اپنے ہی شہریوں کو جنگی قیدی بنانا: ہم اور امریکہ


آج سے اکیاسی برس پہلے اتوار 7 دسمبر 1941 کی صبح ابھی سورج طلوع ہی ہوا تھا کہ پرل ہاربر امریکی بحری اڈے کی فضاؤں میں جنگی ہوائی جہازوں کی گڑگڑاہٹ اور بھنبھناہٹ گونجنے لگی اتوار کا دن تھا اور بحری اڈے کے باسی ابھی اپنے بستروں میں سو رہے تھے کہ اچانک ہر طرف بموں کے دھماکے شروع ہو گئے۔ دراصل جاپانی جنگی طیاروں نے چاروں جانب سے بحری اڈے پر بمباری شروع کردی تھی اور بحری اڈے پر لنگر انداز دیو ہیکل امریکی بحریہ کے جنگی بحری جہازوں کو تارپیڈوز کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔

پرل ہاربر کی بندرگاہ اور بحری اڈا امریکی ریاست جزائر ہوائی میں واقع ہے۔ اس اتوار کی صبح جاپانی لڑاکا طیاروں نے بندر گاہ میں لنگر انداز آٹھ امریکی بحری جہاز غرقاب کر دیے۔ زمین پر کھڑے تین سو سے زیادہ جنگی طیارے تباہ کر دیے گئے مزید بیس امریکی بحری جہازوں کو نقصان پہنچایا۔ اس حملے میں 2500 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے۔ حملے کے اگلے ہی دن اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔

امریکی صدر کے اس اعلان نے دنیا کے مستقبل کا نقشہ ہی بدل ڈالا اور وہ جنگ جو یورپی اقوام کے مابین یکم ستمبر 1939 کو شروع ہوئی تھی 8 دسمبر 1941 کو عالمی جنگ میں تبدیل ہو گئی جس کو عرف عام میں دوسری جنگ عظیم کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 14 اگست 1945 کو اپنے اختتام کو پہنچی۔

دوسری جنگ عظیم بجائے خود ایک بہت بڑا المیہ ہے لیکن اس جنگ میں امریکی شمولیت کے بعد امریکی سر زمین پر ایک عجیب و غریب انسانی المیہ نے جنم لیا۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد 19 فروری 1942 کو امریکی صدر نے ایک حکم جاری کیا جس کو ایگزیکٹو آرڈر 9066 کہا جاتا ہے۔ اس حکم کے تحت وہ تمام امریکی شہری جو خود جاپانی نژاد تھے یا جن کے آبا و اجداد جاپان سے ہجرت کر کے امریکی سرزمین پر آباد ہو گئے تھے اور باقاعدہ امریکی شہری بن گئے تھے، ان سب کے شہری حقوق سلب کر لیے گئے۔

امریکہ کے طول و عرض میں بسے ہوئے جاپانی نژاد امریکیوں کو ان کے خاندانوں سمیت ان کے گھروں سے زبردستی بیدخل کر کے فوجی طرز کے جنگی قیدیوں کے کیمپ میں قید کر دیا گیا اور انکے گھروں کا سامان اور ذاتی اشیاء ضبط کرلی گئیں۔ ان افراد میں سترہ ہزار سے زائد بچے اور کئی ہزار عمررسیدہ اور معذور افراد بھی شامل تھے۔ ان کی رہائش کے لیے کوئی باقاعدہ انتظام بھی نہیں کیا گیا تھا۔ مویشیوں کے باڑے، گھوڑوں کی ریس کے ناقابل استعمال اسٹیڈیم اور اسی طرح کی دوسری متروک و مخدوش عمارتیں جن میں صفائی ستھرائی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا، عجلت میں کیمپوں میں تبدیل کر دیے گئے تھے۔

ان کیمپوں میں محافظین کی طرف سے گا ہے بگاہے تشدد کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ امریکہ میں اس طرح کے 10 کیمپ بنا دیے گئے۔ جنگ کے پورے چار سالوں تک یہ تمام امریکی شہری اپنے ہی وطن میں جنگی قیدی کی حیثیت سے ہی زندگی گزارنے پر مجبور رہے اور جنگ ختم ہونے کے بھی کئی مہینوں بعد مارچ 1946 میں آخری کیمپ بند کیا گیا، اور کوئی اکتیس سال بعد 1976 قید یہ قانون منسوخ کیا گیا، اور مزید بارہ سال بعد 1988 میں امریکی حکومت نے سرکاری طور پر اپنے جاپانی نژاد شہریوں سے امریکی حکومت کے اس اقدام پر معافی مانگی۔

دوسری جنگ عظیم 1945 میں اپنے اختتام کو پہنچی اس کے فوراً بعد ہی دنیا کے جغرافیے میں زبردست تبدیلی رو نما ہوئی۔ یورپ کی استعماری قوتوں کو اپنی زیرنگیں کالونیاں آزاد کرنی پڑیں دنیا میں نئے نئے ممالک وجود میں آئے ان ہی میں برطانوی ہندوستان کے بطن سے ہمارے پیارے دیس پاکستان نے جنم لیا۔ پاکستان کے قیام کو ابھی چوبیس سال ہی ہوئے تھے کہ ہمارے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ عجب لطیفہ یہ ہوا کہ ملک کے اکثریتی صوبے نے مرکز سے بغاوت کردی عام طور پر دنیا کے ممالک میں یہ روایت رہی ہے کہ اقلیتی آبادی اکثریتی آبادی سے شاکی رہتی ہے لیکن یہاں یہ معاملہ ہوا کہ ملک کی اکثریت جو بنگالیوں پر مشتمل تھی نے اقلیتی صوبے کے خلاف بغاوت کردی اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔

اقلیتی صوبوں کے علاقوں میں رہنے والے بنگالی معتوب ٹھہرے اور ان کو ملک دشمن قرار دے کر جنگی قیدیوں کی حیثیت سے کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ بھی تقریباً وہی معاملات ہوئے جو دوسری جنگ عظیم میں امریکہ میں رہائش پذیر جاپانی امریکیوں کے ساتھ ہوئے تھے۔ ان کو بھی اپنا تمام گھریلو سامان اونے پونے دام میں بیچنا پڑا اور یہ سب دور افتادہ مقام پر قائم کیمپوں میں منتقل کر دیے گئے۔ اپنے ناکردہ گناہوں کی اس لمبی قید کے دوران سینکڑوں انفرادی اذیت ناک کہانیوں نے جنم لیا۔

منڈی بہا الدین کے کیمپ میں قید ایک 50 سالہ ڈاکٹر نے کہا ”ہم پنجروں میں قید پرندوں کی طرح ہیں ہم نے سب کچھ بیچ دیا۔ فرج، فرنیچر، قالین، بستر اور کار ہمارے پیسے ختم ہو گئے ہم بالکل نا امید ہیں۔ کوہاٹ کے کیمپ میں موجود ایک شہری منصوبہ بندی کے ماہر جو پہلے کراچی شہر میں مقیم تھا۔ کانپتی ہوئی آواز میں بتایا ہم ڈوب رہے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم پاتال کا انجام کیا ہے۔ میں سو نہیں سکتا میرا وزن کم ہو گیا ہے ہم یرغمال بنائے گئے ہیں۔

تقریباً دو سال بعد 1973 کے آخر میں ان بنگالیوں کو نئے ملک بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔

ہم پاکستانی زندگی کے کسی شعبے میں امریکہ سے برابری کا دعوی نہیں کر سکتے لیکن اپنے ہی ملک کے شہریوں کو جنگی قیدی بنانے کے معاملے میں ضرور امریکہ کے ہم پلہ اور برابر ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments