کیا فیض حمید سے پوچھ گچھ ہوگی؟


میں نے اپنے پچھلے کالم ”اشرف غنی آنے والے ہیں“ میں ذکر کیا تھا کہ کہیں نہ کہیں پر دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان میں ہمہ شمول حکومت کے قیام کے کے لئے کوششیں جاری ہیں، اور یہ کہ ”امید ہے طالبان کو اپنا حصہ بقدر جثہ ملے گا“ ۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ طالبان حصہ بقدر جثہ لینے پر رضامند ہیں۔

فیض حمید نے جس طرح امریکی معاہدے کو آخری لمحوں میں سبوتاژ کر کے اسے طالبان کی فتح کی شکل دیدی تھی اس میں اگرچہ وہ اپنا کیریئر اور اس کا ساتھی اپنی حکومت ہار چکا ہے لیکن اس کے باوجود طالبان اب بھی ہر طریقے سے دوحہ معاہدے کے پابند ہیں۔ اشرف غنی نے انتقال اقتدار کی انسٹرومنٹ پر دستخط کر کے دوحہ معاہدے کو سرکاری سرپرستی میں پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا لیکن خود کو اور افغان امن کو بچانے کی خاطر وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

اب لگتا ہے طالبان حکومت یا تو کلی طور پر خود کو دوحہ معاہدے سے آزاد سمجھتی ہے اور یا خود کو بہتر بارگیننگ پوزیشن دلا کر ہمہ شمول حکومت میں اپنے لیے مزید مراعات حاصل کرنے کے لئے جارحانہ انداز اختیار کیے جا رہی ہے۔ لیکن ایک بات رکھنی چاہیے کہ وہ تو اشرف غنی کو ڈاکٹر نجیب کی انجام سے دوچار نہیں کرسکے لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ خود سردار داؤد ترکئی اور امین کی انجام سے دوچار ہو جائے کیونکہ آرگ کی تاریخ خونریزی سے بھری پڑی ہے۔

مذکورہ کالم کے چھپنے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہت تیزی سے خراب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے افغان فورسز کی طرف سے پاکستانی سیکورٹی فورسز پر فائرنگ ہوئی۔ پاکستان نے اسے معمول کی تلخی سمجھ کر لائٹ لیا لیکن دوسری فریق سنجیدہ نظر آئی تو فوری طور پر اپنی جونیئر وزیر خارجہ کو افغانستان بھیج کر ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی جو مکمل ناکام ہوئی، کیونکہ اس کی واپسی کے فوراً بعد ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے شروع کرنے نہ صرف اعلان کیا بلکہ حملے کر بھی دیے۔

کابل دوبارہ پہنچ کر طالبان خود کو واقعی ناقابل شکست سمجھ بیٹھے ہیں لیکن نہ تو ان کی حامی حکومت اب پاکستان میں موجود ہے جس کے وزیراعظم نے ان کو کابل پہنچنے پر ’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘ کی مبارکباد دی تھی اور نہ ہی ان کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرنے والی شخصیت موجود ہے، جس سے استعفیٰ بھی مروجہ طریقے سے نہیں لیا گیا، بلکہ اس کے بارے میں جو خبریں گردش میں ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ کسی دن اسے اس کا اپنا ادارہ خود بازپرس کے لئے بلانے پر مجبور ہو گا، اور وہ اس لیے کہ افغانستان میں طالبان کا گیم کھیلنے کے علاوہ اس نے قبائلی اضلاع کو بھی ایک بار پھر بندوق برداروں کے حوالہ کرنے کا پکا بندوبست کر دیا تھا۔

آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ سے واپسی پر عمران خان نے ورلڈ کپ سے بڑا ورلڈ کپ لانے کی خوش خبری سنائی تھی لیکن بعد میں وہ اس قدر امریکہ مخالف ہوا کہ اسمبلی کے فلور پر اس نے اسامہ کو شہید کہنے کے علاوہ اسی مودی کو فاشسٹ کہنا شروع کر دیا جس کو دوبارہ جتوانے کے لئے اس نے اسے ابھینندن کا تحفہ دیا تھا، تاکہ دونوں مل کر کشمیر کو ’حل‘ کر سکے۔

افغانستان کو فری تیل اور امداد دینے کے باوجود، جنرل فیض کی بے وقت رخصتی اور عمران خان کے یوں نکل جانے کے بعد ، روس وہاں پر برپا ہونے والی کشمکش میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یوکرین میں مسلسل پھنسے رہنے اور پیچھے ہٹنے کی وجہ سے اسے افغانستان پر توجہ دینے کے لئے جتنی توجہ ریسورسز اور حمایت کی ضرورت ہے وہ بہت مشکل ہے۔ اگر وہ یوکرین کی دلدل میں نہ اترتا تو ایران اور چین کے ساتھ مل وہ پہلے جیسا کردار ادا کر سکتا تھا بلکہ یہ ممکن ہے کہ نہ تو امریکہ دوحہ معاہدے کو اتنی جلدی زندہ کر سکتا تھا نہ جنرل فیض اور عمران کی اس طرح رخصتی ممکن تھی۔ عمران خان روس میں تھا تو جنرل باجوہ اس وقت برسلز میں روابط استوار کرنے میں مصروف تھا۔ مغرب کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے روس پاکستان کو اور پاکستان نے روس کو کئی بار پیادہ سمجھ کر استعمال کیا ہے لیکن نتیجہ ہمیشہ روس کی مایوسی کی شکل میں نکلا ہے۔

پہلے میرا خیال تھا کہ افغانستان میں نئی صورتحال کی تجسیم سردیاں گزرنے کے بعد واضح ہو جائے گی لیکن جس تیزی سے یہ سرگرمیاں جاری ہیں لگتا ہے ایسا نہیں ہو گا۔

بہت ساری یقین دہانیوں کے باوجود طالبان نے ایک طرف اپنے ہاں موجود ٹی ٹی پی کو پاکستان پر حملے کرنے سے روکا نہیں تو دوسری طرف کابل کے سب سے بڑے چوک میں نصب کردہ نئے نقشے میں انہوں نے پاکستان کے بڑے حصے کو اپنا حصہ دکھایا ہے۔ لیکن اپنے اہم رکن ملا یعقوب کو خلیج بھیج کر ان رابطہ کاروں سے ملاقاتیں شروع کی ہیں جو پہلے سے دوحہ معاہدہ اور اشرف غنی کے ساتھ ایک پیج پر ہیں جہاں ہر اس نے اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان میں ہمہ شمول حکومت بنا دی جائے جس میں سب کو حصہ حاصل ہو۔

طالبان حکومت میں حامد کرزئی کو پہلی دفعہ افغانستان سے باہر جانے کی اجازت ملی ہے جہاں پر وہ افغانستان کے مستقبل پر اثرانداز ہونے والی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔

محسن داوڑ کو یورپ اور خلیج سے واپسی کے بعد روس کی مرضی سے دو شنبے میں منعقدہ ’ہرات سیکورٹی ڈائلاگ ایکس‘ میں شرکت کی اجازت نہیں ملی جبکہ ان کی پارٹی کے افراسیاب خٹک کو جانے دیا گیا۔ دوحہ معاہدے کے بارے میں امریکہ اور پاکستان کی طرف سے فریقین سے ملنے والے ایک اہم مذاکرات کار کی حیثیت سے شرکت کرنے والا آخر کس طرح روسیوں کے ساتھ بیٹھ کر کانفرنس اٹینڈ کر سکتے تھے۔

امریکہ نے افغانستان میں ایک ہمہ شمول عبوری حکومت قائم کرنے کے ارادے کے اظہار کے علاوہ کوئٹہ میں خودکش حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف ’لمبے عرصے‘ تک لڑنے کا عزم ظاہر کیا

کابل میں امریکہ کے چھوڑے ہوئے جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مرمت کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔ امریکیوں کے علاوہ ایسی مہارت اور کس کے پاس ہے؟ کیا ایڈوانس ٹیکنیکل ٹیم کابل پہنچ چکی ہے؟

کابل میں پاکستان ایمبیسی پر ہونے والا حملہ بڑی ریکی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ پہلے ایمبیسی کے اوپر ڈرون اڑا کر معلومات حاصل کی گئی اور ٹھیک اسی وقت حملہ کیا گیا جب پاکستانی ناظم الامور چہل قدمی کرنے کے لئے باہر نکلا تھا۔ ایمبیسی ذرائع کے مطابق، حملے کے بعد آنے والی رات کو بھی ایمبیسی کے اوپر ڈرون اڑنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم قطر معاہدے کی رو سے افغانستان میں ٹارگٹڈ آپریشن کر سکتے ہیں جس میں اس نے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کا خصوصی طور پر نام لیا ہے۔

داخلی سلامتی سے متعلق سینیٹ کمیٹی کو نیکٹا نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ گزشتہ حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات نے امن کی صورتحال کو ایک دفعہ پھر ابتر کر دیا ہے کیونکہ اس دوران دہشت گردوں نے اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ استوار کر کے اپنے علاقوں میں پھر سے قدم جما دیے۔

کیا صوبائی مذاکرات کار بیرسٹر سیف اور اس کے سرپرست فیض حمید سے بازپرس کی جائے گی کہ انہوں نے مذاکرات کی آڑ میں کیا گیم شروع کی تھی؟ کون سے مینڈیٹ کے تحت اور کن کے مفادات کے لئے وہ سابقہ فاٹا کو گویا دوبارہ ٹی ٹی پی کے حوالے کرنا چاہتے تھے؟ اگر ان مذاکرات میں ان کے ذاتی مفادات نہیں تھے تو امن کے لئے نکلنے والے جلوسوں کے آرگنائزرز کے خلاف سرکاری سرپرستی میں مقدمات کیوں درج کیے جا رہے تھے؟
سردی کے بعد برف تیزی سے پگھلے گی قدم جما کے رکھنا ضروری ہے۔

اشرف غنی واپس آنے والا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 114 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments