ہر کاپی پیسٹ کرنے والا سائنس دان نہیں ہوتا نہیں


آپ نے کبھی کوئی واہیات اور فضول قسم کا اخبار پڑھا ہو تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے ان کی حرکتیں کیا ہوتی ہیں۔ یہ صحافت کے نام پر گٹروں سے ابلتا ہوا تعفن زدہ سیوریج ہیں۔ ان کا کام سنسنی پھیلانا، درست خبر کی بجائے عوام میں غیر یقینی کی فضا بنانا، افواہوں کا بازار گرم کرنا اور بس وہی لگائے رکھنا جو ارباب اختیاران نے ستتر سال سے اس ملک و قوم کو لگا رکھا ہے۔ ان کا طریقہ واردات بھلا کیا ہوتا ہے؟ اخبار کے پہلے صفحے پر مرکزی شہ سرخی جس نے آدھا صفحہ گھیرا ہوتا ہے کچھ یوں ہوتی ہے۔

”ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات“

اس کے بعد کونے میں قدرے مہین لکھائی میں، وزارت تعلیم کے ترجمان کا کہنا ہے شدید گرمی میں بچوں کی صحت کے ساتھ نہیں کھیل سکتے۔ ملک بھر میں گرمی کی لہر سے سکول جانے والوں بچوں میں ہیٹ ویو کے باعث اموات کا خدشہ۔

اسلام آباد، لاہور، کراچی، نیوز ایجنسیاں : وزارت تعلیم نے ملک میں بڑھتی ہوئی گرمی کی شدت کے پیش نظر باقی صفحہ 5 بقیہ نمبر 11

جب چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر، اخبار کو کھولا جاتا ہے تو اس کے دو تین صفحات نیچے فرش پر گر جاتے ہیں۔ انہیں اٹھانے کے لئے جھکو تو میز پر بازو ٹکرانے سے دو چار چمچ اور ایک آدھ کٹوری بھی ساتھ نیچے آ رہی۔ بڑی مشکل سے یہ سب چیزیں اٹھا کر دوبارہ میز پر رکھنے اور اخبار کے پھڑپھڑاتے ہوئے یہ دو دو گز لمبے صفحات کو سمیٹ کر سلیقے سے تہہ کر کے جب بقیہ نمبر گیارہ کھولا جاتا ہے تو آدھا گھنٹہ اور آدھا صفحہ طویل طومار کے بعد نیچے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات کب ہونی ہیں اس بارے میں ابھی نہ کوئی اعلان کیا گیا ہے نہ ہی محکمہ تعلیم نے کوئی اعلی سطحی میٹنگ بلائی ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات کا حتمی فیصلہ محکمہ تعلیم کے اجلاس کے بعد ہی کیا جائے گا۔

یہ سب کچھ صحافت میں اس لئے در آیا کہ اس شعبہ میں نکمے، نالائق اور جاہل صحافی بھرتے چلے گئے۔ یہی حال اب سائنس کا بھی مملکت ناقة الصالح علیہ السلام میں کیا جا رہا ہے۔ اس کی ذرا ایک جھلک دیکھیے۔

”وہ لمحہ جب جرمنی میں مینڈک دھماکے سے پھٹنے لگ پڑے“

ناظرین و قارئین جرمنی میں ایک وقت ایسا آیا جب سائنسدانوں نے دیکھا کہ مینڈک پٹاخ پٹاخ پھٹ رہے ہیں۔ وہ بہت حیران ہوئے۔ ۔ پون صفحہ کا جاسوسی ڈائجسٹ۔ خاتمہ ایسا کہ جس کا سائنس سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا مولوی خادم رضوی کا تہذیب و شائستگی سے تھا۔

لکھنے والا کون؟ ایک ذہنی نابالغ بائیس چوبیس سالہ لڑکا ضیغم قدیر جس کی گریجوایشن بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ پڑھتا کہاں ہے؟ پیر مہر علی شاہ ایرڈ ایگری کلچر یونیورسٹی مری روڈ راولپنڈی واقع شمس آباد۔ مشہور جس کے بارے میں یہ ہے کہ جس غبی اور کمزور طالب علم کے نمبر انتہائی کم ہوں اور کہیں داخلہ نہ ہوتا ہو اسے ایرڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔ میرٹ جس کا شاید پنجاب بھر میں سب سے کم ہے۔ پشتو زبان میں ایک کہاوت ہے سلیس اردو میں ترجمہ جس کا یہ بنتا ہے کہ تشریف ڈھانپنے کو چیتھڑا تک میسر نہیں لیکن چوڑیاں کلائی سے لے کر کہنی اور پھر اس سے بھی آگے مونڈھے تک پہنی ہوئی ہیں۔ اتنے آپ سائنسدان ہیں تو کسی بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی میں سکالر شپ پر نہ جاتے؟

یہاں کیوں جھوٹی سچی کہانیاں سائنس کے نام پر گھڑ گھڑ کر پب جی نسل کا دماغ خراب کیے جاتے ہیں۔

پھر دوسری بات یہ کہ آپ ہر فن مولا بلکہ ہر فن مولا جٹ ہیں۔ سائنس کا کوئی شعبہ ہو آپ اس پر اتھارٹی ہیں۔ ایک بار سینیئر کنسلٹنٹ گائناکولوجسٹ طاہرہ کاظمی سے بدتمیزی کرتے پائے گئے۔ صاحبو آپ کا دماغ مزید کیا کھاؤں بس ایک جملے میں بتاتا ہوں کہ موصوف یوتھیے ہیں۔

اب آ جائیے ایک بڈھ لچ کی طرف۔ نام قدیر قریشی ہے۔ عمر ساٹھ سے اوپر ہے یعنی سٹھیایا ہوا ہے۔ بات چونکہ لمبی ہوئی جاتی ہے تو یوں سمجھیے کہ بس ضیغم قدیر سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔

اس کی ساری سائنس بچیاں متاثر کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ فیس بک پر کوئی خوبرو حسینہ دیکھی نہیں اور اس کے سامنے اپنا نظریہ اضافیت نکالا نہیں۔ اخیر کوئی ترسا ہوا سنکی بڈھا ہے۔ نیشنل جیوگرافک، سائنس ڈیلی اور دنیا بھر کی سائنسی ویب سائٹس سے مواد اٹھا کر کاپی پیسٹ مارتا ہے یا پھر اردو میں اس کا ترجمہ کر کے اپنے نام سے پوسٹتا ہے۔ بیچ بیچ میں بڑدولیاں خوب مارتا ہے۔ کوئی لڑکی سوال پوچھے تو سیدھا انباکس میں چلا جاتا ہے کوئی مرد اگر اس کی سائنس کے رد میں کوئی دلیل پیش کردے تو منہ کو آتا ہے۔

ان لوگوں نے فیس بک پر ایک گروپ بنا رکھا ہے۔ نام اس کا سائنس کی دنیا ہے۔ ان کی اپنی ہی ایک دنیا ہے جس میں یہ اپنی اپنی سائنس کی رفع حاجت کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ایسے ایسے اوٹ پٹانگ سوال آتے ہیں کہ خدا کی پناہ اور جو ان کے جواب دیے جاتے ہیں وہ تو سبحان ہی اللہ۔

مثلاً ایک سوال آیا کہ اگر زمین واقعی گھوم رہی ہے تو مجھے چکر کیوں نہیں آرہے۔

قدیر قریشی نے جواب دیا کہ جس طرح پہلے پہل کوئی کام ہو تو بہت محسوس ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کی عادت ہوجاتی ہے اسی طرح جب ہمارے اباؤ اجداد اس زمین پر تشریف لائے تو اس وقت ان کو چکر محسوس ہوئے تھے اب چونکہ ہمیں طویل عرصہ یہاں کے ماحول میں ہو گیا ہے لہذا اب ہم اس کے عادی ہو گئے۔

یا پھر کوئی تھرڈ کلاس آرٹیکل جس طرح کا روزنامہ خبریں اخبار یا کسی بھی اڑے مٹے جریدے کا معیار ہوتا ہے بعینہ اپنے نام سے چھاپ دینا اور پھر اس پر اکڑنا اور اوسط درجہ سے کم ذہانت والے معاشروں مثلاً پاکستان میں وائرل ہو جانے کے بعد اپنے تئیں سچ مچ سائنسدان گرداننا اور اگر کوئی جاننے بوجھنے والا، ان سے زیادہ مطالعے والا کوئی اختلافی کمنٹ کر بیٹھے تو باں باں کرنا اور طرز گفتار میں خلیل الرحمان قمر ہوجانا۔ ان ساری بیماریوں کو اگر دو جگہ جمع کر دیا جائے تو قدیر قریشی اور ضیغم قدیر بنتے ہیں۔

سائنس اور مذہب کا سب سے بڑا اور بنیادی فرق ہی یہی ہے کہ سائنس دعوت عام دیتی ہے کہ اس کے خلاف ثبوت مہیا کیے جائیں تاکہ سائنسی اصولوں کو اختلاف کی بھٹیوں میں پکا پکا کر جب نکالا جائے تو یہ کندن ہو چکے ہوں۔ اس کے بعد بھی سلسلہ ختم نہ ہو۔ بلکہ باقاعدہ کسی بھی نظریہ اور تھیوری کو غلط ثابت کرنے کے در ہمیشہ وا رکھے جاتے ہیں۔

اور جونہی کوئی ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت مہیا ہوتے ہیں سائنس ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر برسوں کی محنت سے اٹھائے گئے نظریات و قوانین کی عمارت کو منہدم کر کے اس کے ملبے کو ایک بار پھر تجربات اور تحقیق کی کٹھالی میں ڈال کر پکانا شروع کر دیتی ہے۔ مذہب قطیعت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ روگردانی کرنے والوں کو دھمکایا جاتا ہے۔ مارا جاتا ہے۔ ان سے بدتمیزی کی جاتی ہے۔ سنگسار کیا جاتا ہے۔ جو کچھ انسانیت سوز سلوک آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے وہ مذاہب عالم کی تواریخ میں موجود ہے۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ دودھ، انڈے، ڈبل روٹی اور دیسی گھی کے ساتھ ساتھ سائنس بھی ملاوٹ والی ملنے لگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments