قمر گلہ اگر لتا منگیشکر ہوتی


ہم اگر یہ کہیں کہ قمر گلہ کا موسیقی کی دنیا میں افغانستان کی پشتو موسیقی میں وہ مقام تھا جو ہندوستان میں لتا منگیشکر کو ہندی گائیکی میں حاصل تھا۔

لیکن لتا منگیشکر کی خوش بختی تھی کہ وہ نہ صرف ہندوستان میں پیدا ہوئی، ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے گایا بلکہ وہاں پر فوت ہوئی اور وہی پر ان کی آخری رسومات بھی ریاستی سرکردگی میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئیں۔ جبکہ یہ قمر گلہ کی کم نصیبی تھی کہ وہ افغانستان میں تو پیدا ہوئی، ساری عمر افغانوں کے لئے نغمے گائے، گلو کاری کی لیکن زندگی کے آخری ایام کسمپرسی کی حالت میں کینیڈا میں گزارے اور وہیں پر یخ بستہ اور برف سے ڈھکے ماحول اور زمین میں دفنا بھی گئیں۔

گو کہ اس یخ بستہ اور برفیلے ماحول میں اگر چہ افغان پرستاروں کی تعداد وہ نہیں تھی لیکن پھر بھی جنھوں نے اس میں شرکت کی ان کو داد دینے کو دل ضرور کرتا ہے۔

قمر گلہ نے افغانستان ٹی وی اور ریڈیو کے لئے اس وقت گانے گائے جب کوئی خاتون ادھر کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن قمر گلہ نے سوچے بغیر صرف عمل کو ترجیح دی اور اپنے مترنم اور میلوڈیس آواز میں گا کر اپنی آواز کی دھاک چار دانگ عالم جہاں جہاں افغانز بستے تھے وہاں بڑی شان کے ساتھ بٹھائی۔

اب تک پشتو گائیکی میں دو خواتین ایسی گزری ہیں جن کو بچے، جوان، بوڑھے، اور خواتین یکساں طور نہ صرف ان کی آواز سے پہچانتے ہیں بلکہ بڑے دل لگی سے سنتے بھی ہیں۔ ایک گنار بیگم اور دوسری قمر گلہ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ قمر گلہ نے جو بھی گانا گیا وہ سوپر ہٹ ہوا اور ہر گلوکار اور گلوکارہ نے ان گانوں کو اس ہی طرز اور اس ہی موسیقی کے آلات سے کئی بار گایا۔

قمر گلہ کے گائے ہوئے غزلوں نظموں اور گیتوں کے اشعار ضرب مثل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
قمر گلہ جتنی خوش آواز تھی اتنی ہی خوش شکل بھی تھی۔
ان کو افغانستان کے تمام بڑے اعزازات ملے اور گولڈن وائس کا خطاب بھی ان کے حصے میں آیا۔

پشتو کے کسی بھی گائیکی کے محفل میں قمر گلہ کے گائے ہوئے گانے میں سے کوئی نہ کوئی ان کے گائے ہوئے کسی نہ کسی گانے کا مطالبہ گلوکارہ یا گلوکار سے گانے کے لئے ضروری کیا جاتا ہے۔ اور ہر گلوکار کو ان کے گائے ہوئے گانے یاد ہوتے ہیں۔

ان گانوں میں جو کہ در اصل میر حمزہ خان شنواری کی نظم ہے۔
رازہ چے سرہ جوڑا کڑو جونگڑا پہ زنگل کے۔
پھر، وا ملنگہ یارا کیدہ قدم ورو سرو۔
زہ چے پہ تورو سترگو تور رانجہ کڑم پورے مورے۔ پہ ورو سرو کیدہ قدمونہ آشنا۔

ان کے ٹپے بالکل مردانہ آواز جیسے اونچے سر اور لے میں ہر کسی کے دل کو لبھانے اور گرمانے کے لئے کافی اور شافی تھے۔

قمر گلہ انیس باون میں ننگرہار افغانستان میں پیدا ہوئی، سات سال سے موسیقی شروع کی۔ اور ان کو گلوکارہ رخسانہ کے بعد ریڈیو اور ٹی پر گانے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ گائیکی کے ساتھ ساتھ کمپوزر بھی تھی۔ اور مشہور کمپوزر ازاخیل سے رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہوئی۔

وہ جب ستر کی دہائی میں پشاور آئیں تو گرین ہوٹل میں لوگوں کی اتنی تعداد ان کو سننے اور دیکھنے کے لئے جمع ہو گئی کہ ٹکٹ کم پڑ گئے۔ لیکن جب افغانستان میں خانہ جنگی سے دو چار ہو کر آئیں تو ان کو کرائے کے لئے کمرہ میسر نہیں تھا لیکن جب یہ بات اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پشاور کو پتہ چلی تو ان کو نہ صرف گھر پر مدعو کیا، بچوں سے ملایا، ان کے رہنے سہنے اور پورے مہینے کی راشن کا بھی بندوبست کیا۔

ان کو گائیکی میں کئی عالمی اعزازات بھی ملے۔ لیکن جو اعزاز ان کو عوامی سطح پر ملا وہ اس اعزاز کو اپنے لئے زندگی کا کل متاع سمجھتی تھیں۔

وہ گزشتہ کئی سالوں سے کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں مقیم تھی اور بالآخر پیرانہ سالی کی بیماری اور موت نے اپنے آغوش میں لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کیا اور اونٹاریو میں ہی بیسیوں سوگوار مداحوں کے اشک بار آنسوں میں یخ بستہ قبرستان میں دفنا کر ان سے محبت اور چاہت کا ثبوت دے کر اپنی اپنی یادوں کے فرمائش لے کر اپنے اپنے گھروں کو بھرے دل پرنم اور برستی آنکھوں سے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments