سولہ دسمبر: گانے ریلیز کرنے کا دن


”بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان“ ، یہ نعرہ لگانے والا اور جوانی میں اپنی سائیکل پر بنگال میں گلی گلی پاکستان بننے کے پوسٹر چسپاں کرنے والا شیخ مجیب الرحمن ہمارے لئے غدار ٹھرا۔

16 دسمبر 1971 کو پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا جس کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن تھے۔ میں نے 16 دسمبر کو بہت سے مضامین پڑھے اور تاریخ کے اوراق کو پلٹنے کی کوشش کی۔ بہت سارے مضامین اور سچے واقعات پڑھے کہ لوگ کیسے 1971 میں بنگلہ دیش سے جان بچا کر پاکستان بھاگے۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب کچھ لکھنے والوں نے بنگالیوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ یقیناً جب نا انصافیاں بڑھتی ہیں، ظلم بڑھتا ہے، لوگوں کے جائز حقوق کو سلب کیا جاتا ہے اور ان پر جنگ مسلط کر دی جائے تو آخر میں اس مظلوم کے پاس ہتھیار اٹھانے کے علاوہ اور کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ کسی کو دیوار سے لگانے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ قابل اجمیری نے صحیح کہا تھا کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں / حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔

پاکستان بننے کی تحریک بنگال سے ہی اٹھی تھی۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی عبدالحق بنگالی تھے۔ موجودہ پاکستان کے صوبے تحریک آزادی میں شریک نہ تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر جو انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے کی تھی، موجودہ پاکستان کے بارے میں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی لیکن یہ موضوع ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے لہذا اس کو چھوڑ کر بنگالیوں کے اس احساس محرومی ہر بات کرتے ہیں جو پاکستان کے ٹوٹنے کا سبب بنا۔

متحدہ پاکستان کی سب سے زیادہ برآمدات مشرقی پاکستان سے ہوتی تھیں لیکن تمام انتظامی اور مالیاتی ادارے مغربی پاکستان میں تھے۔ بنگال کا گورنر بھی لگانا ہوتا تو وہ مغربی پاکستان سے ہی جاتا تھا۔ جب وہاں طوفانی بارشیں اور سیلاب آتے تو امدادی کارروائیاں برائے نام ہوتیں اور بنگالیوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا۔ ساری بین الاقوامی امداد اور پیسے مغربی پاکستان والے ہی رکھ لیتے۔

1947 تک مشرقی پاکستان میں اساتذہ اور اسکالرز کی تعداد مغربی پاکستان کے مقابلے میں دگنی تھی لیکن 1967 تک آتے آتے مغربی پاکستان میں یہ تعداد تیس گنا بڑھی جب کہ مشرقی پاکستان میں صرف 5 گنا۔ یہی حال اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا تھا۔ مغربی پاکستان میں جتنی تعداد میں تعلیمی ادارے قیام میں آئے، اس کے آدھے بھی مشرقی پاکستان میں نہ تھے۔ 16 ریسرچ سینٹرز میں صرف تین مشرقی پاکستان میں تھے۔ اسکالر شپ اور ٹریننگ کے لئے صرف مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب سے لوگوں کو چنا جاتا۔ مشرقی پاکستان میں اس قسم کے اشتہارات جان بوجھ کر تاخیر سے شائع ہوتے جب ان کی میعاد مدت ختم ہونے کی قریب ہوتی۔ یعنی کئی برسوں تک ان کا تعلیمی سطح پر استحصال ہوتا رہا۔

بڑی اور اہم سرکاری ملازمتوں پر مغربی پاکستان کا غلبہ تھا اور صرف پندرہ فیصد ملازمین مشرقی پاکستان سے تھے۔ فوج میں یہ شرح صرف دس فیصد تک تھی۔ یعنی صرف دس فیصد فوجی مشرقی پاکستان سے تھے۔ بنگالی اعلی فوجی عہدیدار اور جنرلز کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔

اس پر بھی بس نہیں کیا گیا بلکہ بنگال میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ یعنی بنگال میں بنگلہ کی بجائے اردو زبان رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں جہاں دو مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں وہاں الگ الگ زبانیں قومی زبان کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈا جہاں انگریزی اور فرانسیسی زبان دونوں ہی قومی زبان ہیں۔ مانٹریال اور کیوبک صوبوں کی قومی زبان فرینچ ہے جب کہ کینیڈا کے دیگر صوبوں کی زبان انگریزی ہے۔

1956 سے لے کر اور 1971 تک فوجی آمروں نے بنگالیوں کی قومیت اور ان کی بنگالی شناخت پر بھی کئی وار کیے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا تعلق کلکتہ، بنگال سے تھا جن کو ادب کا نوبل پرائز بھی ملا۔ حالانکہ ٹیگور ہندو بنگالی تھا لیکن پھر بھی مغربی پاکستان کے فوجی آمروں نے ٹیگور کی کتابیں ضبط کر لی اور مارکیٹ سے غائب کروا دی گئیں۔ ٹیگور کی کتابوں پر پابندی بھی لگائی گئی۔ ایک اور مشہور بنگالی شاعر اور ادیب قاضی نذر الاسلام پر بھی اسی قسم کی کارروائیاں کی گئیں۔

اس کے بعد 1971 کے الیکشن آ گئے جہاں شیخ مجیب الرحمن کو 167 اور بھٹو کو 86 نشستیں ملی۔ اگر آپ تعصب سے باہر نکل کر سوچیں تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ شیخ مجیب الرحمن کو ہی پاکستان کا وزیراعظم بننا چاہیے تھا؟ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے بنگالی شیخ مجیب الرحمن کو اپنا وزیراعظم بنانا مناسب نہیں سمجھا اور الٹا شیخ مجیب الرحمن کو انڈین ایجنٹ بتا کر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ جنرل نیازی جب آپریشن کی قیادت کرنے مشرقی پاکستان پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے پان کا کاروبار اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیا۔ بنگالی بھائی جنرل نیازی کو بنگال کا قصائی بھی کہتے ہیں کہ جس طرح جنرل نیازی نے بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔

اتنے ظلم اور نا انصافیوں کے بعد یقیناً انہوں نے بھی انڈیا کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کی جائز جنگ لڑی۔ اس میں انہوں نے بھی کئی ظلم و ستم کیے ہوں گے لیکن مان لیجیے بنیادی کوتاہی اور غلطی ہماری ہی تھی۔

لیکن ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ 16 دسمبر کو ایک اور سانحہ رونما ہوا تھا جب 140 بچے اور اساتذہ پشاور کے ایک اسکول میں دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے۔ اس واقعے کے تمام کردار اور منصوبہ ساز جیل سے رہا کر دیے گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ہماری حفاظت کرنے والوں نے صرف ایک گانا ریلیز کرنے پر اکتفا کیا کہ ”مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ ۔ ہمارے اپنے دو کروڑ تیس لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں اور ہمیں اپنے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے؟ آپ ان کی فکر نہ کریں، ان کے بچے آئی آئی ٹی سے نکل کر گوگل، مائکروسافٹ، فیڈیکس، البرٹسن، آئی بی ایم اور ٹویٹر جیسی سینکڑوں کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ اور ہم پچھلے 75 سالوں سے صرف گانے بنا رہے ہیں، اے وطن کے سجیلے جوانوں /میرے نغمے تمہارے لئے ہیں۔

خدا نہ کرے اب کوئی ایسی 16 دسمبر ہمیں دیکھنی پڑے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو ہماری حفاظت کرنے والوں کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو، ایک گانا ریلیز کے لئے ضرور تیار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments