وہ ایک آدمی!


جانے یہ ستّر کے پیٹے کا کیا دھرا ہے یا کچھ اور کہ عمران خان یکایک ”اس ایک آدمی“ کا نام بھول گئے ہیں جو کبھی ان کے دل میں گلاب بن کر مہکتا اور اب خاربن کر کھٹکتا ہے۔ کچھ دِن قبل، گھنٹہ بھر کے خطاب میں انہیں اس کا نام یاد نہ آیا۔ بولے… ”آٹھ ماہ پہلے ’ایک آدمی‘ نے فیصلہ کرکے ملک پر جو ظلم کیا وہ کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ اس ایک آدمی نے ہم سے ایسی دشمنی کی جیسے میں کوئی غدار یا ملک دشمن ہوں۔ ایک آدمی فیصلہ کر بیٹھا کہ اِس پارٹی کو ختم کرنا ہے اور عمران خان کو نااہل کروانا ہے۔ اس ایک آدمی نے ساری قوم کو مشکل میں پھنسا دیا ہے۔“

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان بہرحال احسان فراموش نہیں۔ جانتے ہیں کہ محبت، عشق، گہرے قلبی تعلق اور گزرے ہوئے مہربان موسموں کا بھی ایک قرض ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے شکستہ خوابوں، خون آلود تمناﺅں، جواں مرگ آرزﺅں اور زمین بوس خواہشوں کا دِل گداز نوحہ پڑھتے ہوئے بھی انہوں نے اس آدمی کا نام نہیں لیا لیکن پردہ پوشی کے باوجود بات بن نہیں پا رہی۔ ابھی کچھ دِن پہلے تک وہ ”اس آدمی“ کا نام باربار اور بڑے تواتر سے لیتے رہے ہیں۔ اپریل 2022 کے بعد سے ان کا کوئی خطبہ ایسا نہیں جس میں انہوں نے ’اس آدمی‘ کا نام نہ لیا ہو۔ شروع شروع اشارے کنائے میں۔ پھر ذرا کھلے اور ’جانور‘ سے تشبیہ دی۔ پھر میر جعفر میر صادق جیسی نفرت انگیز تلمیحات سے جی خوش کیا۔ فشارِ خون بھڑکا تو امریکیوں کا ”سہولت کار“ ہونے تک کی گالی دی۔

کون بھولا ہے کہ اپنے پونے چار سالہ سنہری عہد ِاقتدار میں بھی خان صاحب اکثر”اس ایک آدمی“ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے لیکن تب وہ احساسِ تفاخر اور فرطِ شوق سے مہکتے لہجے میں اس کانام چبتے بھی تھے۔ وہ ”اس ایک شخص“ کی سپاہیانہ شجاعت، جمہوریت نوازی، حب الوطنی، فراخ قلبی، معاملہ فہمی اور دستور پروری کے قصیدے اس طرح لہک لہک کر پڑھتے کہ سننے والوں کو وجد آ جاتا۔ 2019 میں اس ایک آدمی کی رخصتی کا لمحہ آن پہنچا۔ اسے بہرحال اپنی آئینی میعاد پوری کرکے گھر جاناتھا لیکن جدائی کے خیال سے ہی خان صاحب کا دل ڈوبنے لگا۔ آتش ہجر سے دہکتے دنوں اور سلگتی راتوں کے تصور سے انہیں ہول آنے لگا۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے یکایک ان کی پشت ننگی ہونے کو ہے اور غنیم کا لشکر امڈا چلا آتا ہے۔ سو اپنے اقوال زریں کو پس پشت ڈالتے ہوئے انہوں نے مزید تین سال تک وصلِ یار کی لذتیں سمیٹے رکھنے کا اہتمام کر لیا۔

”اس ایک شخص“ نے بھی معشوقانہ جاں سپاری اور دِل داری کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیا۔ اس نے خان صاحب کی شاہانہ اور آمرانہ ہی نہیں، طفلانہ آرزوﺅں کی تکمیل میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نیب، انسداد منشیات، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، پولیس، ضلعی انتظامیہ، غرض بڑے چھوٹے سبھی ادارے ”انسداد نوازشریف“ کے مقدس مشن سے جوڑ دئیے۔ غداری سے کرایہ داری تک ہر قانون متحرک ہوگیا۔ ”عدل گاہوں“ کو بھی بتا دیا گیا کہ خان صاحب کے حریفوں کو ریلیف دے کر ہماری کئی سالہ محنت پر پانی مت پھیریں۔ خزانہ کمزور پڑا تو وہ ایک آدمی نگر نگر سے پیسے مانگ کر لایا۔ ناخوش وبیزار ساتھی کارواں سے ٹوٹنے لگے تو ہانکا لگا کر انہیں باڑے میں کھینچ لایا۔ خان کے خلاف برسوں کسی مقدمے کا دفتر نہ کھلنے دیا۔

پھر یوں ہوا کہ ”وہ ایک آدمی“ عشق ومحبت کے اِس کھیل سے عاجز آنے لگا۔ اس کا اپنا بھی ایک قبیلہ تھا جو اس کی اصل طاقت تھا۔ وہ خان صاحب سے محبت کو جنوں کی اس حد تک نہیں لے جانا چاہتا تھا کہ اپنے قبیلے سے برسوں کا رشتہ توڑ کر دشت لاحاصلی کو نکل جاتا۔ اس نے منہ زور ہواﺅں کے اسپِ تازی کی باگیں ڈھیلی کرکے موسموں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ خان صاحب نے اس ایک آدمی کو تاحیات اپنے عہدے پر فائز رہنے کا لالچ دیا۔ بات پھر بھی نہ بنی۔ اپریل 2022 میں قومی اسمبلی کے ایوان نے ، نیا قائد ایوان چن لیا۔ خان صاحب اِس المیے کا ذمہ دار ”اس ایک آدمی“ کو سمجھتے ہیں۔ انہیں کوئی بتائے کہ وہ ایک شخص محض فردِ واحد نہیں، ہمارے جسد سیاست کی رگوں میں دوڑتی وہ ”روحِ عصر“ ہے جس نے چھ دہائیاں قبل ایوب خان نامی ”ایک آدمی“ کے روپ میں جنم لیاتھا۔ یہ عصری روح ستر برس سے کارفرما ہے۔ کبھی سرآئینہ، کبھی پس آئینہ۔ اسی ”روحِ عصر“ نے خان صاحب کی بے آب ورنگ سیاست کو دلہن بنایا۔ اس کی اجڑی مانگ میں سیندور بھرا۔ اس کے خدوخال میں شفق گوندھی۔ کیا خان صاحب نہیں جانتے کہ یہ سب کچھ کون سی ”آرائش گاہِ جمال“ (Beauty Parlour) میں ہوا؟ کس کس مشاطہ نے ان کی مشاطگی کی؟ اب جبکہ کڑی دھوپ نے ان کے عارض و رخسار کا غازہ پگھلا ڈالا ہے تو وہ ”اس ایک آدمی“ پر تبرہ کرنے لگے ہیں۔ تاریخ بڑی بے رحم ہے۔ کبھی یہ بھی تو طے پایا تھا کہ نوازشریف اور اس کی جماعت کو بھی بے دخل کر کے خان صاحب کو تخت حکمرانی پر بٹھانا ہے۔ اس وقت بھی یہی ایک آدمی انقلاب کا پرچم بردار تھا اور خان صاحب کے لئے اقتدار کے قلعے پر کمندیں ڈال رہا تھا۔ ستربرس کی عمر میں عمران خان کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ چھاتوں، چھتریوں، شامیانوں اور سائبانوں والی سیاست ساون کی ایک بوچھاڑ اور تیز ہوا کا ایک تھپیڑا بھی نہیں سہہ سکتی۔ یہ سبق بھی پلے باندھ لینے میں کوئی ہرج نہیں کہ ”عقد سہولت “ (Marriage of Convenience) میں وفاداری ، جاں نثاری اور فداکاری نام کی کوئی شئے نہیں ہوتی فقط سہولت کاری ہوتی ہے۔ کوئی کسی کے لئے بن باس لیتا ہے نہ اس کی چتا میں جل مرتا ہے۔

”ٹرک کی بتی“ کا ذکر کرتے ہوئے خان صاحب بھول گئے کہ ان کی سیاست کا آغاز ہی پرویز مشرف کے ٹرک کی بتیوں سے ہوا۔ راحیل شریف کے ٹرک کی بتیوں کا تعاقب کرتے ہوئے وہ اسلام آباد میں خیمہ زن ہوئے لیکن امپائر کی انگلی نہ اٹھی۔ 2018 میں ”اس آدمی“ کے ٹرک نے خان صاحب کو منزل مقصود تک تو پہنچا دیا لیکن وفا نہ کی۔ اب خان صاحب کے حد سے بڑھتے اضطراب اور بلند فشار خوں کا سبب یہ ہے کہ سرما کی گہری دھند نے بتیوں سمیت ٹرک ہی کو نہیں سڑک کو بھی نگل لیا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments