پاکستانی سیاست کی تلاطم خیزیاں اور دم توڑتی معیشت


پاکستان میں سیاست ایک سیلاب بلا کی شکل اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ کافی عرصے سے جاری سیاسی بحران نے ملکی معیشت کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔ ہمارا ملک جو کم وسائل کی وجہ سے ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو مملکت خداداد میں بسنے والے غریب کم وسیلہ کروڑوں افراد کو روزگار، رہائش اور ان کی تعلیم و علاج کا بندوبست کرنا ہے مگر ملک میں جاری بحران سے معیشت سکڑتی جا رہی ہے، لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ کاروبار بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں جس سے ملک میں جرائم بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ سکولوں سے باہر ان پڑھ بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مہنگائی میں اضافہ سے تنخواہ دار درمیانہ طبقہ بھی بدحال نظر آتا ہے۔ اوپر سے حالیہ قدرتی آفات نے ملکی انفراسٹرکچر بھی متاثر کر دیا ہے۔ مگر ان مسائل پر بیٹھ کر غور فکر کرنے کی بجائے سیاستدان اقتدار حاصل کرنے یا اس کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا تن من دھن لگائے ہوئے ہیں۔

عوام کو ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ مگر نہ تو کوئی سوشل پروگرام دینے کے لئے تیار ہے نہ کوئی انقلابی منشور سامنے آیا ہے۔ نہ تو کوئی سرمایہ داروں کے خلاف بات کرتا ہے اور سوائے سیاسی مخالفین کو نشانے بنانے کے کرپشن کم کرنے کے لئے کوئی عملی کارروائی نظر نہیں آتی ہے۔ تھانہ کچہری میں عوام کے ساتھ ہر کسی کی حکومت میں ایک جیسا سلوک ہو تا آ رہا ہے۔

تحریک انصاف کو وفاقی حکومت سے ہٹانے کے وقت سے یہ سیاسی عدم استحکام ہے کہ تھمنے کو نہیں آ رہا۔ عمران خان نے لانگ مارچوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو پریشر میں لانے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر ان لانگ مارچوں کا ایک ہی نتیجہ نکلا کہ حکومت ملکی مسائل حل کرنے میں ناکامی کا ملبہ بھی اس سیاسی عدم استحکام کو دے رہی ہے حالانکہ کچھ عرصہ پہلے اسحاق ڈار کو لانچ کیا گیا تھا کہ ملکی معیشت مستحکم ہو جائے گی اور عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا مگر اب ڈار صاحب بھی ناکامی کی تصویر بنے پھرتے ہیں۔

عمران خان اور ان کی جماعت نے جو منترا شروع کیا ہوا ہے کہ صرف جلد انتخابات ہی ملک کو اسی معاشی گرداب سے نکالنے کا ایک طریقہ ہے مگر اس بات کو وضاحت کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا کہ الیکشن کے بعد کیسے معیشت سنبھل جائے گی اور ڈیفالٹ کا خطرہ کیسے ٹل جائے گا۔ اگر الیکشن میں پی ٹی آئی اکثریت نہیں لے پاتی تو خان صاحب نے تو ان الیکشن کو ہی تسلیم نہیں کرنا جس سے عدم استحکام عروج پر پہنچ جانا ہے اور اگر جیت جاتی ہے تو ان کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے ملک میں ڈالروں کی بارش شروع ہو جائے گی اور مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

پی ٹی آئی اپنے چار سالہ دور میں کسانوں کو کوئی پیکج نہیں دے سکی نہ زرعی بجلی سستی کی گئی جس کی وجہ سے زراعت اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ امریکہ اور یورپ سے تعلقات خراب کیے گئے۔ سی پیک کا جاری منصوبہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ بے تحاشا غیر ملکی قرضے لیے گئے مگر ملک کو درپیش بڑے مسائل جیسے آبادی میں اضافے، مذہبی انتہا پسندی اور مہنگائی کے خلاف کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہ بن سکا۔ تو اب الیکشن جیت کر وہ کیسے ملک کو اس گمبھیر صورتحال سے نکال پائیں گے۔ کیا سیاستدان اپنے اقتدار کی خاطر گتھم گتھا رہنے کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے لئے ایک ٹیبل پر نہیں بیٹھ سکتے۔

لانگ مارچ کوئی ٹھوس نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہوا اور نئے آرمی چیف نے فوج کی کمان سنبھال لی ہے تو اب سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت تھی اس کی بجائے پی ٹی آئی نے دو صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا مگر اس سلسلہ میں فوری اقدام کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جا تا رہا۔ کم از کم ان دو صوبوں میں نئے انتخابات کے بعد عوامی ردعمل کا پتہ چلتا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں اس کی بجائے مسلم لیگ نون نے بھی الیکشن سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ق لیک اور پی ٹی آئی کی حکومت قائم رکھنے کے حربے استعمال شروع کر دیے ہیں جس سے لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی اعتماد کی کمی ہے۔

اور وہ تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کو تسلیم کرتی ہے۔ مگر اس کو اب نہیں تو نو دس ماہ بعد اس امتحان سے گزرنا ہی ہے اور اگر عمران خان بھی یہ چند ماہ لڑنے جھگڑنے کی بجائے الیکشن کا انتظار کر لیں اور حکومت سے مثبت انداز میں مذاکرات کریں۔ تمام پارٹیوں کو مل بیٹھنا چاہیے اور میثاق معیشت کر کے ملک کو اس بحران سے نکالنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments