”ہم سب“ کو کرسمس مبارک ہو


میرے تحریری سفر میں ”ہم سب“ کا نمایاں کردار ہے۔ ویسے میں اپنی کیمونٹی کے مختلف اخبارات میں کئی سالوں سے لکھ رہا تھا لیکن جب پہلی مرتبہ ”ہم سب“ میں 18 مئی 2019 کو میرا پہلا آرٹیکل شائع ہوا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اب یہ ”ہم سب“ پر میرا 54 واں آرٹیکل ہے۔ جہاں ہم سب نے مجھے بے پناہ اعتماد دیا وہاں مزید لکھنے کے لئے تحریک بھی دی۔ ”ہم سب“ سے نئے قارئین اور سب سے بڑھ کئی مایہ ناز لکھاری ملے جن کی تحریریں پڑھ کر نئی تحریک ملی۔

ہم سب پر لکھتے ہوئے یہ خوف اور ڈر نہیں رہتا کہ شاید یہ آرٹیکل شائع نہ ہو۔ میں اس بات کا کئی مرتبہ اظہار کرچکا ہوں کہ ”ہم سب“ نے مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر مبنی تحریروں کو ان کے اپنے نقطہ نظر سے لکھنے اور شائع کرنے پر بھرپور توجہ دی ہے۔ اس وقت شاید ”ہم سب“ ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سب سے زیادہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لکھاری بڑی دلیری اور آزادی سے لکھتے ہیں اور قارئین کی طرف سے بھی انہیں بھرپور حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ میں ”ہم سب“ کے لئے کرسمس کے موقع پر آرٹیکل لکھنا چاہتا تھا سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا لکھوں۔ دل پر ایک بوجھ تھا جو ہلکا کرنا چاہتا تھا سو جو سوچا لکھ ڈالا۔

ہر سال کی طرح امسال بھی 25 دسمبر کو دنیا بھر کے مسیحی کرسمس یعنی ”عید ولادت المسیح“ منا رہے ہیں۔ پاکستان میں اسے ”بڑا دن“ بھی کہتے ہیں۔ دسمبر میں پاکستان کئی وجوہات کی بناء پر سیاسی افراتفری کا شکار رہتا ہے اور اس سال بھی صورتحال کوئی اچھی نہیں ہے۔ ملک میں ایک ہیجان اور بے یقینی کی کیفیت ہے، مہنگائی اور معاشی ابتری کی وجہ سے عام انسانوں کا جینا دو بھر ہوا ہے۔ پاکستان میں مسیحیوں کی اکثریت معاشی اور سماجی طور پر مضبوط نہیں ان کے لئے خوشیوں کا یہ تہوار کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

رشتہ داروں اور برداری میں تو انسان کسی طرح گزارہ کر ہی لیتا ہے لیکن اپنے گھر اور بچوں کا سامنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے تو یہ تہوار نئے کپڑے اور شاپنگ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لئے یہ کرسمس کسی بھی طرح کسی آزمائش سے کم نہیں۔ محنت مزدوری اور کم تنخواہ کے حامل افراد کے لئے واقع ہی یہ عیدیں اور تہوار خوشیوں سے زیادہ مشکلات کا امتحان ہوتے ہیں جہاں انہیں ہر طرف سے حساب رکھنا پڑتا ہے۔

میں جب بھی یہ سوچتا ہوں تو ہمیشہ روح میں ایک عجیب سی اداسی ہوتی ہے۔ ایک طرف کرسمس ڈنر پارٹیاں اور بڑے بڑے اجتماع اور دوسری طرف اکثریت کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ عید کے دن کیا پکائیں گے تاکہ اپنوں میں عزت رہ جائے۔ خیر کرسمس ایک مذہبی سے زیادہ سماجی اور معاشی فیسٹول ہے جہاں ایک عام انسان کے لئے بہت مشکل ہوتی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی ابتری نے عام انسان کی کمر توڑ دی ہے۔

کرسمس کے موقع پر مجھے نئے کپڑے پہنچتے ہوئے، اچھے کھانے کھاتے اور چند لوگوں کو خوش دیکھ کر ایک عجیب اداسی ہوتی ہے کہ عام لوگ کیسے اپنے تہوار مناتے ہوں گے۔ ان کے گھروں میں کیا ماحول ہوتا ہو گا، ایک غریب باپ کیسے اپنے بچوں کے سامنے بے بسی کا سامنا کرتا ہو گا۔ بچوں کے ذہن میں کیا کیا سوال آتے ہوں گے، جب وہ اپنے جیسے دوسرے بچوں کو نئے کپڑے پہنتے دیکھتے ہوں گے۔

کرسمس کہ جہاں بہت سے پہلو ہیں وہاں سب سے اہم اور بنیادی مقصد مستحق اور پس ماندہ لوگوں کو زندگی کی خوشیوں میں شامل کرنا ہے۔

کرسمس شیئرنگ اور کیئرنگ کا نام ہے۔ بدقسمتی سے ان پس ماندہ بستیوں میں رہنے والوں مسیحیوں کے لئے نہ تو ان کے اپنے ہم مذہب کوئی خاطر خواہ مدد کر پاتے ہیں، نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی ایسی اسکیم یا پروگرام متعارف کروایا جاتا ہے۔ نہ اس سلسلے میں کوئی این جی او اور مخیر حضرات لوگوں میں خوشیاں بانٹے کو انسانی بھلائی سمجھتے ہیں۔ کئی اداروں اور گھروں میں محنت مزدوری کرنے والوں کو نہ جنوری کی ایڈوانس

تنخواہ، عیدی اور راشن دیا جاتا ہے۔ عجیب صورتحال یہ بھی ہے کہ ان کے لئے کوئی آواز بھی نہیں اٹھتا ہے۔ معروف شاعر جناب حمید ہنری نے کیا خوب لکھا ہے۔

ع
اے مسیحا! یہ کیا ہے کہ سر شام طرب
کوئی افسردہ، کوئی زمزمہ پرداز رہے

میری آپ سے گزارش ہے کہ اس مرتبہ مستحق اور پس ماندہ طبقے کے افراد کو صرف کرسمس مبارک کہنے کی بجائے کوشش کریں کہ کسی ایک خاندان کا کرسمس ایسا بنا دیں کہ وہ کرسمس کو ”بڑا دن“ یا خاص دن سمجھ سکے ورنہ ان کے لئے یہ صرف روایتی دن ہی رہے گا۔ آپ سب کو کرسمس کی خوشیاں مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments