( 2 ) ڈاکٹر وزیر آغا اور سید فخرالدین بلے، داستان رفاقت


ڈاکٹر وزیر آغا کی تصانیف کی فہرست طویل ہے جن میں، مجید امجد کی داستان محبت، تنقید اور احتساب، تنقید اور جدید اردو تنقید، دوسرا کنارا، اک کتھا انوکھی،
غالب کا ذوق تماشا، مسرت کی تلاش، نظم جدید کی کروٹیں، شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، اردو شاعری کا مزاج، عبدالرحمن چغتائی کی شخصیت اور فن، چمک اٹھی لفظوں کی چھاگل جیسی شاندار تصانیف قابل ذکر ہیں۔ بے شک یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجید امجد کی داستان محبت کو سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے اپنے قائم کردہ پبلشنگ ہاؤس معین اکادمی سے بہت اہتمام اور انتہائی شاندار انداز میں شائع کیا تھا۔

ڈاکٹر انور سدید نے اپنے متعدد مضامین میں اپنے اور ڈاکٹر وزیر آغا کے سید فخرالدین بلے، سید انجم معین بلے، سید عارف معین بلے، آنس معین اور ظفر معین بلے کے ساتھ دیرینہ مراسم اور تعلقات کا ذکر فرمایا ہے۔ آنس معین کی وفات جدید غزل کی موت ہے کے عنوان کے تحت ایک مضمون میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا۔ ؟
(آنس معین)

”۔ آنس معین غزل کا بلند قامت اور توانا شاعر۔ آنس معین نے اٹھاون سول لائنز کی شام دوستاں آباد میں اپنی پہلی غزل سنائی تو فخرالدین بلے بلطائف حیل اٹھ کر ڈرائنگ روم سے باہر چلے گئے اور جب تک آنس غزل سناتا رہا وہ کمرے میں واپس نہیں آئے اور واپس آئے تو یہ نہیں پوچھا کہ آنس کی غزل کیسی تھی اور کیا اس میں شاعری کے امکانات بھی ہیں یا نہیں؟ ان دنوں آنس شاید ایف اے کا طالب علم تھا اور غزلوں کو پھول کی پتیوں کی طرح نصاب کی کتابوں میں چھپا کر رکھتا تھا۔ خورشید رضوی کی غزل پر آنس نے بے شاختہ انداز میں داد دی تو سجاد نقوی نے یونہی پوچھ لیا۔

”آنس میاں۔ کچھ تم بھی کہتے ہو؟“

اور آنس معین جھوٹ نہیں بول سکا تھا۔ شاید بلے پر بھی اسی روز کھلا تھا کہ صاحبزادے نے من میں جوالا سلگا رکھی ہے اور وہ شاعر بن گیا ہے۔ آنس نے غزل سنائی تو ہم سب کو چپ لگ گئی۔ غزل یوں تھی

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایہ بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی پلکوں کا
مجھے چھپایا بھی تونے مجھے دکھایا بھی

اور ہمیں چپ اس لیے لگ گئی کہ آنس کی غزل اس کی عمر کے تجربے سے بہت آگے تھی کچھ دیر بعد جب مہر سکوت ٹوٹی تو وزیر آغا صاحب نے کہا ؛ ”آنس یہ غزل کاغذ پر لکھ دو۔“

آنس یہ سن کر گھبرا سا گیا اور بولا؛ ”کیوں انکل، کیا وزن میں گڑ بڑ ہو گئی ہے یا کوئی مضمون ٹھیک ادا نہیں ہوا؟“

وزیر آغا صاحب بولے ؛ ”یہ غزل اوراق میں چھپے گی۔“

یہ سنتے ہی جیسے آنس کا سارا خون سمٹ کر اس کے رخساروں میں آ گیا اور وہ خوشی سے گلنار ہو گیا۔ آنس معین کی متذکرہ بالا غزل اوراق میں شائع ہوئی تو بہت پسند کی گئی لیکن ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کو اور مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ لمحے کو منجمد کرنے کی طرف جو اشارہ تھا یہ کسی کی گرفت میں نہیں آیا تھا اور آنس کو سب سے زیادہ داد اس شعر پر ملی تھی

بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی

پھر سید فخرالدین بلے صاحب ملتان چلے گئے اور آنس سے ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ مجھے فرائض منصبی کے سلسلے میں کوٹ ادو جانے کا اتفاق ہوا تو بلے صاحب کے ساتھ آنس کی غزل سے بھی کبھی کبھار ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ”

سن 1979 میں سرگودھا سے سید فخرالدین بلے کے تبادلے کے موقع پر ان کے ساتھ ایک شام منائی گئی اور اسی شام میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنا یہ مضمون پڑھ کر سنایا آپ بھی اس مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے

۔ ۔
سید فخر الدین بلے۔ تصوف پرایک اہم اتھارٹی۔ تحریر: ڈاکٹر وزیر آغا

سید فخر الدین بلے دبستان اردو کے روح و رواں ہیں۔ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو رہے ہیں۔ مگر آپ یقین فرمائیں کہ ان کے دل کو اندر سے کوئی عارضہ نہیں ہے۔ البتہ عارضہ بصورت بلے صاحب اسے باہر سے ضرور لگا ہے۔ اگر آپ کسی ذی روح پر غلیظ دھوئیں کے دود کش مستقل طور پر کھول دیں تو کیا اس کا دم نہیں گھٹنے لگے گا۔ پچھلے تیس برسوں میں بلے صاحب نے کل سات لاکھ چھیاسٹھ ہزار پانچ سو گیارہ سگریٹ بحساب ستر سگریٹ یومیہ پئے ہیں اور ان سے نکلنے والی پونے چارمن نکوٹین دل نامراد کی نذر کی ہے۔

اب وہ بے چارہ مروت کا مارا احتجاج بزبان پنجابی کرنے سے تو رہا۔ اس نے بس یہ کیا کہ عدم تعاون، بائیکاٹ اور مکمل ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ اس پر بلے صاحب نے مجبوراً زندگی میں پہلی بار بستر کو کچھ وقت دیا اور اب دل ان کا راضی ہے مگر یہ خود راضی نہیں۔ انہیں شک ہے کہ شاید ان کے دل نے اہل سرگودھا سے ساز باز کر کے ان سے غداری کی ہے۔ لہٰذا وہ اس دیار ناہنجار ہی کو خیر باد کہنے پر اتر آئے ہیں۔

بہر حال حقیقت یہ ہے کہ بلے صاحب کے چلے جانے کے بعد دبستان سرگودھا کی کمر ہی ٹوٹ گئی ہے۔ میں اور جیلانی صاحب تو پہلے ہی کمر شکستہ ہیں۔ ہم کیسے اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ البتہ ابھی سرگودھا میں کئی دانشور ایسے ضرور ہیں۔ جن سے دبستان سرگودھا کو آئندہ بھی تازہ لہو ملنے کا امکان ہے۔

میرے لئے بلے صاحب کی ذات اور شخصیت کے دریا کو کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ اتنے اچھے ہیں اتنے اچھے ہیں کہ بہت ہی اچھے ہیں اور یہی شاید ان کا قصور بھی ہے۔ جب مہاتما گاندھی کو گاڈسے نے گولی کا نشانہ بنایا تو جارج برنارڈ شا نے برملا کہا تھا۔ دیکھا! اس دنیا میں اچھا ہونا کتنا خطرناک ہے۔

کچھ یہی بلے صاحب کا حال ہے۔ انہوں نے زمانے سے جو زخم کھائے ہیں۔ اس کی داستان طویل تو ہے لیکن لذیذ ہرگز نہیں۔ البتہ اس میں قطا کوئی کمال نہیں ہے کہ ان چرکوں نے وہی کام کیا ہے، جو گاڈسے کی گولی نے کیا تھا۔ اب غلام جیلانی اصغر چاہیں تو برملا کہہ سکتے ہیں کہ ”بلے صاحب ’میں نہ کہتا تھا کہ اتنا اچھا ہونا اچھا نہیں“ ۔

ادب کے لئے بلے صاحب کی لگن اور لگاؤ مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت نے انہیں اعلیٰ ذوق نظر ہی عطا نہیں کیا۔ دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گر بھی سکھایا ہے۔ اس کی نثر اتنی پختہ ’نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزاج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجا ان کے استعمال کردہ لفظ پر بھی انگلی رکھنا بہت مشکل ہے۔ اس پر مستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے کتابوں کو خود پر لادا نہیں بلکہ انہیں ہضم کیا ہے اور پھر ان کے مطالبہ کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کر کے بڑے خوبصورت انداز میں لفظوں کے حوالے کر دیا ہے۔

تصوف کے موضوع پر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ آپ بلا تکلف انہیں اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے ہیں۔ بلے صاحب شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ شاعری کے بھی ان کے ہاں دونوں رنگ ملتے ہیں۔ کلاسیکی بھی اور جدید بھی۔ پچھلے دنوں مجھے ان کی بیاض دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں ان کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لیکن میں چونکہ جدیدیت کا والا و شیدا ہوں۔ اس لئے میں ان کی جدید رنگ کی غزلوں پر سر دھنتا رہا۔ ابھی تک میں ان کی غزلوں کے سحر سے باہر نہیں آ سکا۔ میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ جی کڑا کر کے اس رنگ میں مزید غزلیں کہہ ڈالیں۔ امید ہے کہ وہ میری اس فرمائش کو پورا کریں گے۔ ایک بار جب غلام جیلانی اصغر صاحب کا سرگودھا سے تبادلہ ہوا تو میں نے یہی مصرعہ پڑھا تھا کہ

بہ سلامت روی و باز آئی

مگر اس وقت باز آئی سے میری مراد تھی کہ باز آجائیں۔ اب اگر بلے صاحب کے معاملے میں بھی احباب اس مفہوم کو قبول کرنے پر بضد ہوں تو میں کہوں

گا۔ قبلہ سگریٹ پینے سے باز آ جاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments