کیا پاکستان کا قیام انگریزوں کی سازش تھا؟ قسط 2


گزشتہ قسط میں مرحوم خان عبد الولی خان صاحب کے اس دعوے کا ذکر کیا گیا تھا کہ قیام پاکستان کی تجویز برطانوی حکمرانوں کی طرف سے پیش کرائی گئی تھی اور اس کے بعد انگریز حکمران مسلسل اس تحریک کی، مسلم لیگ کی اور قائد اعظم کی سرپرستی کرتے رہے۔ اور اس سرپرستی میں پاکستان وجود میں آیا۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں خان عبد الولی خان صاحب اس خط و کتابت کا حوالہ دیا تھا جو کہ اس وقت کے وائسرائے لنلتھگو اور وزیر برائے ہندوستان زیٹلینڈ کے درمیان ہوئی تھی۔ ہم اسی خط و کتابت کی روشنی میں ان دعووں کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے۔ یہ ریکارڈ برٹش لائبریری لندن میں محفوظ ہے۔

قرارداد لاہور کے ایک ماہ بعد 24 اپریل 1940 کو وزیر برائے ہندوستان زیٹلینڈ نے وائسرائے کو جو خط لکھا اس میں مسلم لیگ کے مطالبے کا ذکر ان الفاظ میں کیا۔

” یقینی طور پر میں آپ کی یہ پریشانی سمجھ سکتا ہوں کہ میں کوئی ایسی بات نہ کہوں جو جناح کو ناراض کرے۔ لیکن حقیقت میں میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اس سے کم کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قرار داد کی حیثیت انتہائی مایوسی کی حالت میں کیے جانے والے فیصلے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے باوجود میں نے جو کچھ کہا اس کی ہندوستان میں اس لئے مذمت کی گئی کیونکہ مذمت کرنے والوں کے نزدیک یہ اس سکیم کی نیم دلانہ مذمت تھی جس پر ہندوستان کے غیر مسلم حقارت سے ہنس رہے ہیں۔ اور راجر لیملے کے مطابق اس تجویز کے نتیجہ میں مسلمانوں سمیت ہندوستان کے تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کو شدید ذہنی دھچکا لگا ہے۔ اس تجویز نے دوسری اقلیتوں کی جانب سے ملنے والی حمایت کو بھی ختم کر دیا ہے اور یہ گروہ اب کانگرس کی طرف رجوع کریں گے۔

مجھے امید ہے کہ میں نے چند روز پہلے ٹیلیگرام کے ذریعہ جناح کے لئے جو شرائط بھجوائی تھیں وہ اسے خاموش رکھنے کے لئے کافی ہوں گی لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہی ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے حال میں جو رویہ اپنایا ہے اس سے میرے ان خدشات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا اظہار میں نے گزشتہ موسم گرما میں کیا تھا۔ آپ پر بھی اب یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہو گی کہ ہم ہندوستان میں جس طرح کی فیڈریشن بنانے کی امید کر رہے تھے، مسلمان اس کے راستہ میں سب سے خطرناک رکاوٹ بن گئے ہیں۔ ”

برطانوی وزیر کے الفاظ اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں کہ ہندوستان کے لئے انہوں نے جو بھی منصوبے بنائے تھے، قرارداد لاہور کے بعد مسلم لیگ ان منصوبوں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔ اور وزیر صاحب اس بات پر لال پیلے ہو رہے تھے۔ اور قائد اعظم کی سرپرستی کرنا تو دور کی بات ہے۔ اعلیٰ سطح پر برطانوی حکومت اس الجھن میں مبتلا تھی کہ انہیں کس طرح خاموش رہنے پر مجبور کیا جائے۔

اسی خط میں زیٹلینڈ ان الفاظ میں اپنی پریشانی کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا۔

” ہندوؤں کی ہندوستان سے باہر کوئی وابستگیاں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کی دعوت سرحدوں کو عبور کرتی ہے۔ اگرچہ جب سے مصطفے کمال پاشا نے خلافت کو ختم کیا ہے، یہ اثر بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی اس میں کافی دم موجود ہے۔ مثال کے طور پر جناح ہم سے یہ شرط منوانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہندوستان کی افواج کو کبھی کسی مسلمان ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اور وہ مسلسل فلسطین کے عربوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔

میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبہ کے مطابق مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست وجود میں آ جاتی ہے تو شاید مستقبل میں یہ ریاست کسی اسلامی کامن ویلتھ کا حصہ بن جائے۔ خاص طور پر ہندوستان کے شمال مشرق میں اگر یہ مسلمان ریاست وجود میں آئی تو یہ ریاست مغرب میں شمالی افریقہ اور ترکی اور مشرق میں افغانستان کے مسلمان علاقوں سے جغرافیائی طور پر جڑی ہوگی۔ ”

جب ہم ان خطوط کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ برطانوی حکومت کے وزیر مسلسل قائد اعظم اور قرارداد لاہور کے بارے میں نہ صرف سخت بلکہ نا مناسب الفاظ میں اپنی تلملاہٹ کا اظہار کر رہے تھے، مثال کے طور پر 9 مئی کو انہی وزیر صاحب نے وائسرائے کے نام اپنے خط میں قائد اعظم کے بارے میں لکھا

” لاہور کے اجلاس میں اسے جس قسم کی شراب پیش کی گئی ہے اس کا مزاج اس طرح کی سر کو چڑھنے والی شراب کے خمار کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ یہ شخص ہندوستان میں متحارب گروہوں کو قریب لانے میں کسی قسم کی مدد نہیں کرے گا۔“

ان دنوں میں نواب بہادر یار جنگ ریاستوں میں مسلم لیگ کے لئے کافی کام کر رہے تھے 9 مئی کے اسی خط میں وزیر صاحب نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ نواب بہادر یار جنگ نے یہ کوششیں کی تھیں کہ لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں دوسرے مسلمان ممالک سے مندوبین بھی شامل ہوں۔ اس خط کے ایک روز بعد برطانیہ کی حکومت تبدیل ہو گئی اور چیمبرلین کی جگہ چرچل وزیر اعظم بن گئے اور اس کے ساتھ کابینہ کے وزراء بھی تبدیل ہوئے۔ اور زیٹلینڈ کی جگہ ایمرے (Amrey) نے ہندوستان کے امور کی وزارت کا قلمدان سنبھال لیا۔

ان تاریخی حقائق کے پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی تبدیلی کے ساتھ مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بارے میں برطانوی حکومت کے رویہ میں کوئی تبدیلی آئی کہ نہیں؟ ظاہر ہے کہ اپنے پیش رو کی طرح ایمرے بھی باقاعدگی سے وائسرائے ہند کو خطوط لکھتے تھے جو کہ برٹش لائیبریری لندن میں محفوظ ہیں۔ ان کا مطالعہ ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مدد کرے گا۔

16 ستمبر 1940 کو نئے وزیر صاحب نے وائسرائے ہند کے نام اپنے خط میں لکھا

”آپ کی ٹیلیگرام سے میرے ذہن میں جناح کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مسلمانوں کے نظریات کی ترجمانی کرنے اور مشترکہ مفادات کے لئے کام کرنے کی بجائے مسلم لیگ میں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔ کیا آپ اس بات کو سمجھ سکے ہیں کہ پاکستان کی سکیم سے اس کی کیا مراد ہے؟ میرے نزدیک ہندوستان کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں توڑ دینا سب سے زیادہ تباہ کن حل ہو گا اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی ترقی کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی۔“

اس کے بعد اس خط میں وزیر موصوف تحریر کرتے ہیں کہ ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی براہ راست منتخب ہونے کی بجائے صوبوں اور ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوں۔ اور اگر آئندہ سے صوبوں کا نام سٹیٹ رکھا جائے اور ہندوستان ایک کنفیڈریشن کی صورت میں متحد رہے تو ہو سکتا ہے مسلمان اس کو تسلیم کر لیں۔ اس خط کے آخر میں ایک نوٹ تحریر کیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ گاندھی کی یہ کوشش ہے کہ وہ کانگرس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھیں اور کانگرس متحد بھی رہے۔ اور یہ تاثر دیا جائے کہ کانگرس حکومت کی مخالفت کر رہی ہے لیکن اس احتیاط سے کہ حکومت سے تعلقات منقطع بھی نہ ہوں۔

ممکن ہے بعض لوگ وزیر صاحب بہادر کے خیالات سے اتفاق کریں اور دوسرا گروہ ان خیالات کو ان صاحب کے ذہنی تکبر کا نتیجہ قرار دیں۔ یہاں پر یہ بحث نہیں کی جا رہی کہ ان کے یہ افکار درست تھے یا غلط۔ البتہ مجھے اس بات پر حیرت ضرور ہے کہ جیسا کہ خان عبد الولی خان صاحب نے اپنی کتاب
Facts are Facts
میں تحریر فرمایا ہے، اس کتاب کی تصنیف سے قبل انہوں نے برٹش لائبریری لندن میں اس ریکارڈ کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کے باوجود ان خطوط کی بنیاد پر انہوں نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کر لیا کہ انگریزوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر پہلے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے ایک میمورنڈم لکھوایا اور پھر مسلم لیگ سے یہ مطالبہ کروایا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کی جائے۔

اور اس مقصد کے لئے مسلم لیگ اور قائد اعظم نے جو تحریک چلائی وہ برطانوی حکومت کی سرپرستی اور ظل حمایت میں چلائی گئی تھی۔ ان خطوط کے مطالعہ سے بالکل برعکس حقائق سامنے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکومت تقسیم ہند کی اس تجویز کی سخت مخالف تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کا علیحدہ ملک ان کے مفادات کے خلاف ہو گا۔ ان کی بھرپور کوشش تھی کہ جیسا کہ کانگرس اور نیشنلسٹ مسلمانوں کا مطالبہ تھا، ہندوستان ایک متحدہ ملک کی صورت میں موجود رہے۔

ان خطوط میں اگرچہ گاہے گاہے گاندھی جی اور پنڈت نہرو پر بھی تنقید کی گئی ہے لیکن جس دشنام طرازی کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح پر دانت پیس پیس کر اظہار ناراضگی کیا گیا ہے اس سختی سے کسی اور شخصیت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اگلی قسط میں ہم اس تجزیہ کو مزید آگے بڑھا کر یہ دیکھیں گے کہ اگلے چند ماہ میں ایمرے صاحب نے تحریک پاکستان کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کرتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments