شادی کا تحفہ


شیلا کو دس سال تک، اپنی نانی، جو اس کے خاوند کی رشتے دار بھی تھی، کی طرف سے دیے گئے شادی کے تحفے کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ نانی کی طرف سے یہ شرط تھی کہ یہ تحفہ، نانی کی موت کے بعد کھولا جائے گا۔ شیلا کی ماں نے ایک دن، شیلا کو فون پر اس کی نانی کے انتقال کی خبر سنائی۔ شیلا کے خاوند ستیش نے بھی یہ خبر سنی۔ ستیش اور شیلا کے لئے آخر کار یہ لمحہ آ گیا تھا جس کے لئے انہوں نے دس سال تک انتظار کیا تھا۔ ستیش، اپنی نانی ساس کا تحفہ، جو ایک صندوق میں بند تھا، اور سالہا سال سے گھر کے تہہ خانے میں تھا، اوپر لے آیا۔

شیلا اور ستیش کی شادی، اچھے حالات میں نہیں ہوئی تھی۔ ستیش کا بچپن اچھا نہ ہونے کی وجہ سے، شیلا کی نانی ستیش کو پسند نہیں کرتی تھی اور نہ ہی نانی نے ان دس سالوں سے اس جوڑے کے ساتھ کوئی راہ و رسم روا رکھے تھے۔ لیکن پھر بھی شیلا اور ستیش اپنی زندگی میں خوش تھے۔ ستیش اور شیلا کے خاندان، ہمیشہ ان کی زندگیوں میں مشکلات ڈالتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کا جینا دوبھر کرتے۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ ان دونوں کی علیحدگی بھی کرا دیتے۔

ان دس سالوں میں شیلا اور ستیش نے ہمیشہ شیلا کی نانی کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کی تھی لیکن بے سود۔ شیلا کی نانی نے صرف شادی کے دن شادی کے تہوار پر ، اس طرح سے حصہ لیا کہ کوئی بھی نانی کو دیکھ نہ سکے۔ اور اپنا شادی کا تحفہ، صندوق میں ڈالنے کے بعد ، صندوق کے باہر ایک لفافہ چسپاں کرنے کے بعد وہاں سے چپ چاپ روانہ ہو گئی تھی۔ اس لفافے پر ایک عبارت تحریر تھی کہ یہ صندوق نانی کی موت کے بعد کھولا جائے۔ چونکہ یہ خاندان کے بزرگ کی حیثیت سے نانی کا حکم تھا اس لئے اس کی نافرمانی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

خاندان کی کسی بھی فرد کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ اس صندوق میں شیلا کی نانی نے کیا رکھا ہو گا۔ قیاس آرائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس صندوق کو کھولے۔ اس جوڑے کے دل و دماغ میں یہ صندوق کا تحفہ چھایا رہتا تھا۔ ہنی مون یا تعطیلات، غرض ہر وقت، صندوق ان کے حواس پر چھایا رہتا تھا۔ عموماً وہ سوچتے کہ شاید شیلا یاستیش کی بچپنی زندگی کے ساتھ اس تحفے کا گہرا تعلق ہے۔ خاندان میں یہ افواہیں گردش کرتی تھیں کہ شیلا کی نانی نہ صرف اپنی ذاتی زندگی سے نا خوش تھی بلکہ اس کا اپنا بچپن بھی اچھا نہیں گزرا تھا۔

اس لئے اس نے اپنے خاندان والوں سے رشتہ ناتا ختم کر دیا تھا۔ اس کے خاوند کی جوانی میں موت ہو گئی تھی اور اس نے اپنے بچوں کو بہت مشکل سے پالا تھا۔ اور بچے بلوغیت کی عمر پہنچنے کے بعد اس کو چھوڑ گئے تھے اور وہ تن تنہا ایک دور دراز گاؤں میں جا بسی تھی جہاں وہ اپنے خاندان کے کسی بھی فرد سے نہیں ملتی تھی اور نہ ہی کوئی اس سے ملتا تھا۔

چونکہ نانی کسی سے ملاقاتیں نہیں کرتی تھی۔ اس لئے شیلا اور ستیش کے لئے ایک شادی کا تحفہ کسی اچنبھے سے زیادہ نہیں تھا۔ نانی کی موت کی خبر پاکر، اچانک ان کو صندوق کا خیال آیا اور وہ تہہ خانے سے صندوق کو اوپر لے آئے۔ صندوق کو کچن کی میز پر رکھ کر ، صندوق پر چسپاں ہوئے خط کو دیکھا جس پر لکھا تھا کہ ”برائے مہربانی صندوق مت کھولیں“ خط میں مزید لکھا تھا کہ وہ یعنی نانی شیلا اور ستیش سے بہت پیار کرتی ہے۔ لفافے میں دو ہوائی جہاز کے ٹکٹ تھے جو ایک صحت افزا مقام کے لئے تھے۔

اور ساتھ ہی کچھ شرائط لکھی ہوئی تھیں۔ کہ دو مہینے کے بعد یہ جوڑا، اس صحت افزا مقام کے ایک خاص علاقے میں جائے گا۔ اور صندوق کو ابھی بالکل نہیں کھولا جائے گا۔ آخر کار، دونوں میاں بیوی اس صحت افزا مقام پر پہنچتے ہیں۔ بند صندوق کو ساتھ لے کر ایک ہوٹل، جس کا پتہ خط میں تحریر تھا، پہنچنے کے بعد مزید انکشاف ہوا کہ ابھی ان کو ایک، ہوٹل میں دیے گئے خفیہ پتے پر پہنچنا ہے۔ ابھی تک ایڈونچر مکمل نہیں ہوا تھا۔ دونوں میاں بیوی ایک ٹیکسی کے ذریعے اس خفیہ پتے پر پہنچتے ہیں۔

آدھے گھنٹے کی مسافت کی بعد ٹیکسی ایک قبرستان کے دروازے پر رکتی ہے۔ شیلا نے سمجھا کہ شاید یہاں شیلا کی نانی کی لاش کی راکھ مدفن ہو گی۔ دونوں میاں بیوی نے اس کی قبر کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اچانک انہوں نے قبرستان میں ایک جگہ نانی کا نام لکھا ہوا پایا۔ اس کے بالکل ساتھ ہی قبرستان میں، شیلا کے نانا کا نام لکھا ہوا پایا جو کافی سالوں سے فوت ہو چکے تھے۔ دونوں میاں بیوی نے نانی کی لاش کی راکھ کے مرتبان کے ساتھ، صندوق کے اندر ایک دوسری لاش کی راکھ کا مرتبان موجود پایا جو اس کے خاوند کا تھا یعنی شیلا کے نانا کا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments