قائد اعظم اور نظام اقتصادیات


 

”یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ظالمانہ اور شر پسند نظام کی پیداوار ہیں، جس کی بنیادیں ہمارے خون سے سینچی گئی ہیں۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے، اس لیے ان کے سامنے عقل اور انصاف کی کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں انتہائی مشقت کے باوجود صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ کیا یہ ہے ہماری شاندار تہذیب؟ کیا پاکستان کا مطلب یہ ہے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لاکھوں مسلمان معاشی ظلم کا شکار ہو کر ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہیں گے؟ اگر آپ کا مطلب یہ ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا۔“

بانی پاکستان، بابائے قوم، قائداعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی زندگی کو ان اقدار کے مطابق ڈھالیں جو قائد اعظم کو عمر بھر عزیز رہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں ان تصورات کو عملی جامہ پہنائیں جو قیام پاکستان کا محرک ثابت ہوئے۔ قائد اعظم کی زندگی جن اقدار عالیہ سے عبارت تھی ان میں محنت، ایثار اور استقلال نمایاں ترین ہیں۔ ان اقدار کو اپنا کر ہی ہم قائد اعظم کے سچے پیروکار بن سکتے ہیں۔

جہاں تک اجتماعی زندگی کا تعلق ہے بابائے قوم نے 40 ء سے لے کر 47 ء تک اور ہر قیام پاکستان سے لے اپنے دم واپسیں تک پاکستان میں ایک جدید، وسیع النظر اور ترقی پسند معاشرہ قائم کرنے کی خاطر جن اصولوں اور نظریات کو پیش کیا ہے وہی اصول اور نظریات ہماری اجتماعی زندگی کی نئی تنظیم اور ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر نو کے رہنما اصول ہونے چاہئیں۔ 1946 ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی بابائے قوم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی سے خطاب کے دوران صاف صاف اعلان فرمایا تھا:

’یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ظالمانہ اور شر پسند نظام کی پیداوار ہیں، جس کی بنیادیں ہمارے خون سے سینچی گئی ہیں۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے، اس لیے ان کے سامنے عقل اور انصاف کی کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں انتہائی مشقت کے باوجود صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ کیا یہ ہے ہماری شاندار تہذیب؟ کیا پاکستان کا مطلب یہ ہے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لاکھوں مسلمان معاشی ظلم کا شکار ہو کر ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہیں گے؟ اگر آپ کا مطلب یہ ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا۔ ”

سرکار دربار میں انتہائی اثر و رسوخ کے حامل ظالم طبقات کو اس انداز کی کھری کھری سنا کر قائد اعظم جہاں محروم اور مظلوم مسلمانوں کے دل کی آواز بن گئے، وہاں مسلم لیگ ان کی قیادت میں زبردست عوامی جمہوری تحریک بن کر ابھری۔ قیام پاکستان کے بعد جب سٹیٹ بنک آف پاکستان ہماری اقتصادی خود مختاری کی علامت بن کر ابھرا تو قائد اعظم نے یکم جولائی 1948 ء کو اس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کو اس امید پر ختم کیا کہ یہ بینک اسلامی اقتصادی نظام کی نئی تشکیل کے فرائض انتہائی انہماک کے ساتھ انجام دے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ:

”اسلامی زندگی کے معاشرتی اور اقتصادی تصورات سے ہم آہنگ بینکنگ کی تشکیل کے لیے آپ نے جس تحقیقی ادارے کے قیام کی نوید سنائی ہے میں اس کی کارگزاری کی جانب بڑی امید کے ساتھ نگراں رہوں گا۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے انسانیت کو ناقابل عبور مشکلات میں پھنسا دیا ہے۔ اس نظام کے ہاتھوں اس وقت دنیائے انسانیت جن خطرات میں مبتلا ہے ان سے نجات کوئی معجزہ ہی دلا سکتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران ہونے والی دو عالمی جنگیں بڑی حد تک اسی مغربی اقتصادی نظام کی دین ہیں۔

اس لیے مغرب کے اقتصادی نظریہ و عمل کی تقلید ہمارے لیے قطعاً مدد گار ثابت نہ ہو گی۔ ہمیں اپنے انداز میں اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہوئے ایک ایسا نیا اقتصادی نظام تشکیل دینا ہو گا جو انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ بھی ہو اور عہد حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کر سکے۔ صرف اسی طرح ہم مسلمانوں کی حیثیت میں دنیا کو امن کا پیغام بھی دے سکیں گے اور انسانیت کی مسرت اور خوشحالی کی راہ بھی روشن کر سکیں گے۔“

ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ با بائے قوم کی رحلت سے صرف چند ماہ بعد شائع ہونے والی سٹیٹ بینک کی پہلی سالانہ رپورٹ میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ اسلامی اقتصادی نظام پر تحقیق کا مجوزہ ادارہ قائم نہیں کیا جائے گا۔ اس ترک خیال و عمل کی وجہ فنڈز میں کمی اور موزوں افراد کی کمیابی بتایا گیا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان آج تک اس کمی اور کمیابی کا شاکی ہے۔ نتیجہ یہ کہ پاکستانی عوام آج تک مغرب کے اس اقتصادی نظام کے صیدزبوں ہیں جو بقول اقبال:

ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے۔ آئیے آج ہم بابائے قوم کی یاد کو گواہ بنا کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی اقتصادی زندگی کی تنظیم نو کا وہی راستہ اپنائیں گے جو ہمیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دکھایا تھا۔ جب ہم یہ راستہ اپنا کر پاکستانی معاشرے کو معاشی انصاف اور معاشرتی اخوت و مساوات کے زریں اصولوں کی بنیاد پر از سر منظم کرنے میں کامیاب ہو گئے، تب ہم خود کو بڑے فخر کے ساتھ با بائے قوم کے سچے پیروکار پاکستانی کہہ سکیں گے۔ ||

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments