سال 2022، ہم کہاں کھڑے ہیں


وقت ایک تیز پانی کے دھارے کی مانند ہے جو اپنی یکساں رفتار سے بہہ رہا ہے۔ لمحات، دن میں، دن مہینوں میں، مہینے سال میں اور سال صدیوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ ایک انسان ہے جس کی نہ تو رفتار میں یکسانیت ہے اور نہ تبدل کو زوال ہے۔ سال 2022 ء بھی گزر گیا، میرے وطن کے باشندگان اب اس بحث میں پڑنے کو تیار ہیں کہ یہ تو عیسوی سال ہے، ہمارا سال تو اسلامی ہے اور وہ محرم سے شروع ہو گا۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ اس دنیا میں غالب کا سکہ چلتا ہے، ہم نے عروج حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، بس عوام الناس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ہے۔

جب یہود و ہنود شمشیر و سناں کو اولین اہمیت دیتے دکھائی دیتے ہیں تو ہماری اکثریت بمعہ اہل و عیال موبائل کیمرہ ہاتھوں میں لئے، ٹک ٹاک، لائیکی اور سنیک ویڈیو پہ اپنی اور اپنے بچوں کی ڈانس اور پارٹی کی ویڈیو اپ لوڈ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جب دنیا کا ہر شخص ایک سال گزرنے پر اپنا اور اپنی قوم کا محاسبہ کرتا دکھائی دے گا، ہم کسی گائے کے بچھڑے، یا بکری کے میمنے پر لفظ اللہ لکھا ہوا، ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہم اس حقیقت کو بھی فراموش کر چکے ہیں کہ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے۔

میری ناقص رائے کے مطابق سال 2022 ء معاشی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی انحطاط کا سال رہا۔ ایک طرف معاشی طور پر ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں لیکن اخلاقی اور معاشرتی طور پر بھی ہم نے اپنی جہالت کا لوہا منوانے کی بھر پور سعی کی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2021 ء میں ہم دنیا کے 180 کرپٹ ممالک میں 40 ویں نمبر پر ہیں۔ جس کا بنیادی سبب وہ چور اور ڈاکو ہیں جو ذاتی اغراض کی خاطر تقسیم پاکستان سے لے کر آج تک ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں جن کا اقتدار میں آنے کا بنیادی مقصد لوٹ مار اور کمیشن کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہمارے اہل سیاست ایک پکا پکایا حلوہ کھانے کے لئے اقتدار میں آتے ہیں لیکن ان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کی ایک پلیٹ کی تیاری کے بعد پوری ہانڈی کون چٹ کر جاتا ہے؟ ، حلوے کی یہ پلیٹ قوم کے لئے کتنی نقصان دہ ہوتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہمارے اہل سیاست اس ملک کو ایک غیر محفوظ ملک تصور کرتے ہوئے اپنی شناخت چھپاتے ہوئے کرپٹو کرنسی اور آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق ہم کرپشن کے میدان میں 180 ممالک میں ترقی کرتے ہوئے 124 ویں سے 140 ویں، یعنی اس وقت ہم 40 ویں نمبر سے بھی اوپر آ جائیں گے۔ اس سے صاف طاہر ہے کہ اکثریت نے اس ملک کی آمدنی اور ذرائع کو ایک بہتی گنگا سمجھ رکھا ہے اور اس میں ہاتھ کے ساتھ منہ اور پاؤں دھونے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ہر میدان میں اپنی ناکامی کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، معیشت کو اتنا کرونا نے نقصان نہیں پہنچا یا جتنا ہم اپنے کمزور قوت فیصلہ اور غلط حکمت عملی سے نقصان پہنچا چکے ہیں۔ تعمیر کی بجائے تخریب اور شاخ تراشی جیسے قبیح فعل نے ہمارے گلستان کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گلو بل ہنگر انڈیکس (GHI) کے مطابق 121 غریب ممالک میں پاکستان کا 22 واں رینک ہے۔ بے روز گاری اور مہنگائی کی شرح، ٹیکسوں کی بھر مار نے نہ صرف غریب کا بھرکس نکال دیا ہے بلکہ سفید پوش اور تنخواہ دار طبقے کی مہنگائی کی وجہ سے کمر ٹوٹ چکی ہے۔

آٹے، دال، گھی اور چینی کی قیمتیں پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ بڑھ تو جاتی ہیں لیکن کسی ذی ہوش حکمران نے یہ نہیں سوچا کہ جب بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اشیائے صرف کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہوتیں؟ یاد رہے کہ بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد سے بڑھ کر 6.4 فیصد ہو چکی ہے جب کہ ہمارے وطن عزیز کے 5.8 فیصد سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے کرنے پر مجبور ہیں، یہ وہ افراد ہیں جو دو ڈالر یومیہ سے کم خریداری کرتے ہیں۔

غربت کا تناسب بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ہماری تنزلی اور زوال کا سب سے اہم سبب ایک غیر مستحکم سیاسی نظام بھی ہے، آئے روز ہڑتالوں، سیاسی جلوسوں اور دھرنوں نہ صرف مزدور کی دیہاڑی چھین لیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کا پہیہ بھی چلنے سے رک جاتا ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پاتا۔

اعداد و شمار، مختلف سروے اور تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا نے ہماری قوم کی آنکھوں اور دماغ پر یوں پٹی باندھی ہے کہ تصویر کا جو رخ ہمیں دکھایا جاتا ہے، ہم اسی کو سچ مانتے ہوئے اندھا دھند تقلید کرتے ہیں۔ ہمارا عائلی، تعلیمی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی نظام اس وقت مکمل طور پر سوشل میڈیا کے نرغے میں ہے۔ ہماری قوم کے بچے سے لے کر بوڑھے تک ہر فرد اپنی منزل اور مقصد کا تعین سوشل میڈیا پر دکھائی گئی چکا چوند سے کرتا ہے۔

رومانویت اور جسم کی نمائش سے بھر پور اشتہارات اور ڈرامے ہماری نسل کو تباہ کرنے میں اپنا مکمل کردار ادا کر چکے تو محرم رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے کے لئے پورن موویز اور ٹی وی چینل کے ڈرامہ کو استعمال کیا گیا۔ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام، رشتوں کی تقدیس اور اخلاقیات کو مادیت اور مادہ پرستی کے زہر کے ذریعے دن بدن کمزور کیا جا رہا ہے۔ طلباء و طالبات کے سر سے جماعت دہم تک امتحانات کو بوجھ سر سے ہٹانے کے بعد اس کے ہاتھ میں سمارٹ فون پکڑانے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہمارے ان پالیسی ساز افراد کا ہے جو اپنا ضمیر ملک دشمن عناصر کو فروخت کر چکے ہیں ہمارے تعلیمی نظام کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ امر اطہر من الشمس ہے کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران بیرونی طاقتوں نے ہمیں تعلیمی میدان میں پس ماندہ رکھنے کے لئے اپنے سرمائے اور دماغ کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ گریڈنگ سسٹم سے لے کر تعلیمی نصاب کی تبدیلی اور پھر امتحانات کے خاتمے کے بعد ، ”مار نہیں پیار“ کے نعرے کے ذریعے۔ اقبال کے شاہین کو کرگس بنانے کے لئے سوشل میڈیا جیسا زہر قاتل بھی پلا دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments