حیاتیاتی تنوع پر نیا عالمی معاہدہ


آج کل ملکی اور غیرملکی میڈیا میں حیاتیاتی تنوع کی اصطلاح کا استعمال بہت زیادہ ہونے لگا ہے۔ یہ حیاتیاتی تنوع کیا ہے؟ درحقیقت اس میں زمین پر موجود حیات کا ہر رنگ شامل ہے۔ کروڑوں برس سے حیاتیات کا ہر جزو اپنے مخصوص ماحول اور مدار میں محو بقا ہے۔ یوں اس خوبصورت دنیا کی سلامتی اور بقا کا دار و مدار قدرت کے متعین کردہ اصولوں پر ہے۔ دنیا میں اربوں انسان، حیوان، پرندے، حشرات، سمندری و آبی مخلوق اور جنگلی حیات اپنے ہم نسلوں کے درمیان رہتے ہوئے پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند رہ کر اپنی اور دیگر کروڑوں انواع و اقسام کی حیاتیاتی بڑھوتری اور ترقی کی منزلیں ازل سے طے کرتے آرہے ہیں۔ ماحولیاتی سطح پر حیاتیات کے اس تنوع کا برقرار رہنا انتہائی ناگزیر ہے۔ اس سے کرہ ارض پر انسانوں سمیت لاکھوں اقسام کی دیگر حیات کا محفوظ مستقبل منسلک ہے۔ تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ مستقبل اب غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔

صحت مند ماحولیاتی نظام موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناگزیر کردار ادا کرتا ہے۔ مگر دنیا کا ماحولیاتی نظام اب زیادہ صحت مند نہیں رہا۔ ورلڈ وائیڈ فنڈ اور لندن کی زوالوجیکل سوسائٹی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ نصف صدی میں دنیا بھر کے جنگلوں سے تقریباً ستر فیصد آبادی کا صفایا ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی سرگرمیوں کا ایک غیر صحت مند رجحان ہے۔ اگر انسانی ترقی اور بہتری کے تناظر میں دیکھا جائے تو زمین پر موجود حیاتیاتی تنوع کا نقصان ہر طرح کی حیات کے لیے خطرناک ہے۔

اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے دنیا کا باشعور طبقہ گزشتہ کئی سالوں سے انسانی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے ملکی اور عالمگیر سطح کے اقدامات کے لیے ملکوں اور خطوں کا ہم خیال ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا کے تقریباً 200 ممالک نے 7 سے 19 دسمبر تک کینیڈا کے شہر مونٹریال میں عالمی حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنانے کی کوششوں کے حوالے سے ایک بڑی کانفرنس کی ہے۔

اس سربراہی اجلاس میں شریک ممالک اگلی چند دہائیوں میں ماحولیاتی تباہی کو نہ صرف روکنے بلکہ اسے پلٹنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ نئے معاہدے کے تحت 2030 تک کرہ ارض کا تقریباً ایک تہائی یا تیس فیصد حصہ حیاتیاتی تنوع کے لیے پھر سے محفوظ بنا دیا جائے گا۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ اسی امید کا سہارا لیتے ہوئے عالمی میڈیا اس کانفرنس کی کامیابی کے ثبوت کے طور پر 30 کے عدد کو شہ سرخیوں میں اجاگر کر رہا ہے۔ جبکہ ماحولیاتی ماہرین نے کہا ہے کہ چین کی صدارت میں معاہدے کو کامیاب بنانا حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے عالمی کوششوں کو یکجا کرنے اور آگے بڑھانے میں اس کے اہم کردار اور عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت یہ عہد کیا گیا ہے کہ اگلے آٹھ سالوں میں دنیا کی کم از کم تیس فیصد زمین، اندرون ملک پانی، ساحلی علاقے اور سمندر ہر طرح کی حیاتیات کے لیے محفوظ بنا دیے جائیں گے۔ اس خیال پر عملی جامہ پہنانے کے لیے حیاتیاتی تنوع کے لیے اہم سمجھے جانے والے علاقوں مثلاً دلدلی اور بارشوں کے پانی پر انحصار کرنے والے علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا کا صرف 17 فیصد زمینی رقبہ اور 10 فیصد سمندری حصہ حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔

مونٹریال میں طے پانے والا معاہدہ حیاتیاتی تنوع کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے عزم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی مسائل پر کسی اتفاق رائے تک پہنچنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس حوالے سے مختلف ممالک کے مفادات کا آپس میں ٹکراؤ تحفظ ماحولیات کے ہر ممکنہ اقدام کے راستے میں آ جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی کسی بڑے عالمی پلیٹ فارم پر ایسی کوئی کوشش کامیاب ہوتی ہے تو اسے ایک بڑے بریک تھرو کے طور پر لیا جاتا ہے۔ مونٹریال میں ہونے والے اس معاہدے کو بھی اگلی دہائیوں کے لیے عالمی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی جانب ایک قابل ذکر قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ چین کا اہم کردار ہے۔

اس کانفرنس کے لیے سب سے زیادہ چیلنجز بھی چین جیسے ممالک کے عمومی روایتی کردار کے حوالے سے تھے۔ تاہم چین کی سربراہی میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت حیاتیاتی تحفظ کے لیے 2030 تک کم از کم دو سو بلین ڈالر ہر سال ملکی اور بین الاقوامی سطح کی کوششوں پر صرف کیے جائیں گے۔ یہ فنڈز سرکاری اور نجی شعبے میں متحرک کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ صرف ایک وعدہ ہے اور دنیا بھر کے ماحولیاتی طور پر متحرک ادارے، کارکنان اور تنظیمیں اب ایسے وعدوں پر فوراً اعتبار نہیں کرتے ہیں۔ خاص طور پر جبکہ اسی تناظر میں ترقی یافتہ ممالک نے ابھی تک ماحولیاتی نقصان سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔

اس معاہدے کے لیے بھی سب سے بڑا مسئلہ مالیات کا تھا۔ ماہرین نے اس بوجھ کو زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک پر ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نہ صرف جو ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی اور فنڈز سے لیس ہیں بلکہ ان کے پاس ضروری مہارتوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اس حیاتیاتی تنوع سربراہی اجلاس میں حصہ لینے والے ممالک نے مجموعی طور پر 23 اہداف پر اتفاق کیا ہے جن میں عالمی سطح پر خوراک کے ضیاع کو آدھا کرنا اور حکومتی سبسڈی کو کم یا مکمل طور پر ختم کرنا شامل ہے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ 2015 میں دنیا کے بیشتر ممالک نے پہلی بار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے مشترکہ ہدف پر اتفاق کیا تھا۔ اسے پیرس موسمیاتی معاہدہ کہا گیا تھا اور جب اس پر دستخط کیے گئے تو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا گیا تھا۔ 2022 کے اختتام پر کینیڈا میں طے پانے والے کن منگ مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک کو بھی پیرس معاہدے کی سطح کا بڑا اور اہم معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں اس معاہدے پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments