بہتری کی کوشش کریں


حال ہی میں مہینے بھر کا راشن خریدنے ڈیپارٹمنٹل سٹور جانا ہوا۔ خریداری ختم ہوئی تو کاؤنٹر والے صاحب نے پوچھا بیگ چاہیے، اب نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہزاروں کا سودا ہاتھ میں لے جائیں گے، سو کپڑے کا تھیلا خریدنا پڑا جو پچپن روپے کا تھا۔ افسوس اس وقت ہوا جب پیسوں سے خریدے گئے کپڑے کے تھیلے کے اوپر سٹور کا اشتہار دیکھا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ناصرف خریداری کے پیسے دیں بلکہ اشتہار دیکھنے کے بھی۔ یہ حال صرف ایک سٹور کا نہیں ہے بلکہ اور بہت سارے سپر سٹورز نے یہی لوٹ مار مچا رکھی ہے۔

کافی عرصہ پہلے اسلام آباد میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی لگائی گئی تھی، سوال یہ ہے کیا واقعی اس کا مقصد ماحول کی حفاظت تھا یا پھر مخصوص لوگوں کا فائدہ، کیونکہ پلاسٹک شاپنگ بیگز تو ابھی بھی زور و شور سے استعمال ہو رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بڑے بڑے سٹورز اشتہار والے بیگز فروخت کر کے اضافی کمائی میں مصروف ہیں۔ غور طلب بات ہے۔

کچھ دن پہلے گھر کے واش روم میں کموڈ کی ٹینکی سے پانی کی لیکیج شروع ہوئی تو ایک پلمبر کو بلانا پڑا، دیکھتے ہی اس پر بھروسا بھی قائم ہو گیا کیونکہ داڑھی کی وجہ سے وہ صاحب ایماندار لگے، کچھ انگریزی کے الفاظ بھی بول رہے تھے۔ چیک اپ کے بعد کموڈ کے مرض کی تشخیص کی اور کہنے لگے پورا سسٹم ہی چینج ہو گا، یہ سنتے ہی پیروں تلے زمین ہی نہ رہی۔ ہم نے الفاظ کی ادائیگی کر کے کام کروانے سے معذرت اور دل میں آئندہ بلانے سے توبہ کی۔ موصوف خاصے ناراض ہوئے، اصرار کے باوجود آنے جانے کا کرایہ اور کموڈ کی ٹینکی کھولنے بند کرنے کے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ اب یا تو وہ پلمبر کے ہاتھوں کی کرامت تھی یا نیت کا صلہ، بغیر مرمت کے کموڈ کی ٹینکی ٹھیک ہو گئی اور آج تک لیکیج بند ہے۔

”بیشک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔“

اکثر ہم نے خریداری کے وقت دیکھا ہے کہ دکاندار رٹا ہوا جملہ بولتے ہیں کہ اتنی تو ہماری خرید نہیں۔ اس بات میں سچ کم ہی ہوتا ہے، بس کمائی میں جھوٹ کی ملاوٹ ہو جاتی ہے۔

بقول شاعر
حرام میں وہ نہیں لطف جو حلال میں ہے
کہ مرغ و ماہی کی لذت ہماری دال میں ہے

ایک جمعدار ہمارے گھر سے کوڑا لینے آتا تھا، اس کی خصوصیت یہ تھی کہ کرسمس پر عیسائی اور عید پر مسلمان بن کر عیدی لیتا تھا اور ہم نے کبھی انکار یا سوال نہیں کیا، یہ راز آج بھی راز ہی ہے۔

آپ نے کبھی اپنی کار پر موٹروے سے سفر کیا ہے تو سروس ایریا میں دیکھا ہو گا کہ کار کا شیشہ صاف کرنے والے کتنی چالاکی کے ساتھ اپنا کام کر جاتے ہیں چاہے آپ شیشہ صاف کروانا چاہیں یا نا چاہیں۔ ہو گا وہی جو وہ چاہیں گے، آپ بے شک منع کر کے دیکھیں۔ گاڑی میں واپس آنے تک وائپر اٹھ چکا ہو گا اور گاڑی سٹارٹ ہونے سے پہلے جناب آپ کے سامنے اپنی مزدوری لینے آ جائیں گے۔

شہر میں چوک پر ہاتھ میں پانی کی بوتل اور وائپر پکڑے مرد، خواتین اور بچے دور سے رکتی گاڑی اور ڈرائیور کی آنکھوں پر نظر رکھے ہوتے ہیں، پلک جھپکیں یا مخالف سمت میں دیکھیں، دو فٹ کے فاصلے سے ڈٹرجنٹ پاؤڈر والا پانی فوارے کی طرح آپ کی گاڑی کے شیشے پر اس رفتار سے آئے گا کہ مرضی جانے بغیر آپ کا شیشہ بھی چمکا دیا جائے گا اور مزاج بھی۔

بڑے بڑے سکولوں نے والدین کو باندھ رکھا ہے، معصوم بچوں کے کندھوں پر ان سے زیادہ وزنی بیگ اور بھاری فیسوں کے چالان پکڑانے کے بعد کتابوں، یونیفارم اور تقریبات کے کپڑوں کے لئے اپنے کمیشن کی خاطر کسی خاص دکان سے خریداری کے لئے مجبور کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔

ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لکھنا پڑتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ اس کے باوجود بھی چوری ہوتی ہے۔ یہ معاشرے کی بد قسمتی ہے جہاں چور مضبوط اور قانون کمزور ہو۔

ان سب واقعات میں چھپا ہوا پیغام ایک ہی ہے کہ جھوٹ، بے ایمانی، رشوت، دھوکہ اور لالچ سے حاصل کیے گئے پیسوں کی عمر کم اور بے برکتی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ وہ گناہ اور معاشرتی برائیاں ہیں جن کا کسی خاص طبقے، عمر یا علاقے سے تعلق نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں سب عام ہے۔ امیر اور غریب اپنی اپنی حیثیت، مقام، اختیارات اور سوچ کے مطابق حلال کمائی کو حرام کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں جو ہمارے معاشرے کے زوال اور آخرت کی بربادی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا (الذلزال 99 : 7۔ 8 )

اگر میرا یہ مضمون آپ کے دل کو چھو جائے تو خود پر غور ضرور کریں اور بہتری کی کوشش کریں تاکہ آپ کی اصلاح کے ساتھ ساتھ میں بھی اجر کا حق دار بن سکوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments