سقوط ڈھاکہ یا بجوئے دیباش


ہم وطنان عزیز، اگر کوئی چودہ اگست کو آپ سے یہ کہتا سنائی دے کہ اس تاریخ کو ”سقوط ہند“ ہوا تھا تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یقیناً اکثر اہل وطن اس سے اختلاف کریں گے اور ممکن ہے کہ کچھ تو باقاعدہ اشتعال میں آ کر پہلے ہندو کے مسلمان ہونے کی نامعلوم تاریخ سے اس روز کے تاریخی واقعہ کے ڈانڈے بلند بانگ، گرچہ بے مغز تقریر کے ذریعے ملانا شروع کر دیں۔ سو، بھائیو اور بہنو، اس خادم کا مخلصانہ، گو بظاہر تلخ مشورہ ہے کہ اب ذرا بڑے ہو جائیں اور سولہ دسمبر کو ”سقوط ڈھاکہ“ کا نام دینے کی بے مصرف اور بھاری لفظی پوٹلی سر سے اتار پھینکیں۔

اہل بنگلادیش بیک آواز اس دن کو ”بجوئے دیباش“ یا یوم فتح کا نام دیتے ہیں اور ہمیں برا لگے یا بھلا، تاریخی حقائق اور عالمی رائے عامہ ہمارے مقابلے میں ان کی اصطلاح کی حمایت میں ہیں۔ یہ خادم بنگلادیش میں ڈیڑھ سالہ قیام اور بنگلا بھاشا میں معمولی شد بد کے بل پر پڑھی سنی کے سبب اس خیال کا حامل ہے کہ بنگلادیشی احباب میں اپنی تاریخ کی کوڑیاں ایران، توران، عرب شریف یا ماضی بعید کی کسی موہوم روایت وغیرہ سے لانے کا ذوق کم پایا جاتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی زبان دراز اٹھ کر یہ کہہ ڈالے کہ ”بنگلادیش کا قیام اسی دن عمل میں آ گیا تھا جس دن کسی غیر بنگالی سرکاری افسر نے بنگالی مزدور کے منہ پر چانٹا مارتے ہوئے اسے میر جعفر کی اولاد کا لقب دیا تھا“ ، تو ہم آپ اس کا کیا بگاڑ لیں گے؟ یہ مثال فرضی سہی مگر یہ واقعہ بزرگ صحافی محترم علی احمد خان کی خود نوشت سوانح میں کم و بیش انہی الفاظ میں مروی ہے۔

اسی طرح، اس خادم کے خیال میں یہ حسابی بحث بھی قطعی غیر متعلق اور غیر ضروری ہے کہ آپریشن سرچ لائٹ کے شکار ہونے والے بنگالی سویلینز کی تعداد شیخ مجیب الرحمان کے دعوے کے مطابق تیس یا تین لاکھ تھی یا جنرل ٹکا خان سے منسوب اعتراف کی رو سے ”صرف“ تیس ہزار۔ بنگالیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے غیر بنگالیوں، بہاریوں وغیرہ کی تعداد پر خردہ گیری بھی بے معنی ہے۔ اس خادم کی نظر میں کسی ایک شخص کی جان کا زیاں بھی ظلم عظیم ہے، چہ جائے کہ وہ کھیل باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں اور منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا جائے جس کا میدان موجودہ بنگلادیش سن اکہتر میں کئی ماہ تک بنا رہا۔

یہ خادم اپنے بنگلادیشی احباب کا ممنون ہے۔ پہنچنے سے پہلے ہی، ظاہر ہے کہ، بنگلادیشی ہم کار اس خادم کی شبیہ کا، ”پاکستانی“ کے اپنی تاریخ میں لکھے گئے اور تعلیمی اداروں میں پڑھائے گئے کردار کی بنیاد پر، ایک تصور قائم کرچکے تھے۔ ابتداء میں تو بے شک رسمی احترام کے باوجود یک گونہ سرد مہری سی محسوس ہوتی رہی مگر غیریت کی دیوار ایک دو ہفتے میں ہی ڈھے گئی جب ہم کاران اس خادم کے بارے میں جان گئے کہ یہ قول اقبال، ”تمیز رنگ و بو بر ما حرام است“ پر عمل پیرا ہے اور خون انسان کی حرمت کو کسی بھی آدرش، قطعہ ارض یا اثاثے سے زیادہ گردانتا ہے۔ پھر تو ایسی دوستی قائم ہو گئی کہ اگرچہ بنگلادیش چھوڑے ایک عشرے سے زیادہ ہو گیا لیکن محبت بھرا تعلق اب تک مسلسل رابطے کے سبب محکم و استوار ہے۔

اس سب کے باوجود سن اکہتر کے انسانی المیے کے شکار مقامی کرداروں سے متعارف کروانے، اور اس دور پر فتن کی سختی جھیلنے والے لوگوں کو ایک ”پاکستانی“ سے بات چیت پر آمادہ کرنا ایک شدید کٹھن کام تھا، جس میں احباب نے اس خادم کی ناقابل یقین معاونت کی۔ قارئین اتفاق کریں گے کہ زنا بالجبر خصوصاً زنا بالجبر بطور جنگی حربہ ایک انتہائی لرزہ خیز تجربہ ہے۔ یہ خادم ان خواتین کا احسان تاعمر نہیں چکا سکتا جنہوں نے آنسوؤں کی جھڑیوں اور درد بھری سسکیوں کے ساتھ، جن میں اس خادم جیسا پتھر دل انسان بھی شریک ہوئے بنا نہ رہ سکا، اپنی ہڈ بیتی کا کچھ حال سنایا۔

جنگ بندی کے بعد مشرقی کمان کے دفاتر سے جو دستاویزات نئے ملک کے ہاتھ لگیں وہ ڈھاکہ کے ”مکتی جودھو جادو گھر“ یعنی فریڈم فائٹرز میوزیم میں محفوظ ہیں۔ موضوع سے دل چسپی رکھنے والے سنجیدہ محقق ان تک ذرا سی تگ و دو سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ میدان جنگ کی بگڑتی ہوئی صورت حال، اسلحے کے تیزی سے کم ہوتے ذخائر، مقامی لوگوں کی عدم ہم دردی اور دشمن کی عددی برتری کے سبب، ہتھیار ڈالنے کا [اس خادم کے خیال میں صائب] فیصلہ آٹھ دسمبر کو کر لیا گیا تھا۔ اگلے ایک ہفتے میں البتہ کچھ ایسے دل خراش واقعات رونما ہوئے جن کی کوئی عقلی توجیہہ، علاوہ اندھی نفرت کے سمجھ نہیں آتی۔

دس سے چودہ دسمبر کے درمیان پاکستانی فوج کے حلیف اور پروردہ ”رضاکاروں“ نے جن کی غالب اکثریت کا تعلق ایک اسلامی سیاسی جماعت سے تھا، بیسیوں ادیبوں، شاعروں، رقاصوں، ڈاکٹروں، استادوں، اور سماج میں نمایاں مقام رکھنے والوں، بلکہ شہید اللہ قیصر اور ظہیر ریحان جیسے عالمی شہرت کے حامل فن کاروں کو کرفیو کے دوران ان کے گھروں سے اٹھالیا۔ ان میں سے کچھ کے گھر والے ”خوش قسمت“ ثابت ہوئے کہ ان کی تشدد زدہ لاشیں تالابوں، ندی نالوں اور ویرانوں سے دستیاب ہو گئیں۔ باقیوں کا کچھ پتا نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا بیتی۔ ان میں سے بہت سے علانیہ طور پر اس وقت جاری شورش میں غیر جانب دار اور کچھ تو علیحدگی پسند تحریک کے واضح مخالف تھے۔ قدر مشترک ان سب میں یہ تھی کہ وہ حب الوطنی یا اسلامی سیاست کی سرکاری طور پر منظور شدہ تعریف پر پورے نہ اترتے تھے۔ اس خادم کو ان میں سے بہت سوں کے اہل خانہ سے ملنے اور ان کی کشمکش زیست سن کر شرم سار ہونے کا موقع ملا۔

تقریباً جتنے فہمیدہ اور سنجیدہ بنگلادیشی احباب سے اس خادم کی دوستانہ پیرائے میں بات ہوئی، وہ پچیس سالوں پر محیط استحصال، بد انتظامی، حتی کہ شورش کے دوران ہونے والے جانی نقصانات تک کو پس پشت ڈال کر مستقبل کو دوستانہ اور روشن بنانے کی تراکیب سوچنے پر آمادہ نظر آئے، لیکن اس خونی ہفتے میں اہل دانش کے بظاہر بے فائدہ قتل عام کے بھلانے کو بنگلادیش کے اجتماعی ضمیر کے لیے ناقابل قبول قرار دیا۔ یہ متذکرہ بالا متنازع اعداد و شمار والی بحث بھی نہیں ہے کہ دامن بچانے کی، بودی ہی سہی، کوئی راہ نکل سکے۔ اس ظلم عظیم کی شہادتیں جید مغربی پاکستانی تجزیہ کاروں کی تحریروں میں بھی موجود ہیں سو اسے محض دشمن کا پراپیگنڈا کہہ کر بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔

1971 - A sculpture in Meherpur showing the execution of intellectuals - banglades / East Pakistan
A sculpture in Meherpur showing the execution of intellectuals

یہ سوال پچاس سال سے منتظر توجہ ہے کہ ہم نے، بالخصوص مقتدر طبقات نے، سن اکہتر کے المیے سے کچھ سیکھا یا نہیں؟ کیا ریاست کے باقاعدہ یا بے قاعدہ مسلح جتھوں کے ذریعے کسی کو سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ماورائے عدالت غائب کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے، یا قتل کرنے کے قبیح فعل کو ہمارے سماج نے اجتماعی طور پر کراہت انگیز اور ناقابل قبول قرار دیا ہے، یا اب بھی پانچ دہائیاں پہلے کی طرح، اس کی تاویلیں تراشنے اور اس کی بد صورت برہنگی کو ”وسیع تر قومی مفاد“ کے تار تار پردے میں ڈھانپنے کا سلسلہ جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments