پاکستانی ٹیم دوسری شام تک دفاعی خول میں جاتی سی نظر آئی


ابرار احمد
 ٹیسٹ کرکٹ میں اننگز کی اوپننگ کسی عقدے سے کم نہیں ہوتی۔ فاسٹ بولر آف سٹمپ چینل کے باہر للچانے والی لینتھ سے حملہ آور ہو کر پے در پے باہری کنارے کو ہدف بناتے ہیں اور ڈرائیونگ لینتھ پر بلے باز کی ثابت قدمی کو امتحان میں مبتلا کیے رکھتے ہیں۔

مگر پہلی صبح کراچی کی پچ ٹیسٹ کرکٹ کی روایات کے یکسر الٹ چال چل رہی تھی اور پیسرز کے بجائے سپنرز کو پہلے گھنٹے میں چار ڈگری کا ٹرن مل رہا تھا۔ یہ اس قدر غیر معمولی ٹرن تھا جو پانچویں دن کی پچ پر بھی خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ 

اسی سپن اور ٹرن سے دامن بچانے کو پاکستانی اوپنرز نے قدموں کا استعمال کرنا ضروری سمجھا۔ ایسی بے محابا سپن سے نمٹنے کے عموماً دو ہی طریقے ہوا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بلے باز کریز میں مزید پسپا ہو کر ایسا سٹانس اپنا لے جہاں اسے قدرے زیادہ وقت میسر آ جائے اور وہ سپن کو بھانپنے کے قابل ہو جائے۔  

دوسرا اور عام طریق یہ ہوتا ہے کہ بلے باز کریز سے باہر نکلے اور قدموں کے استعمال سے گیند کی پچ تک رسائی حاصل کر کے سپن اور ٹرن کو سرے سے ہی منہا کر ڈالے۔ یہی طریق کراچی ٹیسٹ کی پہلی صبح پاکستانی اوپنرز نے اختیار کیا۔

عہد ساز بلے باز برائن چارلس لارا نے کہا تھا کہ اگر سپن کے خلاف آپ کریز میں پیچھے نہیں ہٹ سکتے تو آگے بھی مت بڑھیں۔ پاکستانی ٹاپ آرڈر مگر قدم بڑھاتا چلا گیا اور قدم قدم خسارہ سمیٹتا چلا گیا۔ میچ کے پہلے ایک گھنٹے میں جیسی یلغار کیوی سپنرز نے کر ڈالی، بعید نہیں تھا کہ دو ہی سیشنز میں پاکستانی اننگز کا بستر گول ہو جاتا۔

مگر پھر سرفراز احمد کریز پر آئے اور اپنے یادگار کریئر میں پہلی بار اپنے ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اُنھوں نے اس ہونی کو ٹال دیا جو ٹم ساؤدی کے ذہن میں تھی۔ سرفراز احمد کی اننگز نے نہ صرف ساؤدی کے خواب مسمار کیے بلکہ پاکستانی ڈریسنگ روم پر منڈلاتے خدشات کے سائے بھی ٹال دیے۔ 

نیوزی لینڈ

اگرچہ اس ساجھے داری میں زیادہ حصہ بابر اعظم کا تھا مگر جو تائید اُنھیں دوسرے کنارے سے سرفراز احمد نے فراہم کی، وہی دراصل وہ تشنگی تھی جو پچھلے کئی ٹیسٹ میچز میں پاکستانی اننگز کو پریشان کیے چلی آ رہی تھی۔ ان کی بدقسمتی رہی کہ سینچری کے عین قریب پہنچ کر بھی اپنے کم بیک کو یادگار نہ بنا پائے مگر بہر حال اُنھوں نے پاکستان کے لیے اس میچ کو یادگار بنانے کی داغ بیل ضرور ڈال دی۔ 

بابر اعظم کی سینچری نے جہاں کیوی ارمانوں کا خون کیا، وہیں آغا سلمان کی جارحانہ اننگز نے بارِ دگر ساؤدی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا جو دوسری صبح جلدی جلدی ملبہ سمیٹنا چاہ رہے تھے۔ آغا کی پہلی ٹیسٹ سینچری کی بدولت پاکستان میچ میں مسابقت سے بڑھ کر برتری کے مقام پر آ گیا۔

مگر پاکستان کی اس ٹیسٹ ٹیم کا بنیادی مسئلہ بیٹنگ سے کہیں بڑھ کر بولنگ ہے جسے اپنے تجربہ کار چہروں کی عدم دستیابی کے بعد 20 وکٹیں اڑانے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ ابرار احمد نوآموز ہیں اور نعمان علی بھی بائیں ہاتھ کے کیوی بلے بازوں کے خلاف زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو پائے۔

لیگ سپنرز عمومی طور پر بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف اپنا جادو نہیں جگا پاتے کہ ایل بی ڈبلیو کے امکانات زندہ رکھنے کے لیے اُنھیں راؤنڈ دی وکٹ بولنگ کرنا پڑتی ہے جہاں بسا اوقات ان کی کاٹ میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہو رہتی ہے۔

پاکستانی بولنگ اٹیک کی ناتجربہ کاری اپنی جگہ، مگر جس ثابت قدمی سے ٹام لیتھم اور ڈیوون کونوے نے پاکستانی سپن کو نمٹایا، وہ بہرحال ستائش کی مستحق ہے۔  

اگرچہ ابرار احمد اور نعمان علی نے بھی پہلی صبح کے سیشن کی طرح فلائٹ دے کر اُنھیں لبھانے اور کریز سے باہر کھینچ لانے کی تگ و دو کی مگر نہ تو پچ میں پہلی صبح کا سا مبالغہ آمیز ٹرن تھا اور نہ ہی کیوی اوپنرز کسی جلدبازی کے موڈ میں تھے۔ 

ڈیوون کونوے بھی لیتھم ہی کی طرح ثابت قدم رہے اور یوں لنچ تک میچ پر واضح برتری رکھنے والی پاکستانی ٹیم دوسری شام تک دفاعی خول میں جاتی سی نظر آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments