جنگ عظیم دوم اسباب۔ واقعات اور نتائج


جنگ عظیم اول ( 1914 تا 1918 ) کی تباہ کاریوں کے تلخ اور ہولناک تجربے کے بعد یورپی ممالک آئندہ کے لیے جنگوں سے گریز اور قیام امن کو ضروری سمجھ رہے تھے

جنگ کے بعد 1919 کی پیرس امن کانفرنس میں جنگوں کو روکنے کے لیے ”لیگ آف نیشنز“ کی تنظیم تشکیل دینے سے توقع کی جا رہی تھی کہ یہ قیام امن کے لیے موثر ادارہ ثابت ہو گا۔

جنگ کے بعد اگلے دہائی تک فضا نسبتاً امن اور مفاہمت کی رہی مگر 1930 کے بعد صورت حال بدل گئی۔ اس دہائی کے حالات اور واقعات نے جنگ کو ناگزیر بنا دیا

1939 سے 1945 تک بڑی طاقتوں اور ان کے حلیفوں پر مشتمل دو متحارب گروپوں ( اتحادی اور محوری ) اور ان کے حلیفوں کے درمیان مختلف محاذوں پر لڑی جانے والی یہ دوسری عالمی جنگ انسانی تاریخ کی تباہ کن جنگ ثابت ہوئی

اسباب۔

یوں تو جنگ کے باقاعدہ آغاز کا فوری سبب یکم ستمبر 1939 کو جرمنی کا پولینڈ پر حملے کا واقعہ بنا مگر اس کے بنیادی اسباب اس سے پہلے کے کچھ حالات اور واقعات تھے

1۔ معاہدہ ورسیلز۔ 1919 کے پیرس امن کانفرنس میں طے کردہ ( بلکہ عائد کردہ) معاہدہ ورسلیز کے تحت جرمنی کو بعض علاقوں اور افریقی اور مشرقی ایشیا کے مقبوضات سے محروم کر نے کے علاوہ بھاری تاوان جنگ ادا کرنے اور کمزور فوج رکھنے کا بھی پابند کر دیا تھا

جرمنی کی طرف سے اس تضحیک آمیز سلوک کا ردعمل کسی وقت ناگزیر تھا۔ دوسری جنگ عظیم کا ایک سب سے بڑا سبب معاہدہ ورسیلز کے مضمرات تھے

( 2۔ آمرانہ حکومتوں کا ظہور۔

معاشی بحران اور سیاسی بد انتظامی کے باعث کچھ ممالک ( بالخصوص اٹلی اور جرمنی ) میں جمہوری کے بجائے آمرانہ بلکہ فاشسٹ حکومتیں قائم ہوئیں۔ جن کے قائد ہٹلر اور مسولینی بوجوہ امن کے بجائے جارحیت پر مائل تھے

3۔ نظریاتی کشمکش۔

یورپ میں ایک طرف جمہوری ممالک تھے۔ دوسری طرف روس میں سوشلسٹ آمریت جبکہ جرمنی اور اٹلی میں فاشسٹ آمریت تھی۔ مختلف نظریات اور سیاسی نظاموں والے ان ممالک کے درمیان کھچاؤ بھی یورپ میں جنگی تناؤ بڑھانے کا ایک اہم سبب بنا۔

4 کالونیل اور تجارتی رقابتیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی کو بہت سارے اہم علاقوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اٹلی اور جاپان کے اپنے تحفظات تھے۔ چونکہ یہ تینوں ممالک خاطر خواہ قدرتی وسائل نہیں رکھتے تھے۔ دوسرا اسی دوران عالمی کساد بازاری نے ان کے مسائل میں اضافہ کر دیا۔ خام مال اور پیداوار کے لیے منڈیوں اور اپنی زائد آبادی کو کھپانے کے لیے ان کو اضافی وسائل اور علاقے درکار تھے۔ ان تینوں ممالک ( جرمنی، اٹلی اور جاپان ) کی توسیع پسندانہ عزائم اور عسکریت جنگ برپا کرنے کے اہم عامل بنے

5۔ لیگ آف نیشنز کی ناکامی۔ یورپ میں امن کے قیام میں لیگ کا کردار موثر نہیں رہا تھا۔ متحارب کیمپوں کی خلاف امن سرگرمیوں کو رکنے میں ناکام رہی۔ 1931 کی دہائی میں جرمنی۔ اٹلی اور جاپان کی جارحانہ کارروائیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کر سکا۔ یوں اس کی ساکھ اور افادیت ختم ہو گئی تھی

1931 کی دہائی کے دوران درجہ ذیل چند ایسے واقعات تھے جو امن کے لیے شدید خطرہ بن رہے تھے مگر لیگ اف نیشنز ان تدارک کی پوزیشن میں نہیں تھی

( ا ) 1931 میں جاپان کا شمالی چین کے بڑے حصے پر قبضہ (ب ) 1934 / 35 میں اٹلی کا ابسینہ ( ایتھوپیا) پر حملہ ( ج ) 1935 ہٹلر کا معاہدہ ورسیلز کی خلاف ورزی اور جرمنی کو مسلح کرنے کا اعلان (د) 1936 میں اسپین کی خانہ جنگی میں جرمنی اور اٹلی اور روس کا پراکسی وار۔ (ر) 1936 میں جرمنی اٹلی اور جاپان کا باہمی معاہدہ کے تحت کمیونسٹوں کے خلاف ہر جگہ لڑنے کا اعلان ( ز ) 1937 میں جاپان کا چین پر حملہ۔

لیگ کی ناکامی کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کا ہٹلر کی جارحانہ پالیسیوں اور مطالبات کی مخالفت کے بجائے اس کو ”خوش کرنے کی پالیسی“ کا نتیجہ بھی امن کے لیے مضر ثابت ہوا

مارچ 1938 میں جرمنی نے پابندی کے باوجود جرمن آبادی کے ملک آسٹریا کا الحاق کیا

1938 میں جرمنی نے چیکوسلواکیہ کے ایک جرمن علاقے ( سڈٹین لینڈ ) پر دعوی کر دیا۔ میونخ کانفرنس میں برطانیہ اور فرانس کے وزرائے اعظم نے ”ہٹلر“ کا اس علاقے پر قبضہ کرنے کا حق اس توقع کے ساتھ تسلیم کیا کہ ”ہٹلر“ مزید علاقوں پر قبضہ نہیں کرے گا۔

مگر وعدہ کے باوجود ہٹلر نے 1939 میں چیکوسلواکیہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کا اگلا نشانہ پولینڈ ہو سکتا تھا۔ اس کے تدارک کے لیے برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کو جنگ کی دھمکی دی

ہٹلر کی پیروی میں اٹلی کے مسولینی نے البانیہ پر حملہ کر دیا۔ یوں یورپ میں جنگ کے خدشات بڑھنے لگے۔

اگست 1939 تک یورپی طاقتوں کا خیال تھا کہ جرمنی اپنے بڑے دشمن روس کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کے خوف سے پولینڈ پر حملہ نہیں کرے گا۔ مگر ان کا یہ خیال غلط نکلا جب جرمنی اور روس نے باہمی دوستی کا معاہدہ کر کے یہ طے کیا کہ وہ پولینڈ پر قبضہ کر کے آپس میں تقسیم کریں گے

جنگ کا باقاعدہ آغاز۔

یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ جس پر برطانیہ اور فرانس نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا (جرمنی کے خلاف برطانیہ کے اعلان جنگ کرنے سے اس کے ڈومینین آسٹریلیا۔ نیوزی لینڈ، ، جنوبی افریقہ اور کینیڈا اور انڈیا بھی جنگ میں شریک ہو گئے )

3 ستمبر 1939 سے یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔

روس نے پولینڈ کے مشرقی حصے قبضہ کرنے کے علاوہ پولینڈ کے شمال میں بالٹک ریاستوں ( لیٹویا، لیتھوانیا اور ایسٹونیا ) کو روس میں شامل کر لیا، تاہم فین لینڈ اس کے خلاف مارچ 1949 تک لڑتا رہا۔

برطانیہ اور فرانس کے اعلان جنگ کے بعد سات مہینوں تک فریقین کے درمیان لڑائی نسبتاً ہلکی رہی

جرمنی نے اپریل 1940 میں شمالی جانب ڈنمارک اور ناروے پر اچانک حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ (ناروے کے ساحل جرمنی کے لیے برطانیہ کے خلاف اقدام کے عمدہ بحری مستقر تھے )

مئی 40 میں مغربی جانب ”ہالینڈ، بیلجیم اور لکسمبرگ“ پر قبضہ کرنے بعد 14 جون کو پیرس کو فتح کیا۔

(اس موقع پر برطانیہ نے ”ڈنکرک“ کی بندرگاہ ( شمالی و مشرقی فرانس ) میں محصور ساڑھے تین لاکھ اتحادی فوج کو بڑی جانفشانی سے نکالا )

22 جون کو فرانس کے ہتھیار ڈالنے پر جرمنی نے فرانس کے شمالی حصے کو براہ راست تحویل میں لیا جبکہ جنوبی حصے میں ”مارشل پیتان“ کی سربراہی میں کٹھ پتلی حکومت قائم کر لی۔ اس کی حکومت ”وثنی“ حکومت کہلائی۔

سقوط فرانس کے بعد جنرل ڈیگال نے لندن میں جلا وطن حکومت قائم کر کے فرانس کی بازیابی کے لیے جدوجہد شروع کی۔

فرانس کے بعد ”ہٹلر“ کا اگلا ٹارگٹ برطانیہ تھا جہاں ”چیمبرلین“ کی جگہ ونسٹن چرچل وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔

جرمن اور برطانیہ کی فضائی لڑائی۔

13 اگست 1940 کو جرمنی نے برطانیہ پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا۔ ابتدا میں جرمن فضائیہ نے برطانوی ہوائی اڈوں اور فیکٹریوں کو نشانہ بنائے رکھا پھر 7 ستمبر سے اس کی شہروں پر بمباری شروع کی تاہم برطانوی فضائیہ کی زبردست مزاحمت کے باعث 16 مئی 1941 کو ہٹلر نے یہاں لڑائی معطل کر کے بحیرہ روم ( شمالی افریقہ ) اور مشرقی یورپ کی طرف رخ کر دیا۔

بحیرہ روم میں ہٹلر کا اہم مقصد اپنے جنگی حلیف ”مسولینی“ کی اعانت کرنا تھا۔ اٹلی جنگ کے آغاز مین غیرجانبدار تھا مگر جرمنی کا فرانس کو فتح کرنے کے بعد ”مسولینی“ فرانس اور برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کر کے جرمنی کا اتحادی بن گیا۔

( 27 ستمبر کو جرمنی اور اٹلی نے جاپان کو بھی اتحاد میں شامل کر لیا۔ ان کو ”محوری طاقتیں“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )

شمالی افریقہ محاذ۔

شمالی افریقہ کے پانچویں ممالک ( مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش ) یورپی طاقتوں کے ماتحت نوآبادیاتی اور نیم نوآبادیاتی تھے

ستمبر 1940 میں مسولینی نے برطانیہ کے زیر کنٹرول مصر پر حملہ کر دیا۔

فروری 41 میں برطانیہ نے جوابی کارروائی کر کے شمالی افریقہ میں نہ صرف 500 میل تک علاقے پر قبضہ کر لیا بلکہ ایک لاکھ اطالویوں کو قیدی بھی بنا لیا۔ ہٹلر نے اٹلی کی کمک کے لیے جنرل رومیل کے کمان میں جرمن فوج بھیجی جس نے مارچ کے اخیر میں برطانوی فوج کو لیبیا تک دھکیل دیا۔

جنرل رومیل اور برطانوی فوج کے درمیان شدید لڑائی میں جرمنی نے جون 42 میں برطانیہ کو صحرا میں دھکیل کر طبروق (لیبیا کی بندرگاہ) پر قبضہ کر لیا۔

خطہ بلقان۔

شمالی افریقہ میں جنرل رومیل کے زیر کمان جرمنی کی مہم جاری تھی جبکہ جرمن کے دوسرے جرنیل خطہ بلقان میں متحرک ہو گئے تھے۔

جنوب مشرقی یورپ کے خطہ بلقان کے ممالک پر قبضہ کرنا ہٹلر کا روس پر حملہ کرنے کے منصوبہ کا حصہ تھا۔

1941 کے اوائل میں ہٹلر نے بلغاریہ، رومانیہ اور ہنگری کو اپنے محوری اتحاد کا ساتھ دینے پر مجبور کیا جبکہ برطانیہ کی طرف دار یوگوسلاویہ اور یونان کے ممالک پر اپریل 1941 میں حملہ کر کے قبضہ کر لیا

روس پر حملہ۔

بلقان پر قبضہ کرنے کے بعد ہٹلر نے ”اپریش باربروسہ“ کے کوڈ نام سے 22 جون 1941 کو روس پر حملہ کرایا۔ اوائل نومبر میں جرمن فوج نے بالٹک ریاستوں اور ”یوکرین“ کو روندنے کے بعد ”لینن گراڈ“ کا محاصرہ کر کے اسے بقیہ روس سے منقطع کر لیا۔ طویل محاصرے کے نتیجے میں شہر کے تقریباً 10 لاکھ شہری بھوک اور سردی سے ہلاک ہوئے مگر شہر سرنگوں نہ ہوا

اکتوبر 1941 میں جرمن فوج نے روسی دارالحکومت ”ماسکو“ پر حملے شروع کیے مگر دسمبر میں شدید موسم سرما کی وجہ سے آگے پیش قدمی ناممکن رہی تو ماسکو سے 125 میل مغرب میں موسم بدلنے کے انتظار میں مورچہ زن ہو گئے۔

چرچل کے اس خدشے کے پیش نظر کہ روس پر قبضہ کرنے سے جرمنی یورپ میں غالب طاقت بن کر برطانیہ کے لیے زیادہ خطرناک یو جائے گا برطانیہ نے روس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔

اسی دوران چین بھی اتحادیوں کا حلیف بن گیا

جنگ اور امریکہ۔ اگرچہ ابتدا میں امریکہ جنگ میں شامل نہ ہونے کی پالیسی پر کاربند رہا تاہم مارچ 1941 میں برطانیہ کو ہتھیار فروخت کرنے اور اس کے بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کرنے کے فیصلہ سے بحر اوقیانوس میں جرمنی سے تناؤ کے باعث ہٹلر کے خلاف غیر علانیہ ”بحری جنگ“ میں شامل ہوا۔ مگر امریکہ کا جنگ میں باقاعدہ شرکت اس پر بحرالکاہل میں جاپان کے حملے سے ہوا۔

جاپان کی بحرالکاہلی مہم۔

ہٹلر کی طرح جاپان کے عزائم بھی توسیع پسندانہ تھے۔ عظیم تر مشرقی ایشیا کا ”مشترکہ خوشحالی حلقہ اثر“ ( پان ایشیا ) کے قیام کے نام سے چین میں مغربی اثر کا غلبہ ختم کرنے کا مشن اپنایا

1931 میں شمالی مشرقی چین میں ”مانچوریا“ پر قبضے کے بعد مرکزی چین میں طویل جنگ میں پڑ گیا۔ تو اپنی معیشت پر دباؤ کے باعث وسائل کے حصول کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کے مغربی کالونیوں پر قبضہ کرنا شروع کی۔ جولائی 1941 میں جاپان کا فرانسیسی انڈو چئینہ ( ویٹ نام۔ لاوس اور کمبوڈیا ) پر قبضہ کرنے سے امریکہ نے ”فلپائن“ اور ”گام“ میں اپنی کالونیوں کو ممکنہ خطرے کے پیش نظر امریکہ میں جاپان کے اثاثے منجمد کر دیے اور اسے تیل کی سپلائی منقطع کر لی۔ مگر جاپان نے جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ بحرالکاہل میں امریکی اڈوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ جاری رکھا

اس سلسلے میں جزیرہ ہوائی میں امریکی بندرگاہ پرل ہاربر میں بحری بیڑے پر 7 دسمبر 1941 کو اچانک حملہ کر کے اس کے 19 بحری بشمول 8 جنگی، 188 ہوائی جہاز تباہ کرنے کے علاوہ عملے کے 2300 افراد کو ہلاک کر دیا۔

اس کے ردعمل میں امریکہ نے جاپان اور اس کے حلیفوں کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر دیا۔

”پرل ہاربر“ پر حملے کے بعد جاپان برطانوی کالونی ”ہانگ کانگ“ اور امریکہ کے زیر کنٹرول ”“ گام ”اور“ جزیرہ ویک ”کے علاوہ تھائی لینڈ پر قبضہ کرنے کے بعد اپریل 42 میں فلپائن پر بھی قابض ہو گیا۔

ملایا، سنگاپور ڈچ ایسٹ انڈیز ( انڈونیشیا ) کے علاوہ مغربی جانب ”برما“ پر بھی قبضہ کر لیا۔ جہاں سے اس نے ایک طرف انڈیا پر حملے کے منصوبے کے تحت جنوبی ہند کے ساحلی مقامات پر بم برسائے۔ جبکہ دوسری طرف آسٹریلیا پر حملے کی مہم شروع کی

اتحادیوں کی بالادستی کا آغاز۔

1942 کے موسم بہار تک محوری طاقتوں کو جنگ کے تین بڑے محاذوں ( 1، بحرالکاہل 2۔ روس، اور 3 شمالی افریقہ ) پر بلا دستی حاصل تھی

جاپان چین کے ساحلوں، جنوب مشرقی ایشیا ( ہند چینی۔ تھائی لینڈ، برما، ملایا، انڈونیشیا، فلپائن ) اور بحرالکاہل کے کئی جزائر ( نیوگنی اور سولومن ) پر قابض ہو گیا تھا۔

جرمنی ماسکو تک یورپ پر کنٹرول حاصل کرچکا تھا۔ شمالی افریقہ کے محاذ پر بھی اتحادیوں کے مقابلے میں محوری جرمنی کی پوزیشن مضبوط تھی۔

تاہم 1942 کے وسط سے اتحادیوں کی پوزیشن بہتر ہونے لگی۔
تین فیصلہ کن لڑائیوں ( میڈ وے، سٹالن گراڈ اور اعالمین ) نے جنگ کا پانسہ اتحادیوں کے حق میں پلٹ دیا۔
1۔ میڈ وے کی لڑائی

مئی 42 میں بحیرہ کورال کی لڑائی میں اتحادیوں نے کافی نقصان اٹھانے کے بعد جنوبی جانب جاپانیوں کی پیش قدمی رک دی۔

4 جون کو جاپانیوں نے ”جزیرہ ہوائی“ سے 1500 میل مغرب کی جانب ”جزیرہ میڈ وے“ میں امریکی ہوائی اڈے پر حملہ کر دیا۔ مگر امریکہ نے جوابی کارروائی میں اس کے 332 ہوائی جہاز 4 طیارہ بردار اور ایک امدادی جہاز تباہ کر کے جاپان کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ میڈ وے کی لڑائی میں کامیابی سے بحرالکاہل میں جنگ کی صورت حال تبدیل ہو کر اتحادیوں کے حق میں ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں جارحانہ پالیسی اپنا کر اگست 42 میں ”جزیرہ سلومن“ میں جاپان کے ہوائی اڈے پر فوجیں اتار دیں چھ ماہ کی شدید لڑائی کے بعد فروری 1943 میں جاپانیوں سے جزیرہ چھین لیا۔

2۔ شمالی افریقہ کا محاذ۔ جون 42 سے جرمن لیبیا کی اہم بندرگاہ ”طبروق“ پر قابض ہو گئے تھے۔ جس کے بعد برطانیہ نے اپنی افواج کی کمان کے لیے جنرل ”منٹگمری“ کو بھیجا۔ اس وقت جرمن ”اسکندریہ“ ( استنبول ) کے مغرب میں واقع مصر کے گاؤں ”اعالمین“ تک بڑھ کر مورچہ بند ہو گئے تھے۔ 23 اکتوبر کی رات 1000 برطانوی فوجیوں نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔ 4 نومبر کو جنرل رومیل کی جرمن فوج مغرب کی جانب پسپا ہو گئی۔

8 نومبر کو امریکی جنرل آئرن ہاور کی کمان میں ایک لاکھ فوج مراکش اور الجزائر میں اتری۔

مئی 1943 میں جنرل منٹگمری اور جنرل آئزن ہاور کی فوجوں نے رومن جنرل رومیل کے ”افریقہ کور“ کو زبردست شکست سے دوچار کر کے شمالی افریقہ میں جنگ جیت لی۔

3۔ اسٹالن گراڈ کی لڑائی۔

جرمن افواج دسمبر 1941 میں ماسکو کے مضافات میں رکی تھیں۔ موسم بدلنے کے بعد اگلے سال پھر سے متحرک ہوئی۔ اسی سال ہٹلر نے روس کے جنوب میں واقع صنعتی شہر اسٹالن گراڈ پر بھی حملہ کروانے کے لیے چھٹی فوج روانہ کر دی۔

23 اگست 42 کو اسٹالن گراڈ کی لڑائی شروع ہوئی۔ جرمن نے شدید بمباری سے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا 90 فی صد شہر پر قبضہ کر لیا۔ مگر 19 نومبر کو روسی افواج اور عام شہریوں نے بڑی جانفشانی سے جوابی کارروائی شروع کی۔ 2 فروری 1943 کو جرمن کے 3 لاکھ 30 ہزار کی فوج میں بچ جانے والے 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس شکست سے جرمن جارحیت کے بجائے مدافعت پر مجبور ہوئے۔ روسی ان کو بلقان (ہنگری رومانیہ، بلغاریہ، یوگوسلاویہ) سے پسپا کرتے ہوئے مغرب کی طرف دھکیلنے لگے۔

اٹلی پر حملہ۔

روسی محاذ پر جرمنوں کی پسپائی پر 10 جولائی 43 کو اتحادیوں نے سسسلی پر حملہ کر کے ایک مہینے کے اندر اس کو جرمن اور اطالویوں سے خالی کرایا۔ یہاں پر شکست کے باعث مسولینی کو تحت سے اتار کر گرفتار کیا۔ نئی حکومت کے تحت اٹلی نے 3 ستمبر کو ہتھیار ڈال دیے اگرچہ اسی دوران جرمنوں نے شمالی اٹلی پر پھر سے کنٹرول حاصل کر کے مسولینی کو اقتدار دلوایا

مگر بالآخر جب جرمن شمال کی جانب پسپا ہوئے تو 4 جون 1944 کو اتحادی روم میں داخل ہو گئے تاہم اٹلی میں لڑائی مئی 1945 میں جرمنی کے ہتھیار ڈالنے تک جاری رہی۔

فرانس کی بازیابی۔

6 جون 44 کو اتحادی افواج نے امریکی جنرل آئزن ہاور کی کمان میں ”نارمنڈی“ کے ساحل سے فرانس پر حملے کا آغاز کیا۔ اس پہلے دن کی شدید لڑائی میں اتحادی فوج کو بھاری جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے اس کو ڈی ڈے ( یوم ہلاکت ) کے نام سے پکارا گیا۔ تاہم اتحادیوں نے ساحل کے سروں پر قبضہ برقرار رکھا۔ چند ہفتوں بعد 10 لاکھ کے اضافی فوج کی آمد سے اتحادیوں کی طاقت بڑھ گئی۔

25 جولائی کو جرمنی دفاعی حصار کو توڑا۔ اگلے ماہ اگست میں اتحادی پیرس میں داخل ہو گئے۔ اور ستمبر تک فرانس، بلجیئم اور لکسمبرگ کو جرمنی کے قبضے سے بازیاب کرایا۔

اس کے بعد اتحادیوں کا اگلا نشانہ خاص جرمنی ٹھہرا۔
اتحادی افواج نے مغرب اور روسی اس پر مشرق کی جانب سے پیش قدمی کرنے لگے۔

اس صورت حال میں ہٹلر نے مغربی جانب جوابی حملے کا حکم دیا۔ 16 دسمبر کو جرمن ٹینکوں نے اتحادی کو پیچھے دھکیلنا پر مجبور کیا۔ تاہم ٹینکوں کے اس لڑائی (جس کو ”بلج کی لڑائی“ کے نام سے جانا جاتا ہے ) میں بالآخر جرمن پسپا ہو گئے

بلج کی لڑائی کے بعد جرمنی کی شکست یقینی نظر آنے لگی۔ مارچ 1945 میں اتحادی ”دریا رائن“ عبور کر کے جرمنی میں داخل ہو گئے۔

25 اپریل تک ”برلن شہر“ 30 لاکھ اتحادی اور 60 لاکھ روسی افواج کے گھیراؤ میں آ گیا تھا۔
30 اپریل کو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔

7 مئی 1945 کو جرمنی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے تقریباً 6 سال سے یورپ کے محاذ پر جاری جنگ کا خاتمہ ہو گیا

جنوب مشرقی ایشیا کی صورت حال۔ مارچ 1944 کے وسط میں اتحادیوں ( جن کی زمینی فوج برطانیہ کے علاوہ برطانوی ہندوستان اور جنوبی افریقہ کے سپاہیوں پر مشتمل تھی ) نے برما کی بازیابی کے لیے جاپان کے خلاف مہم شروع کی

جس پر 22 مارچ کو جاپانی افواج نے وہاں سے ہندوستان کی شمال مشرقی سرحدی ریاست ”منی پور“ میں واقع ”امپھال“ میدان میں موجود برطانوی فوج کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں ہندوستان کے آزادی پسند لیڈر ”سبھاش چند بوس“ کی تیار کردہ ”آزاد ہند فوج“ جاپان کی معاون تھی۔ تاہم یہاں کئی مہینوں تک لڑائی میں کامیاب نہ ہونے کے باعث جاپانی جولائی میں برما واپس ہوئے۔

سال کے اخیر تک خطے میں اتحادیوں کی پوزیشن کافی مستحکم ہونے لگی تھی۔
اگلے سال ( 1945 ) جنگ کے خاتمے سے کچھ قبل وہ جاپانیوں سے برما آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
بحرالکاہل محاذ کی آخری لڑائی۔

اکتوبر 1944 سے جاپان کے خلاف اتحادیوں کی کارروائی میں تیزی آ گئی تھی۔ فلپائن کے جزیرے ”لے تی“ کی لڑائی میں جاپانی بحریہ کی جنگی طاقت کے خاتمے سے اس کے پاس صرف زمینی فوج اور خود کش پائلٹ رہ گئے تھے۔

اتحادیوں نے مارچ 45 میں شدید لڑائی اور بھاری جانی نقصانات کے بعد ٹوکیو سے 750 میل دور ”آئیووجیمیا“ جزیرہ چھین لیا۔ اپریل میں جنوبی جاپان سے 350 میل کے فاصلے پر ”اوکیناوا“ جزیرے پر حملہ کر دیا جاپانیوں نے پامردی سے مقابلہ کیا۔ مگر 21 جون کو اس شدید ترین زمینی لڑائی میں ان کو شکست ہوئی۔ اس لڑائی میں ایک لاکھ جاپانی اور 12 ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد اتحادیوں کی اگلی منزل جاپان تھا۔ امریکی صدر کی تنبیہ کے باوجود جب جاپانیوں نے سرنگوں ہونے سے انکار کیا تو 6 اور 9 اگست کو بالترتیب اس کے شہروں ”“ ہیرو شیما ”اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے۔ بالآخر 2 ستمبر کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے سے اس خون ریز طویل جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

چین
نتائج اور اثرات

1 جانی ہلاکتیں۔ تاریخ کی اس سب سے تباہ کن جنگ میں 6 کروڑ بشمول 4 کروڑ افراد جن میں 2 کروڑ روسی تھے۔ ہلاک ہوئے۔ جرمن مارے گئے

امریکی اموات کی تعداد 4 لاکھ اورجاپانیوں کی 20 لاکھ تھی

2۔ مادی اور معاشی اثرات۔ جنگ سے یورپ کا تقریباً ہر شہر کھنڈر بن گیا تھا۔ مواصلات اور آمد و رفت کے نظام تباہ ہو گئے۔ صنعت، زراعت اور تجارت کے شعبے شدید متاثر ہوئے جس کی وجہ سے یورپ کو عرصے تک بے روزگاری۔ بھوک اور قحط کا سامنا کرنا پڑا

3۔ معاشرتی اثرات۔ جنگ کا ایک نتیجہ یورپ میں وسیع پیمانے پر آبادیوں کی نقل مکانی اور بیدخلی کی صورت میں آیا۔

روسیوں کے ہاتھوں جرمنوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ پولینڈ، چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ، رومانیہ اور ہنگری سے جرمنوں کو بے دخل کیا گیا۔ 1945 / 46 کے درمیان ایک کروڑ 20 لاکھ جرمنوں کو مغربی جرمنی کی طرف دھکیلا گیا۔ جرمنوں کے علاوہ کئی دوسری اقوام ( سرب۔ یہودی۔ مسلمان۔ کروش، پولش، یوکرینی وغیرہ ) کے قیدی اور باشندے بھی مخالف فریقین کے شدید ظلم اور تشدد کا نشانہ بنے۔

بے پناہ قتل و غارت، بدخلیوں۔ بے روزگاری۔ قحط اور افلاس اور بیماریوں وغیرہ سے کروڑوں افراد شدید معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہے۔

4جیو پولیٹیکل نتائج۔

جرمنی کے کچھ صوبے پولینڈ اور روس کو مل گئے جبکہ بقیہ جرمنی دو حصوں ( مغربی اور مشرقی ) میں تقسیم کیا گیا۔

پولینڈ کے دو صوبے، شمال مشرقی رومانیہ۔ مشرقی فین لینڈ کے کچھ حصے اور تین بالٹک ریاستوں کو روس نے جذب کر لیا۔

جاپان امریکہ کے زیر انتظام لایا گیا۔
کوریا بھی دو حصوں ( شمال اور جنوبی) تقسیم ہوا۔

5۔ یورپ کی روایتی طاقتوں ( برطانیہ۔ فرانس۔ اور جرمنی ) کے بجائے امریکہ اور روس دنیا کے سب سے طاقتور ممالک کی حیثیت سے ابھرے۔ دونوں کے درمیان نظریاتی اختلافات کے باعث یورپ امریکہ اور روس کے زیر قیادت بالترتیب ”سرمایہ دارانہ جمہوریت“ ( مغربی یورپ ) اور ”کمیونسٹ بلاک“ (مشرقی یورپ ) میں تقسیم ہو گیا۔ جن کے درمیان اگلے چند دہائیوں تک جاری ”سرد جنگ“ کے عالمی سطح پر مختلف جہت اثرات رہے

6۔ شدید قوم پرستی کے مضر اثرات اور کمیونزم کے خطرے کے پیش نظر مغربی یورپ کے ممالک باہمی تعاون و اتحاد اور مفاہمت پر آمادہ ہو گئے۔

7۔ مستقبل میں جنگوں سے بچاؤ اور قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم تشکیل دی گئی۔

8۔ یورپ کی سمندر پار کالونیوں کی سلطنت بکھرنے لگی انڈیا، فلپائن، برما (میانمار) ، سری لنکا، ۔ ہند چینی، انڈونیشیا جلد آزاد ہو گئے

لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے تحت برطانیہ اور فرانس کے زیر نگران رکھے گئے مشرقی وسطی کے عرب ممالک ( فلسطین اردن شام۔ لبنان عراق ) بھی مکمل آزاد ہو گئے۔

( اقوام متحدہ نے فلسطین کے ایک حصے کو الگ کر کے اسرائیل کی ریاست قائم کی)

1950 / 1960 کی دہائیوں تک جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ کے بقیہ نو آبادیاتی ممالک نے بھی آزادی حاصل کر لی۔

9۔ فکری اثرات۔ جنگ کی ہولناک بربریت اور انسانی مظالم نے یورپی عوام کا عقل پر اعتماد متزلزل کر کے فکری انتشار میں مبتلا کر دیا جس سے وہاں مختلف حوالوں سے ذہن اور فکر کے زوایے تبدیل ہو گئے

____


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments