معدوم ہونے والا ڈوڈو پاکستان کو حیرت سے تک رہا ہے


سنہ 1598 کے لگ بھگ ولندیزیوں کا ایک جہاز بحیرہ ہند میں واقع ماریشیس کے جزیرے پر لنگر انداز ہوا۔ ولندیزی ملاح جب ساحل پر اترے تو ان کو ایک عجیب و غریب پرندہ نظر آیا جو آج نیچرل ہسٹری کی کتابوں میں ڈوڈو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میں نے بھی آج سے دس سال قبل اپنی لندن یاترا کے دوران وہاں کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں موجود آخری حنوط شدہ ڈوڈو کا دیدار کیا تھا۔

یہ پرندے اب دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں اور اس وقت کہیں بھی نہیں پائے جاتے۔ ڈوڈو کے معدوم ہونے کی کہانی بہت دردناک ہے۔ ڈوڈو پرندے ماریشیس اور اس کے ملحقہ جزیروں ری یونین اور روڈ ریگس میں پائے جاتے تھے۔ ان جزیروں پر کسی بھی قسم کی کیمیاوی خرابیاں نہیں تھیں اور نہ ہی یہاں پر حشرات الارض اور رینگنے والے جانور موجود تھے، اس لیے ان پرندوں کو اپنی نسل کی بقاء کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرنی پڑتی تھی۔ خوش قسمتی سے ان جزیروں کی آب و ہوا بھی گرم اور مرطوب تھی۔

سردیوں کے مہینوں میں کافی حد تک گرم اور موسم گرما میں بہت گرم نہیں رہتی تھی، لہٰذا ڈوڈو سارا سال نہایت اطمینان سے اپنی زندگی کا وقت گزارتے تھے۔ ڈوڈو پرندے ان جزیروں کی زمینوں پہ بلا خوف و خطر گھومتے رہتے تھے۔ یہ جوڑوں کی شکل میں رہتے تھے۔ ایک وقت میں ایک انڈا دیتے تھے۔ ان کا گھونسلا عام طور پر زمین پر ہی بنا ہوا ہوتا تھا جو مٹی کی کیچڑ، درختوں کی شاخوں اور پتوں کی مدد سے بنایا جاتا تھا۔ ڈوڈو اپنے انڈوں کو سات ہفتوں تک سیتا تھا اور سینے کے اس عمل میں نر اور مادہ دونوں برابر کے حصے دار ہوتے تھے۔

انہیں اپنے انڈوں کی حفاظت کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے یہ جہاں چاہتے تھے انڈے دے دیا کرتے تھے، حتیٰ کہ ان کے انڈے جزیرے کے کھلے میدانوں میں بکھرے ہوئے پائے جاتے تھے اور ان انڈوں میں سے مقررہ وقت پر چوزے نکل کر بلا خوف و خطر جزیروں میں پھرتے رہتے تھے۔ ان جزائر میں سترہویں صدی تک کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ کہنے کو تو ”ڈوڈو“ ، پرندوں کی ہی نسل سے تھے لیکن ان میں اڑنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی تھی اور نہ ہی یہ تیرنا اور تیز دوڑنا جانتے تھے۔

تیز نہ چلنے کی وجہ ان کی جسمانی ساخت تھی جس میں ان کا حد سے زیادہ بڑھا ہوا پیٹ شامل تھا۔ ان تمام حالات میں ڈوڈو کا قدرتی دشمن کوئی تھا ہی نہیں۔ یہ اپنے اردگرد کے ماحول میں رچ بس گئے تھے، انہیں اپنے ماحول سے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ ان کی غذا پودوں اور دیگر نباتاتی جڑی بوٹیوں پر مشتمل تھی۔ یہ غذا ڈوڈو بغیر کسی مشکل کہ وافر مقدار میں اپنے ارد گرد کے ماحول سے باآسانی حاصل کر لیا کرتا تھا۔ کیونکہ انسانی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے ماریشیس کے وہ جزیرے مختلف پودوں اور دوسرے قدرتی نباتات سے بھرے پڑے تھے۔

عجب بات ہے کہ دنیا کے جغرافیے پر بھی نئے نئے ملک، ریاستیں اور سلطنتیں ابھرتی ہیں اور ان میں سے کچھ ڈو ڈو کی طرح معدوم ہوجاتی ہیں۔ اگر ہم پچھلی صدی پر نظر ڈالیں تو اس کی سب سے بڑی مثال سویت یونین کی ہے۔ اس عظیم الشان ملک کا شیرازہ 1991 میں بکھر گیا۔ اسی طرح کچھ اور چھوٹے چھوٹے ملک جیسے یوگوسلاویہ، چیکو سلواکیہ، مشرقی جرمنی وغیرہ وغیرہ ڈوڈو پرندے کی طرح دنیا کے نقشے سے معدوم ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ملک کچھ علاقوں کو جوڑ کر مصنوعی طور پر تخلیق کیے گئے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارا

ملک پاکستان بھی 1947 میں اسی طرح تخلیق کیا گیا تھا لیکن دنیا کے نقشے سے معدوم ہونے والے ممالک صرف اس وجہ سے دنیا کے نقشے سے نہیں غائب ہوئے کہ وہ مصنوعی طور پر بنائے گئے تھے بلکہ وہاں صحیح معاشی، سیاسی اور سماجی نظام بھی رائج نہ ہوسکا۔ میرا ملک پاکستان بھی پچھلے پچھتر برس سے انہی مسائل سے دوچار ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈوڈو پرندوں میں نہ اڑنے کی صلاحیت تھی، نہ ہی یہ تیز دوڑنا اور تیرنا جانتے تھے۔ تیز نہ چلنے کی وجہ ان کی جسمانی ساخت تھی جس میں ان کا حد سے بڑھا ہوا پیٹ شامل تھا۔ میرے دیس میں بھی ابتدائی دنوں کے حکمرانوں کی اکثریت نوابوں اور جاگیر داروں اور انگریزوں کے تربیت یافتہ سست سرکاری عمال پر مشتمل تھی۔ ہم نے ملک کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے پہلی ضروری دستاویز جس کو آئین کہتے ہیں، بنانے میں چھ سال لگا دیے۔ اور وہ آئین بھی بمشکل تمام دو سال نافذ رہ سکا۔

اس کے بعد آئین کے نام پر 1973 تک کھلواڑ ہوتا رہا اور جو بندوبست بھی ملکی نظام چلانے کے لیے کیا گیا اس میں مرکز کو ہی تمام اختیارات کا منبع بنا دیا گیا جب کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک صوبے کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ پھر شروع ہی سے ہمیں غیر ملکی امداد اور قرضوں کی عادت پڑ گئی اور یہ غیر ملکی رقوم بجائے اس کے دور رس صنعتی، تعلیمی، سماجی اور زرعی منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہمارے حکام اپنے ذاتی اللوں تللوں میں خرچ کرتے رہے۔

ہمارے ساتھ ہی ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان بھی آزاد ہوا تھا۔ جب ہمارے ملک میں شیورلیٹ، امپالا، مرسیڈیز، امریکن کراسلر جیسی کاریں درآمد کر کے استعمال کی جا رہی تھیں، اس وقت انڈیا میں صرف ایک کار ایمبیسڈر جو مقامی طور پر تیار کی جاتی تھی صرف وہی استعمال ہوتی تھی اور ہم اس وقت ہندوستانیوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ آج ہندوستان میں پچاس سے زیادہ بین الاقوامی برانڈ کی کاریں سو فیصد مقامی طور پر تیار کر کے بیچی جا رہی ہیں اور ہم پچھتر سال گزرنے کے باوجود اب بھی کوئی کار سو فیصد مقامی پرزوں سے تیار کر کے نہ بنا سکے۔

کس کس بات کو رویا جائے اور تو اور ہم کپڑے سینے والی معمولی سی سوئی بھی درآمد کرتے ہیں۔ اور کتوں اور بلیوں کے کھانے والی غذا بھی غیر ممالک سے آتی ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی ہمارا بہت برا حال ہے۔ ایک آدھ یونیوسٹی کو چھوڑ کر ہمارے کسی بھی تعلیمی ادارے کی اسناد غیر ممالک میں قابل قبول نہیں۔ کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن اس شعبے میں بھی منصوبہ بندی اور ریسرچ کا فقدان ہے۔ کبھی ہم کپاس درآمد کرتے ہیں کبھی گندم اور کبھی چینی، ہم نے زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی اس سلسلے میں جدید سائنسی طریقے استعمال کیے۔

یہ ہی حال قدرتی وسائل کی تلاش اور دریافت شدہ قدرتی وسائل کے استعمال میں ہے۔ پچاس کی دہائی میں دریافت ہونے والی قدرتی گیس کو ہم نے اس بیدردی سے استعمال کیا کہ نہ اب گھریلو استعمال کے لیے یہ گیس موجود ہے نہ صنعتی استعمال کے لیے ۔ گیس کے تقسیمی نظام میں بھی ظالمانہ نا انصافی کا مظاہرہ کیا گیا کہ جس صوبے میں گیس دریافت ہوئی وہاں آج پینسٹھ سال گزرنے کے باوجود صوبے کا بڑا حصہ گیس کی فراہمی سے محروم ہے۔

جس طرح ڈو ڈو اپنے ارد گرد کے ماحول سے فائدہ اٹھا کر وافر مقدار میں اپنی غذا حاصل کر لیتا تھا اسی طرح پچاس کی دہائی سے لے کر جب تک روس اور امریکہ سرد جنگ میں مصروف رہے اور مزید جب تک افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے نہیں پا گیا

پاکستانی حکام اپنے ارد گرد کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے رہے اور مغربی طاقتوں کے لیے کرائے کے فوجی کا کردار ادا کرتے ہوئے مال بناتے رہے۔ وائے افسوس اب ارد گرد کا ماحول تبدیل ہو گیا اور یہ پاکستان کی ستر سال کی پڑی ہوئی مفتا توڑنے کی عادات سے لگا نہیں کھا رہا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ستر سال کی ہماری تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود کبھی بھی معاشی ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں محسوس کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ 1971 میں ہمارا ملک دولخت ہو گیا تھا اس وقت بھی کوئی معاشی دیوالیہ کی بات نہیں کرتا تھا۔

حالانکہ اس وقت پہلی دفعہ روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں بہت کم کرنا پڑی تھی۔ لیکن ملک کی معیشت چلتی رہی تھی۔ اب کھلے عام ڈیفالٹ کی باتیں ہو رہی ہیں بنک، امپورٹ کی ایل سی کھولنے سے قاصر ہیں۔ مگر ہم اب بھی خواب خرگوش سے جاگ نہیں رہے اور لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں موجود دنیا کے آخری ڈوڈو کا حنوط شدہ وجود ہمیں حیرت سے تک رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments