حضرت خضر ؑ (حصہ چہارم)


جب اللہ کے حکم سے حضرت موسی ؑ اپنے غلام یوشع بن نون کے ساتھ حضرت خضر ؑ کو ملنے کے لئے مجمع البحرین کے پاس جزیرے میں پہنچے اور حضرت خضر ؑ کو باہمی تعارف کے بعد ان سے وہ علم یا باتیں سکھانے کی درخواست کی جو ان کے پاس عطائے ربی علم تھا۔ اب اس علم جو اصل میں باطنی یا لدنی علم تھا اس کو سیکھنے کے لئے مشاہدہ ضروری تھا اور مشاہدہ حضرت خضر ؑ کے ہمراہ رہنے میں ہی ممکن تھا۔ جب حضرت خضر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑسے فرمایا کہ آپ صبر نہیں کر سکیں گے تو حضرت موسی ٰ ؑ جو باطنی علم سیکھنا چاہتے تھے اور حضرت خضر کو اپنا استاد مان چکے تھے آپ نے حضرت خضر ؑ سے فرمایا اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابرین میں پائیں گے۔

ان کی بات سن کر حضرت خضر ؑ نے فرمایا کہ آپ مجھ سے کوئی سوال نہیں کریں گے جب تک کہ میں آپ کو خود کچھ نہ بتاؤں۔ اب میں آپ جیسے ذہین و فطین قارئین کے سامنے ایک سوال رکھ رہا ہوں۔ وہ یہ کہ علم کی مختلف اقسام ہیں جن میں 2 بہت اہم ہیں ایک علم ظاہری اور دوسرا علم باطنی۔ اب علم ظاہری سمجھنے کے لئے سوال کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ ذہن میں پیدا ہونے والے وسوسے یا ابہام کا واضح جواب سوال کرنے سے مل سکتا ہے۔

علم ظاہری کی شروعات ہی لفظ کیوں اور کیسے سے ہوتی ہے۔ مگر دوسری طرف علم باطنی یا علم لدنی تو شروع ہی فرمانبرداری اور ایمان بالیقین جیسی رضاء سے ہوتا ہے۔ اس میں چوں چرآں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یا ر میں آئے۔ اب جب حضرت موسی ٰ ؑ نے حضرت خضر ؑ کی بات مان لی تو اپنے غلام یوشع بن نون کے ساتھ حضرت خضر ؑ کے ساتھ چل پڑے۔ دریا کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کشتی جا رہی ہے اور کنارے سے دور نکل گئی ہے حضرت خضر ؑ نے کشتی والوں کو آواز دی وہ لوگ واپس لوٹ آئے وہ غریب ملاح تھے۔

حضرت خضر ؑ اور حضرت موسی ٰ ؑ اپنے غلام یوشع بن نون کے ہمراہ کشتی میں بیٹھنے لگے تو انہوں نے ملاحوں سے پوچھا ہم تین لوگ ہیں اور ہم نے فلاں جگہ جانا ہے آپ ہم کو کرایہ بتائیں۔ ملاحوں نے جب نورانی صورتوں والے بزرگ دیکھے تو ان کو بصد احترام جواب دیا کہ آپ کا کشتی میں بیٹھنا خیر و برکت سے ہے ہم کو آپ سے کرایہ نہیں بلکہ آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ یوں ان کو مفت میں کشتی میں سوار کر لیا۔ یہ لوگ جب چلتے ملک روم کے قریب ایک ملک میں پہنچے تو حضرت خضر ؑ نے کلہاڑی سے کشتی کے ایک یا دو تختے اکھاڑ دیے مگر اس کے باوجود کشتی میں پانی نہ آیا۔

حضرت موسی ٰ ؑ جو بہت زیادہ جلالی کیفیت والے تھے ان کو غصہ آ گیا بولے اے خضر ؑ کیا اتنے لوگوں کو ڈبونے کا ارادہ ہے جو آپ نے کشتی سے تختے نکال دیے حالانکہ ملاح اتنے اچھے آدمی تھے کہ ان لوگوں نے ہم سے کرایہ بھی نہیں لیا تھا۔ یہ باتیں کرتے ہوئے حضرت موسی ٰ ؑ یہ بھول گئے کہ آپ نے خاموش رہنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ان کی باتیں سن کر حضرت خضر ؑ بولے آپ کو میں نے پہلے بولا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہیں گے تو صبر کریں گے۔

اب آپ میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اب حضرت موسی ٰ ؑ کو بھی خیال آ گیا۔ نادم ہوئے اور بولے میرے سے بھول ہو گئی جو میں نے آپ کے کام پر اعتراض کیا حضرت خضر ؑ نے بھی درگزر سے کام لیا کیونکہ بھول کی گرفت شریعت میں نہیں ہوتی۔ جب کشتی کنارے سے آ لگی تو یہ لوگ اتر کر آگے چل دیے۔ یہ لوگ کنارے کنارے چلتے ہوئے ایک شہر پہنچے۔ وہاں کچھ نو عمر لڑکے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر ؑ نے ان میں سے ایک نو عمر لڑکے کو پکڑا اور زمین پر لٹا کر چاقو سے اس کی گردن تن سے جدا کر دی۔

حضرت موسی ٰ ؑ جو نبی اللہ تھے اور نبی تو خلاف شرع کام نہ کرتا ہے اور نہ برداشت کرتا ہے آپ کو غصہ آ گیا اور بولے اے خضر آپ نے بلا کسی شرعی عذر کے ایک معصوم لڑکے کا خون کر دیا۔ اب حضرت خضر ؑ بولے کہ میں نے پہلے ہی آپ سے کہ دیا تھا کہ آپ سے صبر نہیں ہو گا۔ اب حضرت موسی ٰ ؑ جو کہ بھول کا لفظ پہلے بول چکے تھے بولے خیر اب تو غلطی ہو گئی۔ اب اگر میں نے کسی بات میں آپ کو ٹوکا تو آپ مجھ کو اپنے ساتھ نہ رکھیے گا۔

ان کا یہ قول حضرت خضر ؑ نے منظور کیا اور یہ لوگ آگے چل پڑے۔ اثنائے راہ میں چلتے چلتے دوپہر کا وقت ہو گیا تو ان لوگوں کو بھوک محسوس ہوئی۔ ایک شہر جس کا نام انطاکیہ تھا وہاں پہنچے۔ دیکھا کہ شہر کے لوگ بہت خوشحال ہیں۔ مکانات بہت خوبصورت بنے ہیں۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ یہ لوگ شہر کے اندر کئی ایسی جگہوں پر گئے جہاں لوگ جمع تھے۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے آپ کو مسافر ظاہر کر کے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا مگر اس شہر کے لوگ اتنے کنجوس تھے کہ کسی نے بھی ان کی طرف توجہ نہ کی۔

یہ لوگ گھومتے پھرتے ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں پر ایک بوسیدہ دیوار گرنے والی تھے۔ حضرت خضر ؑ نے اس دیوار کی مرمت کر کے اس کو اس حالت میں کر دیا کہ یہ اب کافی سال کھڑی رہ سکتی تھے۔ اگرچہ یہ کوئی غیر شرعی کام نہ تھا مگر حضرت موسی ٰ ؑ کی طبیعت کو ناگوار گزرا۔ بولے اے خضر ؑ جس شہر کے لوگ اتنے بے مروت اور بد لحاظ ہوں کہ کھانا تک نہ پوچھیں تو آپ نے اگر ان کا کام ہی کرنا تھا تو کوئی اجرت طے کر لیتے تاکہ کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا۔

اب چونکہ یہ تیسرا اعتراض تھا اور حجت تمام ہو چکی تھی۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا چونکہ آپ نے خود فرمایا تھا کہ اگر اب میں نے اعتراض کیا تو مجھ کو ساتھ نہ رکھئے گا لٰہذا اب ہماری جدائی کا وقت آ پہنچا۔ حضرت موسی ٰ ؑ نے ان کی بات پر مہر تصدیق ثبت کی مگر اتنا کہا کہ آپ نے اگر جانا ہے تو بھلے جائیں مگر یہ جو تین واقعات پیش آئے تھے ان کی حقیقت سے تو آگاہ کرتے جائیں۔ حضرت خضر ؑ بولے تو سنئے میں آپ کو بتا دیتا ہوں ان کی حقیقت۔

جس کشتی میں ہم سوار ہوئے تھے وہ دس بھائیوں کی ملکیت تھی جس میں سے پانچ بھائی تو معذور اور اپاہج تھے جو کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے اور رہ گئے باقی پانچ تو وہ بہت زیادہ غریب اور مفلوک الحال تھے۔ اب جب ان کی کشتی ایک ملک کی سرحد کے پاس پہنچتی جس کے بادشاہ کا نام جلندی تھا جو کہ بہت زیادہ ظالم تھا اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جو بھی کشتی اچھی حالت کی یا خوبصورت دیکھو اس کو پکڑ کر بحق سرکار ضبط کر لو۔

اب اللہ نے پہلے یہ مجھ پر منکشف کر دیا تھا تو میں نے ان کی کشتی کے تختے توڑ دیے اس سے ان کی کشتی بھی اس ظالم بادشاہ کی دسترس میں جانے سے بچ گئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے ڈوبنے سے بھی محفوظ رہی اس طرح ان کی کمائی کا واحد سہارا بچ گیا۔ دوسری بات کہ میں نے ایک لڑکے کو قتل کر دیا تو یہ لڑکا کفر کی خصلت لے کر پیدا ہواء تھا یہ جب بڑا ہوتا تو اتنی بڑی گمراہی کا مرتکب ہوتا کہ نہ صرف خود کافر ہوتا بلکہ اس کی محبت میں گمراہ ہو کر اس کے اہل ایمان والدین بھی کافر ہو جاتے۔

تو میں نے اس لئے یہ کیا کہ اس کے والدین کا ایمان بھی محفوظ رہے اور اللہ پاک ان کے بدلے ایک نیک لڑکی عطا فرمائے ( مروی ہے کہ اس لڑکے کے بدلے میں اس کے مومن والدین کو اللہ تعالیٰ نے ایک صالحہ لڑکی عطا کی جس کا نکاح ایک اللہ کے نبی سے ہواء اور جس کے بطن سے کئی انبیاء پیدا ہوئے اور ایک امت کی اصلاح کا باعث بنے۔ واللہ و اعلم بالصواب) ۔ اب رہ گئی تیسری بات کہ جس شہر کے بخیل لوگوں نے ہم کو نہ کھانے کا پوچھا نہ پینے کا اور میں نے ان کی دیوار کی مرمت بلا معاوضہ کر دی اور آپ نے غصہ کا اظہار کیا تو واقعہ یہ تھا کہ یہ دیوار دو یتیم بچوں اصرام اور صریم کی ملکیت تھی۔

ان کے والدین نے اپنی حلال روزی سے کچھ جمع پونجی اکٹھی کر کے بچوں کے لئے دیوار کے نیچے کچھ مال دفن کر دیا تھا۔ کہ بچے بڑے ہو جائیں تو ان کے کام آ جائے اب چونکہ بچے چھوٹے تھے اگر ابھی دیوار گر جاتی تو بچوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ کچھ نہ آتا اور سب کچھ ان کے عزیز رشتہ دار ہڑپ کر جاتے۔ لٰہذا اللہ پاک نے بچوں کے حال پر رحم کھا یہ مناسب نہ سمجھا کہ اس نیک بندے کی کمائی جو کسب حلال سے کمائی گئی تھی ضائع ہو جائے اب بچے بڑے ہو کر یا تو خود وہ دفینہ نکال لیں گے یا اللہ کے حکم سے دیوار گر کر راز ان پر ظاہر ہو جائے گا اور وہ خزانہ ڈھونڈ لیں گے۔

ترمذی شریف میں ذکر ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونا چاندی دفن تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس دیوار کے نیچے ایک سونے کی تختی تھی جس پر لکھا تھا کہ اس کا حال عجیب ہے جو قضاء و قدر پر یقین رکھے اس کو غصہ کیسے آتا ہے۔ اس کا حال عجیب ہے جس کو رزق کا یقین ہو وہ کیوں پریشانی میں پڑتا ہے۔ اس کا حال عجیب ہو جس کو حساب کا یقین وہ غافل کیسے رہتا ہے۔ اس کا حال عجیب ہے جس کو دنیا کے زوال اور تغیر کا یقین ہو وہ مطمئن کیسے رہتا ہے۔

پھر کلمہ طیبہ لکھا تھا یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ دوسری جانب اس لوح پر لکھا تھا میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں میں یکتا ہوں۔ میں نے خیر و شر پیدا کیے ۔ اس کے لئے خوشی ہے جس کو خیر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر جاری کیا۔ اور اس کے لئے تباہی ہے جس کو شر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں شر جاری کیا۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ ان بچوں کے باپ کا نام کاشح تھا اور یہ شخص بہت پرہیزگار تھا۔

حضرت محمد ابن سکندر نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اس کی اولاد کی اولاد کو اس کے کنبے والوں کو اور اس کے محلے والوں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔ جب حضرت موسیٰ ؑ حضرت خضر ؑ سے رخصت ہونے لگے تو حضرت خضر ؑ سے فرمایا آپ مجھ کو کچھ نصیحت فرمائے۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا تبسم کی طرح ہنسنا یعنی قہقہہ نہ مارنا۔ بلا حاجت کسی شے کی طلب نہ کرنا۔ دوسروں کی غلطیوں پر طعنہ نہ دینا اور اپنی خطاؤں پر رونا۔ ان باتوں کی نصیحت فرمانے کے بعد حضرت خضر ؑ رخصت ہو گئے اور حضرت موسی ٰ ؑ بنی اسرائیل میں تشریف لے گئے اور اپنے فرائض نبوت و رسالت میں مصروف ہو گئے۔

حضرت خضر ؑ کے زندہ ہونے کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں۔ کہ سرکار دو عالم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد جب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ کے جسم اطہر کے پاس جمع ہو کر رونے لگے تو ایک شخص آیا جس کے سر پر بڑے بڑے بال تھے وہ دروازے کا بازو پکڑ کر آپ ﷺ کے غم میں بہت رویا۔ پھر اصحاب نبی ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ اللہ کے ہاں ہر مصیبت پر صبر ہے اور ہلاک کرنے والی چیز کا بدلہ ہے۔

اور اسی سے امید کرو کیونکہ بڑا مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم رہے پھر سلام کر کے چلا گیا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا اس کو بلاؤ تو۔ لوگوں نے چاروں طرف ڈھونڈا مگر وہ نہ ملے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا یہ حضرت خضر ؑ تھے اور ہماری تعزیت کے لئے آئے تھے پھر حضرت علی کرم اللہ وجہ ؓ نے بھی تصدیق فرمائی کہ یہ واقعی حضرت خضر ؑ ہی تھے۔ اسی طرح حضرت عوف ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ مسجد نبوی ﷺ میں بیٹھے ہوئے تھے۔

کہ باہر سے کسی باتیں کرنے والے کی آواز سن کر حضرت انس ؓ سے فرمایا کہ جاؤ اس باتیں کرنے والے سے کہو میرے لئے دعا کرے۔ حضرت انس ؓ نے جب ان سے یہ فرمایا تو انہوں نے آگے سے جواب دیا کہ آقا کریم ﷺ کی فضیلت تمام انبیاء پر ایسی ہے جیسی رمضان کی فضیلت دوسرے مہینوں پر۔ لوگوں نے جا کر دیکھا تو وہ حضرت خضر ؑ تھے۔ مروی ہے کہ طواف کعبہ میں حضرت علی ؓ نے کسی شخص کو گریہ کرتے پایا تو جا کر دیکھا تو حضرت خضر ؑ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments