھروں میں ہی رہیں۔ کبھی میرے شہر کے بچے گلیوں میں ایک دوسرے کو گیند مارتے چھپتے اور اپنے بچپن اور معصومیت کو شہر میں ضم کرتے تھے مگر اعلان ہوا ہے کہ وہ گھروں تک محصور رہیں۔ بھلا میرے شہر کے بچوں کا کیا قصور تھا؟ ان کا بچپن کیوں چھین لیا گیا۔ ہماری طرح بچپن میں کہانی سنتے بچے اب ماؤں سے بالکل نہیں پوچھ سکتے ہیں کہ رات کو چھت پر نکلتا چاند اور تاروں کے جھرمٹ میں موجود اداس تارا کس کی نشانی ہے۔ ٹوٹے تارے کے ساتھ دل کا کیا تعلق ہے۔

میرے دیس کے دریا سوکھ گئے۔ ندیوں کی آنکھیں خشک ہو گئیں۔ بادل روٹھے ہوئے محبوب کی طرح اب نہیں برستے اور دسمبر میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مارچ یا اپریل کے موسم میں بیٹھے ہوں۔ آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ لاہور کو کس نے بچانا تھا؟ جب شہر خاموشی سے سب کو دان کر کے آلودگی کی چادر اوڑھ کر وینٹی لیٹر پر پڑا تھا تب کیوں کسی نے اس کی خبر نہیں لی۔ جب میرا شہر اپنے بچوں کی سانسوں کے لیے دنیا کی طرف دیکھ رہا تھا کیوں کسی کو محسوس نہیں ہوا کہ راوی کے کنارے واقع اس شہر کی حفاظت اس کو آباد کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔

دنیا بھر کے ممالک کے گرین ہاؤس گیسوں کا نتیجہ میرے ملک اور شہر نے بھگتا ہے مزید میرے شہر کے ٹھیکیداروں نے درخت کاٹ دیے، کھیت اجاڑ دیے۔ نت نئی سوسائٹریز بنا دیں اور شہر کی شہ رگ کاٹ دی۔ اب وہ اپنے بچوں سمیت چند روپوں کے عوض ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور یہاں کے لوگ سانس کے لیے عنقریب آکسیجن سلینڈر کی طرف دیکھنے والے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ تباہی کو روکا کیوں نہیں گیا؟ اور درد یہ ہے کہ ابھی بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ کنکریٹ کی دیواروں کو درختوں کی سوکن بنا کر آباد کیا گیا تو انہوں نے باسیوں سے سوتیلے پن کا سلوک کیا۔ بھلا کسی کو کیوں شہر کا درد تکلیف دے؟ ”شہر کی آلودگی ہنوز دلی دور است“ کی طرح ابھی تک کسی کا مسئلہ ہی نہیں بن رہی۔ منتظمین مزید سوسائٹریز کو آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ درختوں کی بولی لگ گئی مگر وہ جاتے جاتے آکسیجن لے گئے۔

وہ اپنا انتقام لے چکے۔ اب فضا مکدر ہے۔ چہرے پریشان ہیں۔ اٹکھیلیاں کرتے بچے نہیں جان پا رہے کہ وہ کس قیامت کا سامنا کرنے والے ہیں۔ ابھی بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو عنقریب یہاں کے باسی لوگ لمبی قطار میں آکسیجن سلینڈر کے لیے کھڑے ہوں گے۔ سانسیں مہنگی اور موت سستی ہو جائے گی اور لوگ ایک دوسرے سے چند سانسیں ادھار مانگ رہے ہوں گے۔ تب سانسوں پر بھی ٹیکس لگے گا۔ کیا اس عفریت کو ابھی تک محسوس نہیں کیا جا رہا۔ سموگ پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ماضی کی خطرناک وباؤں، چیچک، طاعون اور حالیہ کورونا سے زیادہ تباہی دنیا میں لے کر آئے گا اور اس وبا کا مرکز لاہور اور دہلی بنتے جا رہے ہیں۔

میرے بچوں کی معصومیت اور ان کو مستقبل میں اچھی کہانی سنانے والا کیا کوئی بچے گا؟ کیا ان کو کہانیاں آکسیجن ماسک پہن کر سنائی جائیں گی؟ کیا وہ سرشام گھروں میں مقید ہو کر بے زار زندگی کا مطالعہ کریں گے اور تب شاید وہ یہی سمجھیں گے کہ ٹوٹا تارا اس لیے ٹوٹا ہو گا کہ اسے اس دن آکسیجن نہیں ملی ہوگی۔ کاش اس سے پہلے ادراک ہو پائے۔ میرے شہر کے ہر امیر، غریب، حاکم اور ذمہ دار کو اس حقیقت کا ادراک ہو پائے اور میرا شہر اور ملک مزید تباہی سے بچ جائے۔ کاش اس مسئلے کو بھی مسئلہ سمجھ لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments