سال نو اور کچھ خیالات


 

ایک سال اور تمام ہونے کو ہے، اختتام ہونے کو ہے۔ نہ جانے کیوں ”سال“ ہر سال ہی بدل جاتے ہیں۔ وقت کے بے تحاشا مظالم میں ایک ظلم یہ بھی ہے کہ ہر گزشتہ سال ہمارے بال کھینچ کر اور جھنجھوڑ کر ہمیں نئے سال میں داخل کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہر صدی کے بعد بغیر ہماری مرضی کے ”وقت“ ہمیں اگلی صدی میں دھکیل دیتا ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں قید ساتویں، آٹھویں صدی کے لوگ ہیں۔ خیر بات صدی کی نہیں سال کی کو رہی تھی۔ ہم کچھ دنوں بعد اکیسویں صدی کا تئیسواں سال درآمد کرنے جا رہے ہیں۔ یا ایسا کہئیے کہ اکیسویں صدی کا بائیسواں سال بھی ہمیں دھتکارنے کو ہے۔ ہمیں سال 2022 سے سال بدر کیا جا رہا ہے جیسے شہر بدر یا ملک بدر کیا جاتا ہے۔

اگر اس سال کا عبوری جائزہ لیں تو یہ سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح ایک ناکام، بیکار، فضول اور نہایت غیر اہم سال رہا ہے۔ خود میرے لیے بھی اور ”ملک رہبر ترقی و کمال“ یعنی پیارے پاکستان کے لیے بھی۔ اس سال میں ”وقت“ ہمیں بار بار ایسے موڑ پر لایا کہ یوں محسوس ہوا جیسے اس سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز وزیراعظم کے بجائے کوئی جنرل کرے گا۔ بارہا حالات و واقعات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ یہ آیا مارشل لاء، وہ آیا مارشل لاء۔

یقیناً اس سال کی سب سے اچھی بات یہی ہے کہ ہماری جمہوریت نے ایک سال اور مکمل کر لیا۔ میرے استاد اور روزنامہ ”ہم سب“ کے ایڈیٹر جناب وجاہت مسعود صاحب پیرائے تبسم میں فرمایا کرتے ہیں کہ ”کچھ لوگ یونہی پڑے پڑے سینئر ہو جاتے ہیں“ ۔ اس سال کی ایک اور اچھی بات یہ ہوئی کہ میں بھی، آپ بھی اور پیارا پاکستان بھی ایک سال اور سینئر ہو گئے۔ پڑے پڑے سینئر۔

ہر گزرا ہوا سال فقط ہماری عمر میں ایک نمبر کا اضافہ کرتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ اس سال میں بائیس برس کا تھا اور آنے والے سال میں تئیس برس کا ہوں گا۔ ویسے کوئی سات آٹھ دن پہلے میں تئیس برس کا ہو چکا ہوں۔ سال 2022 اپنا کام کر چکا ہے۔ عمر کا نمبر بڑھ چکا ہے۔ سال اپنا کام کر چکا ہے۔ اب اسے ختم ہو جانا چاہیے، یا بدل ہی جانا چاہیے، یا گزر جانا چاہیے۔ میں نے ایک آن میں ایک آن کے ”ہمیشہ“ میں اپنی عمر کا ایک اور برس کھو دیا ہے۔

پر میں نے پایا کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ محض کچھ خسارے۔ شاید خساروں پر خسارے اکٹھے کرنے کا نام ہی دنیا ہے۔ پھر آخرت کیا ہے! ؟ شاید کھوئی ہوئی زندگی کی مسلسل حسرت؛ اور شاید اس مسلسل حسرت میں کامیابی کا نام آخرت ہے۔ اور شاید اس کھوئی ہوئی دنیا جس کی ہم مسلسل حسرت میں ہیں اس کا نام جنت ہو۔ کاش ایسا ہی ہو۔

اے مجھے پڑھ کر اپنا وقت ضائع کرنے والے شخص مجھے ایک بات تو بتاؤ کہ بھلا ہمارے ہونے اور نا ہونے کی سب سے بڑی حقیقت کیا ہے! ؟ اگر کوئی تم سے پوچھے کہ کیا تم واقعی موجود ہو؟ کیا ہم واقعی موجود ہیں؟ اور یہ عباسی شہریار نامی شخص جسے تم پڑھ رہے ہو کیا اس کا وجود بھی کہیں موجود ہے! ؟ اگر یہ سب حقیقت ہے تو اس حقیقت کا جواز کیا ہے! ؟ میں بتاؤں۔ ”وہ حقیقت ہے گزرنا، گزرتے رہنا اور گزر جانا۔ کیا یہ بڑے دکھ کی بات نہیں ہے کہ ہم گزر رہے ہیں، گزرتے جا رہے ہیں اور گزر چکے ہیں“ ۔ خیر بات سال کی ہو رہی تھی، یہ سب خیالات نہ جانے کیوں آ گئے۔ امید ہے آنے والا سال تلافی کا سال ہو۔ سب کو سال نو مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments